ذوالفقار علی زلفی
نواب اکبر خان بگٹی نے مذاکرات کیے، ٹی وی و اخبارات کو انٹرویوز دیے، سیاسی بیانات دیے مگر پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ نوآبادیاتی منصوبوں اور فیصلوں پر ڈٹی رہی ـ وہ نواب صاحب کو جھکانے و توڑنے میں ناکام رہے تو ان کی جان کے درپے ہوگئے ۔سرد و گرم چشیدہ مستقبل بین بلوچ بھانپ گئے “دل کا جانا ٹھہر گیا ہے” اور انہوں نے بالاچ گورگیج کی روایت دہرا دی “کوہ اَنت بلوچانی کلات” ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پہاڑوں پر چلے گئے ـ
26 اگست 2006 کو صرف اطلاع آئی :
مرے چارہ گرکو نوید ہو ، صفِ دشمناں کو خبر کرو
وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر ، وہ حساب آج چکا دیا
نواب اکبر خان بگٹی کا قتل/شہادت بلوچ اجتماعی یادداشت کا انمٹ حصہ ہے اور یقیناً رہے گا لیکن آج بارہ سال بعد یہ سوال اپنے آپ سے پوچھنا ضرور بنتا ہے کہ بلوچ تحریک آگے گئی ہے یا پیچھے؟ ـ فوجی اسٹبلشمنٹ نے عیاری سے نواب صاحب کے نام پر ٹرین اور اسٹیڈیم کے نام رکھ دیے تانکہ ایک سرکاری بگٹی متعارف کی جاسکے ، انہیں مزاحمت کی علامت بننے سے روکا جاسکے ـ معروضی حقیقت بھی یہی ہے مزاحمتی اکبر خان بگٹی لمحہ بہ لمحہ مٹتے جارہے ہیں ـ
آج صورت حال یہ ہے بگٹی کا مقابلہ مشرف سے کیا جاتا ہے نہ کہ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ سے ـ بلوچ مان بھی گئے ـ یہ بلوچ کی سادگی نہیں بڑھک باز اور کوتاہ فہم قیادت کی نااہلی ہے ـ
بارہ سال گزر گئے ـ ایک نسل جواں ہوگئی ـ پاکستان کی فوجی اسٹبلشمنٹ آج بھی وہاں کھڑی ہے ، جہاں تھی ـ منصوبے اب بھی وہی ہیں ، فیصلے ہنوز برقرار ہیں ـ بلوچ کہاں ہیں؟ ـ
نواب اکبر خان بگٹی کے بعد مزاحمت کی ایک شدید لہر آئی ـ نوجوانوں نے بلا تخصیص مرد و زن تحریک کو بھرپور توانائی فراہم کی ـ فوجی اسٹبلشمنٹ ردعمل کی شدت سے بوکھلا گئی ـ بلوچ قیادت مگر اس سارے غصے کو منظم سیاسی قوت کا روپ دینے میں ناکام رہی ـ فوجی اسٹبلشمنٹ نے حواس بحال کیے تو اسے متعدد رخنے نظر آئے ـ اہم ترین رخنہ منظم سیاسی جماعت کی عدم موجودگی قرار پائی ـ
قیادت منتشر تھی ـ کوئی لندن چلا گیا ، کسی نے جنیوا کی راہ لی ، کسی نے کابل کو مسکن بنایا تو کوئی بندوق اٹھا کر پہاڑوں کو نکل گیا ـ زمین پر حیران پریشان غیر منظم نوجواں تھے ـ فوجی قوت نے پوری طاقت سے حملہ کردیا ـ یہ سفاک ترین منظم حملہ ایک نہیں ہمہ طرف سے ہوا ـ نوجوان کٹ کٹ کر گرے ، مسلح مزاحمت محدود سے محدود تر ہوئی ـ قائد لندن کیوں گیا؟ ـ جنیوا کا فیصلہ کس نے کیا؟ ـ کابل کو کیوں چنا گیا؟ ـ کوئی سیاسی جماعت ہوتی تو سوال بھی اٹھتے ، سیاسی فیصلے ہوتے ، قائد پارٹی کا پابند بھی ہوتا ـ شترِ بے مہار کی مانند جس کا جو جی چاہا کرتا رہا ـ حکمت عملی ندارد ، دور اندیشی عنقا رہا ـ طبقاتی حیثیت کی برقراری ہی مقدم ٹھہری ـ
