طارق احمدمرزا
ایک ایسے وقت میں جب مسلسل کئی ہفتوں سے گھروں میں محصور بھارتی کشمیری مسلمان خون کے آنسو بہا رہے تھے، انہیں محصورکرنے والا بھارتی وزیراعظم نریندر مودی متحدہ عرب امارات اور اس کے بعد بحرین کے مسلمان حکمرانوں سے ان ممالک کے اعلیٰ ترین سول اعزازحاصل کرنےجارہا تھا ، ہمارے ایک وفاقی وزیر جناب شیخ رشید احمد کوایک سابق برطانوی “سوسائیٹی گرل” کرسٹین کیلر یاد آرہی تھی۔
دھیرکوٹ میں ایک مجمع سے خطاب کرتے ہوئے شیخ صاحب موصوف نے اپنی مخصوص داد طلب مسکراہٹ کے ساتھ جب کرسٹین کا نام لیا تو بہت سے آزاد کشمیریوں کے سینوں سے بے اختیار “ہائے !” کی آوازیں نکل گئیں اور شیخ صاحب کی مونچھیں دائیں بائیں ایک ایک انچ مزید پھیلتی نظر آئیں۔
واضح رہے کہ آپ کا یہ دورہ محصور کشمیریوں سے اظہار یکجہتی کے لیے تھا۔ تاہم مجمع میں موجود آزاد کشمیریوں کی خواہش تھی کہ وہ مسلم کانفرنس کے ایک ایک مقامی لیڈر کا نام لے کر ان کا شکریہ ادا کریں۔
تقریر کے دوران شیخ صاحب نے ایک سانس میں عمران خان کوداد دیتے ہوئے کہا کہ وہ امریکہ کو پہلی بار نیوٹرل پالیسی اختیارکرنے پر مجبورکرنے میں کامیاب ہوگئے تو اگلی ہی سانس میں کہہ اٹھے کہ ” امریکہ کی دوستی اور کرسٹین کیلر کا معاشقہ ایک جیسا ہوتا ہے۔جس طرح کرسٹین کیلر کسی ایک کی نہیں ہوتی،اسی طرح امریکن پالیسی بھی ۔عمران خان کا فیصلہ سرآنکھوں پر۔۔۔۔۔۔۔“۔
میں اعتراف کرتا ہوں کہ کرسٹین کے نام پر آزاد کشمیریوں کی زبان سے بے اختیارہائے نکل جانے پر اپنی لا علمی کا بری طرح احساس ہوا۔چنانچہ تہیہ کرلیا کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے اس وفاقی وزیر کی تقریر ختم ہوتے ہی “گوگل” کروں گا کہ کرسٹین کیلر کون تھی اور وہ کیوں کسی ایک کی نہ ہوسکی جس کا شکوہ ہمارے کنوارے وفاقی وزیر صاحب کو ابھی تک ہے۔
کرسٹین کیلر شیخ رشید احمد صاحب کی پیدائش سے آٹھ سال قبل سنہ 1942 کے پرآشوب دور میں ایک غریب برطانوی گھرانے میں پیدا ہوئی۔اس کا باپ دوسری جنگ عظیم کے دوران اپنی فیملی کو بے یارومددگارچھوڑ کرکہیں غائب ہو چکا تھا۔
بدقسمتی سے کرسٹین کم سنی میں ہی اپنی ماں کے بوائے فرینڈ اورگھر میں آنے جانے والے کچھ نام نہاد” انکلز” کے ہاتھوں باربار ریپ ہوئی جس نے اس کا بچپن یا لڑکپن تو کیا پوری زندگی ہی گھن کی طرح چاٹ لی۔ غم اور صدمہ کے مارے اندر ہی اندر کڑھتی اور خاموشی سے روتی بلکتی دن بدن سوکھتی چلی گئی حتیٰ کہ ایک سکول ہیلتھ انسپکٹر نے ترس کھا کر ایک خیراتی ہوسٹل میں داخل کروا دیا تاکہ کم از کم اس کی جسمانی صحت کا تو خیال رکھاجاسکے۔
