امریکی صدر ٹرمپ نے آخری وقت پر ایران پر سرجیکل سٹرائیک کرنے کا فیصلہ واپس لے لیا۔ انھوں نے ایران پر جوابی حملے کافیصلہ ایران کی جانب سے امریکی ڈرون گرانے کے بعد کیا تھا۔ یاد رہے کہ ڈرون گرانے سے پہلے ایران کی انقلابی فوج نے تیل کے غیر ملکی ٹینکر بردار جہاز پر حملہ کرکے خطے میں جنگ کے امکانات بڑھا دیئے ہیں۔ صدر ٹرمپ کے مشیروں نے حملے کافیصلہ تبدیل کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ جو اپنے متنازعہ فیصلوں پر اپوزیشن کی طرف سے ہر وقت تنقید کا نشانہ بنتے رہتے ہیں لیکن حملہ نہ کرنے پر ان کی تعریف کی گئی ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ جب ان کے مشیروں نے بتایا کہ اس حملے کے نتیجے میں 150 افراد ہلاک ہو سکتے ہیں اور یہ جنگ طویل بھی ہو سکتی ہے تو انھوں نے حملے کافیصلہ واپس لیا ہے۔صدر ٹرمپ نے بارہا اس بات کا اعادہ کیا ہے وہ شمالی کوریا کی طرح ایران سے بھی گفتگو کے ذریعے معاملات حل کرنا چاہتے ہیں ۔ ٹرمپ کے مشیروں کا کہنا ہے کہ ایران پر جو اقتصادی پابندیاں لگائی گئی ہیں وہ انتہا ئی موثر ثابت ہورہی ہیں ۔لہذا جنگ کی بجائے اگر مزید پابندیاں عائد کی جائیں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
ایران پر جو اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں ہیں اس کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت کافی پتلی ہے ۔ اور ایرانی عوام میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے جسے ایرانی ملاوں نے ڈنڈے کے زور پر دبا رکھا ہے۔ ایرانی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کا خمیازہ ایران کے عوام بھگت رہے ہیں۔ یاد رہے کہ جب صدر اوبامہ نے ایران پر سے پابندیاں ختم کرنے کااعلان کیا تھا تو ایرانی عوام کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا لیکن ایرانی ملائوں کی جانب سے دہشت گردوں کی مسلسل حمایت پر ٹرمپ انتظامیہ نے دوبارہ پابندیا ں لگا دی تھیں۔
ایرانی حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنگ کرنے کو تو تیار ہیں لیکن اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ایران میں کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن شاید اس کا حال پاکستانی جمہوریت سے بھی برا ہے۔ایران میں بھی فیصلے اسلامی انقلاب کے نام پر قابض ایک کونسل کرتی ہے جو انتہا پسند ملائوں مشتمل ہے جسے ولایت فقیہ کا نام دیا گیا ہے۔
مشرق وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب، اپنی اپنی پراکسیز کے ذریعے غلبے کی جنگ لڑرہے ہیں۔ لیکن پچھلے ایک سال سے سعودی عرب اور اس کے اتحادی عرب ممالک نے داعش اور القاعدہ کی فنڈنگ بند کردی ہے جس کی وجہ سے دنیا میں ان کی دہشت گردانہ سرگرمیاں ختم ہو کر رہ گئی ہیں۔ جبکہ ایران مسلسل حماس اور حزب اللہ کے ذریعے مشرق وسطیٰ میں بدامنی پیدا کررہا ہے اور اسرائیل کو تباہ کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے۔
لبنان کی حزب اللہ اور فلسطین کی حماس جو کہ داعش اور القاعدہ کی طرح ہی دہشت گرد تنظیمیں ہیں کو ایران کی حمایت حاصل ہے جو خطے میں بدامنی کی فضا قائم رکھے ہوئے ہیں۔ حزب اللہ و حماس ہر دو تین سال بعد اسرائیل پر چند راکٹ برساتی ہے اور جواب میں سینکڑوں بندے مروا کر دنیا میں مظلومیت کا ڈھونگ رچاتی ہے۔
سعودی عرب کی طرف سے یمن پر بمباری کی تو مذمت کی جاتی ہے لیکن ایران کے متعلق عموماً خاموشی اختیار کی جاتی ہے ا جو مسلسل یمن میں باغیوں کی مدد کررہا ہے۔ ایران کو درپردہ روس اور کسی حد تک چین کی حمایت بھی حاصل ہے۔ روس اپنی سیاست کے لیے ایران کو مذہب کے نام پر استعمال کر رہا ہے۔
ایران کو چاہیے کہ تیل کی دولت سے دہشت گردوں کی مدد کرنے اور مذہب کے نام پر ہزاروں فلسطینوں کی زندگیوں کو استعمال کرنے کی بجائے پہلے اپنے عوام کی حالت درست کرے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی میں ترقی کرے اور پھر دنیا کو فتح کرنے کے خواب دیکھے۔یہی حال پاکستان کے حکمرانوں کا ہے دفاع کے نام پر بھارتی کشمیر اور افغانستان میں دہشت گردوں کی حمایت پر قوم کے وسائل ضائع کردیے جاتےہیں جبکہ عوام غریب سے غریب تر ہورہی ہے۔
Web Report