محمدحسین ہنرمل
کابل کو ایک مرتبہ پھر خون میں نہلایاگیا۔ہزارہ برادری کی باراتی تقریب کے دوران پَل بھر میں انسانی لہو کا دریا بہہ گیا۔آخری اطلاعات کے مطابق اسی سے زیادہ کلمہ طیبہ پڑھنے والے مسلمان اس دھماکے میں شہید اور دوسو سے زیادہ دزخمی ہوئے ہیں۔ہر طرف اشرف انسانوں کے جسمانی اعضا بکھر گئے۔اٹھانے والوں کو یہ ادراک کرنا مشکل ہو گیا کہ لاشوں کے اس ڈھیر میں سَرکس کا ،ہاتھ پاوں کس کے اور دھڑ کس کاہے؟ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی تصاویر دیکھ کر سر شرم سے جھک جاتاہے۔بے شک ،اقبال نے ایسے درندہ نما مسلمانوں ہی کے بارے میں بہت پہلے کہا تھا کہ
یہ مسلمان ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائے یہود
کیا اسرائیل کی بہترسالہ تاریخ میں کسی نے سنا ہے کہ وہاں پر کسی یہودی نے اپنے ہم مسلک افراد کو؟بلکہ اس پورے عرصے میں اسرائیلیوں نے اُن فلسطینیوں کے چیتھڑے بھی ایسی بے دردی سے نہیں اڑائے ہیں جنہیں وہ اپنا دشمن سمجھتے ہیں؟ ہندووں کوہم لاکھ انتہا پسند کہیں، لیکن کیا ان انتہا پسندوں نے اپنے ملک میں ایسی سنگ دلی کے ساتھ اپنوں کا تودرکنار،غیروں کا شکار کیا ہے؟کیا کوئی یہ گواہی دے سکتا ہے کہ اس دور میں ایک عیسائی مذہب کے ماننے والے نے اپنے ہم عقیدہ لوگوں کی زندگیوں کے ساتھ اس طرح بھیانک کھیل کھیلاہو؟ ۔
ان تمام سوالات کے جوابات مجھے نفی میں مل رہے ہیں۔بہت کم اور بہت شاذ ایسے عیسائی ،یہودی اور ہندو ہونگے جو اس نوعیت کی ظلم کا سوچ سکے اور پھر اس کو عملی جامہ پہنائے گا۔ نیوزی لینڈ میں چار ماہ قبل دہشتگردی کا ایک دلخراش واقعہ پیش آیا، پورے مغرب میں اس پرندامت اور شرمندگی محسوس کی گئی۔اس ملک کی خاتون وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن میں بھی اتنی غیرت تھی کہ ہفتوں تک وہ مسلمان کمیونٹی کے ساتھ کھڑی رہ کر یکجہتی اور ماتم کا اظہار کرتی رہیں۔دوسری طرف ہمارے غازی ہیں کہ روز اپنوں کو کاٹ کاٹ کر تھکنے کا نام نہیں لیتے۔
ان غازیوں کی دانست میں وہ افغانستان ابھی تک مسلمان نہیں ہوا ہے جس کی پوری تاریخ اسلام اور اسلامی اقدار پر کھڑی ہے۔جہاں کے اولیا ء پورے برصغیر میں پھیل کر لوگوں کو الہیات اور آسمانوں سے جوڑتے رہے–جس کے بارے میں اقبال شاہدی دے چکے ہیں کہ مذہب ان لوگوںگھٹی میں پڑی ہے،۔
افغانیوں کی غیرت دین کا ہے یہ علاج
ملا کو ان کے کوہ و دمن سے نکال دو
کابل میں اب کی بار نہیں بلکہ روز ایسی قیامتوں بپا ہوتی ہیں لیکن ہم نے ان مظالم پرمجرمانہ خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔حالیہ دھماکے کے نتیجے میں اسی سے زیادہ افراد شہید ہوئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے ۔دلہن کے والد بتارہے تھے کہ اس دھماکے میں ان کے خاندان کے چودہ افراد چل بسے ۔درجنوں گھرانے اجڑگئے ،درجنوں والدین نے اپنے پیارے کھودیئے لیکن ہمارے رد عمل اور ہماری لفاظی مذمت پر تُف۔کیا یہاں پر روز انتخابی دھاندلی، مہنگائی اوربجلی لوڈشیڈنگ کیلئے سڑکیں بلاک کر دینے والی مذہبی جماعتوں کی قیادت نے اس انسانیت سوز المیے اور تاریخی ظلم کے خلاف بھی چند افراد کی ریلی نکالی؟
کیا کسی مولانا فضل الرحمان، سراج الحق، علامہ خادم رضوی، حامدحقانی اور کسی ابولبابہ شاہ منصور نے یہ ضرورت محسوس کی ہے اس خطے میں پچھلے چالیس سال سے اسلام کے مقدس نام پریہ کیا خونی کھیل کھیلا جارہاہے اور کب تک انسانی سروں کی کٹائی کا یہ بھیانک عمل جاری رہے گا؟ کیا یہ لوگ اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ جہاد کے نام پر فساد پھیلانے والوں کے مفسد نظریات کو باطل قرار دے کر ان سے خود بھی اور دوسروں کو بھی لاتعلق رکھیں ؟
دہشتگردی اور انتہاپسندی کے ناسور کو وقتی طور پر فوجی آپریشنز اور ریاستی اداروں کے عملیات کے نتیجے میں مات دیا جاسکتاہے لیکن اس کا قلع قمع کرنے کا حل قطعاً یہ نہیں ہے۔ نظریاتی اور فکری طور پر جب تک اس خونخوار طبقے کو قائل نہ کیا جاسکے تب تک یہ جنازے گرتے رہیں گے ۔میرا یقین ہے کہ نظریاتی محاذ پر ہمارے علماء کرام ہی یہ فریضہ بہتر انداز میں انجام دے سکتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے ہمارے علماء کو پہلے ایک پیچ پر آنا ہوگا ۔ایک حتمی اور جاندار بیانیہ تشکیل دینا ہوگایوں اس ناسور کے خلاف انہیں اجتماعی طور پر بھی اور انفرادی طور پر بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔
میں نہیں سمجھتاکہ ہمارے علماء کرام سورۃ الحجرات کی اس چھوٹی آیت کا کیا ترجمہ وتشریح کرتے ہیں کہ ’’انما المومنون اخوۃ‘‘ تمام مسلمان بھائی بھائی ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ وہ اپنے نبی اس حدیث کو کس نظر سے دیکھتے ہیں جس میں فرمایا گیاہے کہ ’’ ان المومن للمومن کاالبنیان یشد بعضہ بعضاً‘‘ یعنی مسلمان مسلمان کیلئے ایک عمارت کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتاہے ۔کیا چالیس سال سے اپنے لہو میں تڑپتے افغانوں نے ہم اور ہمارے علماء کو کبھی تڑپنے پر مجبور کیاہے ؟ کیا اس آگ کو ٹھنڈا کرنے کیلئے انبیاء کے ورثاء کے پاس چلو بھر پانی بھی ہے یا نہیں؟
♦