اس کا گھر تھا بھی کیا،ریل کے دو ڈبوں کو ملا کرایک “گھر” بنایا گیا تھا۔ کرسٹین 17 برس کی تھی جب ایک افریقی نژادامریکی فوجی سے اپنے پہلے بچے کی ماں بنی ۔ اس بچے کے سہارے اس نے بطور ایک “سنگل مام” بقیہ زندگی گزارنے کا تہیہ کرلیا لیکن افسوس کہ وہ ابھی 6 دن کا ہی تھا کہ چل بسا۔
چھوٹی موٹی ایک دو نوکریاں کرنے کے بعد کرسٹین کو لندن کے ایک ریسٹورنٹ میں جاب ملی تو وہاں اس کی ملاقات ایک ماڈل سے ہوئی جولندن کے “ریڈ لائٹ زون ” کی سوہو سٹریٹ میں واقع ایک کلب میں کام کرتی تھی ۔ وہ کرسٹین کو اپنے ساتھ کلب لے گئی جس کی مالکن نے اسے اس بات پر آمادہ کرلیا کہ اگر وہ کم وقت میں زیادہ پیسہ کمانا چاہتی ہے تو اسے نیم برہنہ ہوکر کلب کے گاہگوں کا خیال رکھنا ہوگا۔جس پر کرسٹین راضی ہوگئی۔کلب میں اس طرح اور بھی کئی لڑکیاں کام کرتی تھیں۔
اسی کلب میں سٹیفن وارڈ نامی ہڈیوں کے ایک ڈاکٹر(آسٹیوپیتھ) کی نظرِ انتخاب کرسٹین پر پڑیں تو اس نے اسے لندن کی ہائی سوسائٹی میں متعارف کروانے کا سوچا۔ سٹیفن وارڈ طبیب کے علاوہ آرٹسٹ بھی تھا اور ہائی سوسائٹی کے اشرافیہ طبقہ کی خاطر رنگا رنگ پروگرام اور پارٹیاں منعقد کروانے کی وجہ سے اس طبقہ میں کافی مقبول تھا۔
اشرافیہ نے سٹیفن وارڈ کی اس” دریافت” پر اسے خوب داد دی۔کرسٹین شہرت کی منزلیں طے کرتی کہیں سے کہیں جا پہنچی۔ سٹیفن وارڈ نے اسے اپنے گھر کے ایک حصہ میں رہائش بھی دے دی تھی۔ لوگ یہی سمجھتے تھے کہ ان دونوں کے درمیان جنسی تعلقات بھی ہونگے لیکن کرسٹین نے مرتے دم تک اس کا انکارکیا ۔اس کا کہنا تھا کہ وہ دونوں ایک دوسرے کو بیحد پسند ضرور کرتے تھے لیکن ان کا پیار مادی نہیں بلکہ تصوراتی اور افسانوی قسم کا تھا۔
کرسٹین نے البتہ یہ اعتراف کیا کہ سٹیفن کی پارٹیوں میں شرکت کرنے والے ایک روسی اتاشی کے ساتھ کچھ عرصہ اس کے تعلقات قائم ہوئے تھے۔ اس کے علاوہ چند اور افراد کے ساتھ بھی، جن میں کرسٹین کی وجہ سے ایک دوسرے سے رقابت اور حسد کی آگ نے باہم گالم گلوچ دھینگا مشتی بلکہ فائرنگ تک کی نوبت پہنچا دی۔
ان ہنگاموں اور ان کی خبروں نے کرسٹین کی دھوم پورے ملک میں مچا دی۔ اشرافیہ کے دل پھینک طبقہ کے لئے اس حسینہ کی قربت میں چند لمحے گزارنا شہرت حاصل کرنے کا ایک تیربہدف نسخہ اور سٹیٹس سمبل سمجھا جانے لگ گیا۔
اسی دور میں اس کی زلف کا اسیر ہونے والوں میں ایک برطانوی وزیرجان پروفیومو بھی شامل تھا جو وارسیکرٹری تھا۔ کرسٹین کے ساتھ اس کا سکینڈل سرعام آیا تو اسے اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑگیا۔ اخبارات اور عوام الناس نے اس حوالے سے اس وقت کے برطانوی وزیراعظم ہیرلڈ میکملن کو بھی تنقیدکا نشانہ بنایا۔
