افغان طالبان کا کہنا ہے کہ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء سے متعلق جاری مذاکراتی عمل کے نتیجے میں معاہدہ طے پا جانے کی صورت میں بھی وہ کابل حکومت کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے۔
امریکا اور طالبان کے مابین قطر میں گزشتہ ایک سال سے مذاکراتی عمل جاری ہے۔ اس عمل کا مقصد افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اور کئی سالوں سے جاری بدامنی اور جنگ کا خاتمہ ہے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے انخلاء کے بدلے میں وہ اس ملک کی سرزمین کو دہشت گردوں یا عسکریت پسندوں کو استعمال نہیں کرنے دیں گے۔
امریکی مذاکرات کار اس کوشش میں ہیں کہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بھی جنگ بندی پر آمادہ کر لیں لیکن ایک سینئر طالبان رہنما نے نیوز ایجنسی روئٹرز کو بتایا کہ افغان طالبان افغان حکومت کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے۔
اس طالبان کمانڈر نے اپنا نام ظاہر نہ کرتے ہوئے کہا،” ہم کابل حکومت کے ساتھ جنگ جاری رکھیں گے اور جنگ کے ذریعے طاقت حاصل کریں گے۔‘‘ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء اور نائن الیون کے بعد سے جاری اس اٹھارہ سالہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ لیکن افغان حکام اور کچھ امریکی سکیورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ امریکی افواج کا انخلاء افغانستان کو ایک مرتبہ پھر سرد جنگ میں دھکیل سکتا ہے۔ اور ممکنہ طور پر ایک ایسا سیٹ اپ بن سکتا ہے جہاں افغان طالبان ایک مرتبہ پھر حکومت میں آجائیں اور ‘اسلامک اسٹیٹ‘ جیسی دہشت گرد تنظیم اس ملک میں پناہ حاصل کرے۔
نیوز ایجنسی روئٹر کو ایک اور طالبان کمانڈر نے بتایا کہ اگلے ہفتے تک امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط ہوسکتے ہیں جس کے تحت امریکی افواج طالبان پر حملے نہیں کریں گی اور طالبان بھی امریکی افواج کو نشانہ نہیں بنائیں گے۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکا کابل حکومت کی حمایت ختم کر دے گا۔ اس طالبان کمانڈر نے کہا،”اس معاہدے کے تحت ہمارے خلاف جنگ میں، امریکی، افغان حکومت کی حمایت نہیں کریں گے‘‘۔
کئی دہائیوں سے جنگ سے نبردآزما ملک افغانستان میں 2001ء کے بعد سے طالبان ملک کے زیادہ تر حصے کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہیں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ عام شہریوں کی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ آج چودہ ہزار امریکی فوجی افغانستان میں موجود ہیں اور افغان فوجیوں کی تربیت اور انسداد دہشت گردی کے آپریشنز ان کی ذمہ داریوں میں شامل ہیں۔ ساتھ چھ ہزار نیٹو فوجی بھی افغان افواج کی تربیت کے لیے افغانستان میں تعینات ہیں۔گزشتہ ایک سال سے امریکا کے ساتھ جاری مذاکراتی عمل کے باوجود جنگی کارروائیوں میں کمی نہیں آئی۔ امریکی فوجی افغان افواج کے ساتھ مل کر طالبان اور ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔
روئٹر کو دو سفارتی ذرائع سے معلوم ہوا کہ قطر میں طالبان کے ساتھ مذاکرات کے نویں دور کے بعد اس ہفتے معاہدے پر دستخط ہو سکتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت امریکا پچاس فیصد فوجیوں کا فوری انخلاء کر پائے گا جبکہ طالبان اور کابل کے مابین کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے مذاکرات کا عمل علیحدہ سے شروع کیا جائے گا۔ ایک سفارت کار نے روئٹرز کو بتایا،” امریکا اور طالبان کے درمیان معاہدے کے تحت امریکا طالبان پر فضائی کارروائیاں نہیں کرے گا اور نہ ہی طالبان غیر ملکی فوجیوں کو نشانہ بنائیں گے۔‘‘ قطر میں طالبان کے دفتر کے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہے،” زیادہ تر معاملات طے پا گئے ہیں لیکن باضابطہ معاہدے پر دستخط ہونا باقی ہے۔‘‘۔
DW