لینن بھی باہر گئے مگر یہ بالشویک پارٹی کا سوچا سمجھا سیاسی فیصلہ تھا ـ واپس آئے پارٹی فیصلے کے تحت آئے ـ ان گنت مثالیں دی جاسکتی ہیں ـ مگر سنے گا کون؟ ـ سردار تباہ شدہ بلوچ کی قیادت کا سنگین بار اٹھائے یورپ جاکر باتصویر نمازیں پڑھا رہا ہے ـ حماقتوں کی آبشار بہہ رہی ہے اور بڑھک باز مقلدین نہا رہے ہیں ـ
نواب اکبر خان بگٹی کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے ـ قیادت آپس میں بھڑ گئی ـ بلوچستان کی سرزمین ذہن سے تہی ہو رہی تھی قیادت “سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے ناچ سکتے ہیں” جیسے احمقانہ سوالات پر لڑ رہی تھی ـ
وہ جنہیں خلقِ خدا کے لیے زمینی خداؤں سے لڑنا تھا خود زمینی خدا بن بیٹھے ـ جو ہمارے ساتھ نہیں وہ زندہ رہنے کا حق دار نہیں ـ بے سمت قتل و غارت گری نے دشمن بڑھا دیے، دوست گھٹتے گئے ـ بندوق کو سیاست کے تابع رہنا چاہیے ، اس موٹے اصول کو بالائے طاق رکھ کر سیاست کو بندوق کے تابع رکھا گیا ـ
آج زمین پر مزاحمت نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے ـ ہر قسم کی سپلائی لائن کٹ چکی ہے ـ پاکستان کے انتظامی صوبہِ بلوچستان کی سیاست سردار اختر مینگل کی شکل میں جگہ بنا رہی ہے ـ سردار اختر مینگل؛ لاپتہ افراد کی بازیابی چاہتے ہیں ، بلوچ لاپتہ کیوں ہے؟ یہ سوال نقار خانے میں طوطی کی آواز بن چکی ہے ـ خوش کن تقریریں ہیں ، نوآبادیاتی اسمبلیوں میں چیخ و پکار ہے ، ان اسمبلیوں میں جن کو کبھی یہ کہہ لعنت دی گئی کہ یہاں بزرگوں کی فاتحہ خوانی منع ہے ـ پاکستان کی بدترین حکومت کو کندھا فراہم کرنا اینٹی اسٹبلشمنٹ سیاست کہلائی جارہی ہے ـ
نواب اکبر خان بگٹی ایک مزاحمتی بلوچستان دے کر گئے تھے ـ اس مزاحمت کا نااہلی کے ساتھ سودا ہوچکا ہے ـ خواب غیر سیاسی فیصلوں کے ہاتھ بک چکے ہیں ، دعوی ۔۔۔۔۔۔۔ خشک دعوے رہ گئے ہیں ـ
بلوچ قومی سوال زندہ ہے ـ اپنے حقیقی حل تک زندہ رہے گا ـ بلوچستان ، پاکستان کی کالونی ہے اس حقیقت کو جھٹلانا ممکن نہیں ہے ـ بلوچ مکمل آزادی چاہتا ہے یہ چاہت برقرار رہے گی ـ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مان لینا چاہیے سیلِ رواں کے آگے بند باندھا جاچکا ہے ـ منجمد پانی پر حاصل بزنجو و اختر مینگل کی اجارہ داری ہے ـ فوجی اسٹبلشمنٹ کو منجمد پانی پسند ہے سیلِ رواں نہیں ـ
سوچنا ہوگا ، تنظیم بنانی ہوگی ، سیاسی فیصلوں کا اختیار سیاسی کارکنوں کو دینا ہوگا ـ کھوکھلے دعوے جگ ہنسائی کا سامان پیدا کرتے ہیں ـ دنیا کو ہنساؤ مت کہ بلوچ رو رہا ہے ـ روتا ہوا بلوچ معاف نہیں کرے گا ـ
26 اگست فی الحال بے رنگ ہوچکا ہے ـ چنگاری پھر بھڑکے گی، کب؟ معلوم نہیں ـ تاریخ شاہد ہے بلوچ بولتا بھی ہے اور لڑتا بھی ہے ـ اڑتے پرزوں کو دیکھ کر ہوا کے بدلتے رخ کو پہچاننا ہوگا ـ
♦