کہا جاتا ہے کہ جان پروفیومونے اپنی بے عزتی کا بدلہ کرسٹین کے سرپرست اورپروموٹر سٹیفن وارڈ کے خلاف ایک مقدمہ دائرکر کے لیا جس میں اس پر کرسٹین کو بطور طوائف استعمال کرکے اس کی کمائی سے شاہانہ انداززندگی گزارنے کا الزام لگایا۔مقدمہ کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی سٹیفن وارڈ نے بڑی مقدارمیں نیند آور دوا کھا کر خود کشی کرلی۔
کرسٹین عمر بھر اس مؤقف پہ ڈٹی رہی کہ وہ طوائف تھی یا ہے۔شاید وہ اپنے تئیں اس کھوکھلے اور دہرے معیاررکھنے والی برطانوی کنزرویٹو سوسائٹی کی چھوٹی عزت کا پردہ چاک کرنے کے مشن پر کمربستہ ہوچکی تھی،جس نے اس کی عفت اور عصمت کو بچپن میں ہی تارتارکرڈالاتھا۔
کرسٹین پرروس کے لئے جاسوسی کرنے کا بھی الزام لگایا گیا۔بی بی سی کے ایک رپورٹر کا کہنا ہے کہ یہ الزام اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے اپنے افسران اور وزرا وغیرہ کی غیر اخلاقی سرگرمیوں اورنالائقی اورنااہلی کے پردے چاک ہونے پر محض خفت مٹانے کی خاطر لگائے۔
کرسٹین کو ایک مقدمہ میں چندماہ کی سزا بھی ہوئی۔رہائی کے بعد اس نےاس مصنوعی اور تصنع بھری زندگی کو خیرباد کہ کر گھر بسانے اور ایک “نارمل” زندگی گزارنے کی سوچی۔یکے بعد دیگرے دو شادیاں کیں جو ناکام رہیں۔ ان دونوں شادیوں سے اس کے دو بچے پیدا ہوئے۔
ان ناکام شادیوں کے بعد کرسٹین نے گوشہ نشینی اختیار کرلی۔ بعد میں اس کی آمدن کا بڑا ذریعہ اس کی لکھی ہوئی کتابیں،اور ٹی وی انٹرویوز رہے۔اس کی داستان حیات پرمبنی ایک فلم بھی بنی جو برطانیہ میں ریلیز نہ ہو سکی۔
ایک دستاویزی فلم جان پروفیومو کے کرسٹین کے ساتھ اسکینڈل پر بھی تیارکی گئی ۔اسی طرح کچھ گلوکاروں نے کرسٹین کے حوالے سے گیت بھی تیار کئے جو خاصے مقبول ہوئے۔
کرسٹین کیلر 75 برس کی عمر میں4 دسمبر 2017 کو پھیپڑوں کے عارضہ کی وجہ سے اس دنیا سے کوچ کر گئی۔
اخبار دی ڈیلی ٹیلیگراف نے اس کی وفات پر یہ زبردست شہ سرخی جمائی کہ ” بالآخر کرسٹین کو بدروحوں کے چنگل سے آزادی مل گئی“۔یہ وہی بدروحیں تھی جو کم سنی سے اس کی وفات تک اس کے پیچھے پڑی رہی تھیں۔
اخبار نے مزیدلکھا کہ بیچاری کرسٹین کیلر عمربھر جس عزت اور توقیر کے لئے ترستی رہی وہ اسے اس کے جنازے کی صورت میں نصیب ہوئی۔
قارئین کرام افسوس کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف ضرورکریں گے کہ ڈیلی ٹیلیگراف کی معلومات کے برعکس بدروحوں نے کرسٹین کیلر کا پیچھا اس کے مرنے کے بعد بھی نہیں چھوڑا۔ کچھ بدروحیں ابھی تک کرسٹین کیلر کا پیچھا کرتی چلی آرہی ہیں اور ان میں کچھ دیسی بدروحیں بھی شامل ہیں۔جوجلسے جلوسوں میں اس کے معاشقوں کا ذکرکرکے ہائے ہائے پکاراٹھتی ہیں۔
