ایران پر امریکہ کی جانب سے جو اقتصادی پابندیاں لگائی گئیں ہیں اس کی وجہ سے ایران کی معاشی حالت کافی پتلی ہے ۔ اور ایرانی عوام میں کافی بے چینی پائی جاتی ہے جسے ایرانی ملاوں نے ڈنڈے کے زور پر دبا رکھا ہے۔ ایرانی حکمرانوں کی ہٹ دھرمی کا خمیازہ ایران کے عوام بھگت رہے ہیں۔
امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف سخت ترین پابندیوں نے ایک عام ایرانی شہری کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ ایرانی شہریوں کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں نے ان کی ’کمر توڑ‘ کر رکھ دی ہے۔ لیکن ایرانی ریاست بدستور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
یاد رہے کہ جب صدر اوبامہ نے ایران پر سے پابندیاں ختم کرنے کااعلان کیا تھا تو ایرانی عوام کی طرف سے اس کا خیر مقدم کیا گیا تھا لیکن ایرانی ملائوں کی جانب سے دہشت گردوں کی مسلسل حمایت پر ٹرمپ انتظامیہ نے دوبارہ پابندیا ں لگا دی تھیں۔
ان پابندیوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے اقتصادی دباؤ نے اسی ملین آبادی کے ملک ایران میں کسی سب وے میں فن کا مظاہرہ کرنے اور بدلے میں لوگوں کی جانب سے سکوں کی صورت انعام پانے والے فن کار سے لے کر دلہنوں کے خالی پرس تک، ہر شخص کو متاثر کیا ہے۔
بہت سے ایرانی شہری اس کا الزام صدر ٹرمپ اور ان کی ایران کے خلاف سخت پالیسیوں کو قرار دیتے ہیں۔ 2015ء میں ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کے بعد حالات رفتہ رفتہ بہتری کی طرف بڑھ رہے تھے، تاہم گزشتہ برس ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے سے اخراج کا اعلان کر کے ایران کے خلاف دوبارہ پابندیاں نافذ کر دیں۔
حالیہ کچھ عرصے میں ایران کی جانب سے کئی بار یورپی طاقتوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ جوہری ڈیل بچانے کے لیے ایران کو مراعات دیں۔ تہران امریکی صدر کے اقدام کو ‘ایران کے خلاف اقتصادی جنگ‘ قرار دیتا ہے۔ حال ہی میں ایران کی جانب سے امریکی ڈرون طیارہ مار گرانے کے واقعے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ایران خطے میں موجود امریکی فورسز سے کسی بھی محاذ آرائی کے لیے تیار ہے۔
دوسری جانب اس واقعے کے بعد امریکا نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ تاہم فقط ٹرمپ ہی نہیں کئی ایرانی شہری بھی اقتصادی ابتری کا الزام تہران حکومت پر عائد کرتے ہیں۔
بائیس سالہ شیوا کشوراز کا کہنا ہے، ”اقتصادی جنگ ایک حقیقت ہے اور اس سے عوام شدید دباؤ کا شکار ہوئے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ایرانی رہنما عوام کو بتا رہے ہیں کہ وہ مضبوط رہیں تاکہ دباؤ برداشت کیا جا سکے، مگر ہمیں اپنی‘ہڈیاں ٹوٹتی محسوس ہو رہی ہیں‘‘۔
یہ بات اہم ہے کہ جوہری ڈیل کے وقت ایک امریکی ڈالر 32 ہزار ایرانی ریال کے برابر تھا، تاہم اس وقت ایک ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال کی قدر کم ہو کر ایک لاکھ تیس ہزار تک پہنچ چکی ہے، جب کہ افراطِ زر کی شرح 27 فیصد اور بے روزگاری کی شرح 12 فیصد تک جا پہنچی ہے۔
ایرانی حکمران اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لیے جنگ کرنے کو تو تیار ہیں لیکن اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں۔ ایران میں کہنے کو تو جمہوریت ہے لیکن شاید اس کا حال پاکستانی جمہوریت سے بھی برا ہے۔ایران میں بھی فیصلے اسلامی انقلاب کے نام پر قابض ایک کونسل کرتی ہے جو انتہا پسند ملائوں مشتمل ہے جسے ولایت فقیہ کا نام دیا گیا ہے۔
DW/Web Desk