کرسٹین کیلرکے بعد میں نے محترم شیخ رشیداحمد صاحب کو گوگل کیا تو معلوم ہوا کہ موصوف کے بھی کافی سارے غیرسیاسی اور سیاسی معاشقے مشہور ہیں۔
مختصراً یہ کہ اسلامی جمہوری اتحاد کے ساتھ معاشقہ کیااور وزارت کے مزے لوٹے۔بعد میں مسلم لیگ نون کے بانی میاں نوازشریف صاحب کے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں کھائیں اور پھر وزیربنے۔جب میاں صاحب پربرے دن آئے توجنرل مشرف کے بوٹ چمکانااپنی زندگی کا نصب العین بنالیا،وزیر بن گئے اور پھر چوہدری صاحبان کی قاف لیگ کو اپنااوڑھنا بچھونا بنالیااور پھر وزیربن گئے۔
وزیراعظم شوکت عزیز صاحب بھی شیخ صاحب کی اداؤں سے دل لبھانے والوں میں شامل ہوئے۔آج کل ظاہر ہے پی ٹی آئی اور عمران خان صاحب کے بے دام غلام بنے ہوئے نظرآرہے ہیں اورپھر وزیرہیں۔کل کو کوئی اور آیا تو علیٰ ھٰذہ القیاس اس کے ساتھ بھی معاشقہ فرمالیں گے۔
ایک ستم ظریف کا یہ بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں جب بھی فوجی انقلاب آیا تو شیخ رشیدصاحب شہر میں داخل ہونے والے پہلے فوجی ٹینک کے آگے نہیں بلکہ اس کے اندرلیٹے ہوئے پائے جائیں گے۔
واضح رہے کہ کرسٹین کیلر کی طرح شیخ صاحب بھی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے تھے۔بقول ان کے وہ لال حویلی کے سامنے کتابیں بیچاکرتے تھے۔اب وہ خود لال حویلی کے اندر رہتے ہیں اور جب بھی وزیر بنتے ہیں ،غریب پاکستانی والدین مہنگائی کی وجہ سے اپنے بچوں کی کتابیں ردی میں بیچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں تاکہ ان کی فروخت سے حاصل شدہ پیسوں سے ایک وقت کی روٹی تو کھا سکیں۔
شاید کرسٹین کیلر کی طرح شیخ رشید احمد صاحب بھی اپنے تئیں اس معاشرہ سے انتقام لے رہے ہیں جس نے انہیں بچپن میں کتابیں بیچنے پر مجبورکردیا تھا۔
مجھے یاد پڑتا ہے شیخ صاحب کے ان نہ ختم ہونے والےمعاشقوں پر ایک صحافی نے اعتراض کیاتھا تو جواب میں انہوں نے فرمایاتھا کہ سیاست دان ہوتا ہی وہی ہے جو ہر حکومت اور ہر دورمیں “اِن” رہے۔
طوائف کے بارہ میں بھی کہا جاتا ہے کہ طوائف ہوتی ہی وہی ہے جو کسی ایک کی ہی نہ ہوکر رہ جائے ۔ ہر دور میں اس کا ایک نیا معاشقہ ضرور سامنے آنا چاہیے تاکہ “اِن” رہے۔
اس گوگل والی تحقیق کے بعد راقم اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ محترم شیخ صاحب کے کشمیرمیں دیئے گئے بیان کو اگر قبول کرنا ہے تو اس ترمیم کے ساتھ کہ ” امریکہ کی دوستی اور کرسٹین کیلر یا شیخ رشید کا معاشقہ ایک جیسا ہوتا ہے۔ جس طرح کرسٹین کیلر اور شیخ رشید کسی ایک کے نہیں ہوتے،اسی طرح امریکن پالیسی بھی ۔۔۔بھلےعمران خان کا فیصلہ سرآنکھوں پر !”۔