بیس برس قبل میں سرینگر گیا تھا۔ وہاں مجھے اپنے ادارے کی طرف سے بھارت کے خلاف برپا ہونے والی بغاوت کی خبریں ارسال کرنے کے لیے بھیجا گیا تھا۔ یہ ایک انتہائی خوبصورت جگہ تھی۔ ڈل جھیل میں تیرتے ہوئے شکارے، جھیل کے کنارے چنار اور بید کے خوبصورت درخت، ان درختوں کے پیچھے بادام اور خوبانی کے باغات، پس منظر میں مغلیہ دور کے واٹرگارڈنز اور اس کے اوپر برف سے ڈھکی عظیم ہمالیہ کی چوٹیاں۔ لیکن میں نے پہلے دن سے ہی اس خوبصورت جنت سے خوفناک ٘مظالم کی داستانیں ارسال کرنی شروع کر دی تھیں۔
اکیس جنوری1990 کی صبح ہزاروں کی تعداد میں کشمیری شہر میں لگا کرفیو توڑتے ہوئے سڑکوں پر نکلے۔ وہ گزشتہ شب خانہ تلاشیوں کے دوران لوگوں پر ہونے والےپولیس تشدد پر احتجاج کر رہے تھے۔ جب یہ لوگ کدال پل پر پہنچے، تو نیم فوجی دستوں نے تین اطراف سے خود کار مشین گنوں سے ان نہتے لوگوں پر فائر کھول دیا۔
اس شام میں شہر کے ہسپتال گیا۔ یہاں بستروں پر جگہ ختم ہونے کے بعد زخمی بڑی تعداد میں راہداریوں میں پڑے تھے۔ ایک زخمی انجینئر نے مجھے بتایا کہ کس طرح نیم فوجی دستوں نے فائرنگ کے بعد ان لوگوں کو قتل کیا، جو زندہ بچ گئے تھے۔ جان بچانے کے لیے اس نے مرنے کی اداکاری کی۔ وہ دم سادھ کر لیٹ گیا اور دیکھتا رہا کہ کس طرح سپاہی زخمیوں کو موت کے گھاٹ اتارتی رہے۔
کسی نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا وہ آدمی زندہ ہے۔ ایک سپاہی نے مجھ پر گولیاں برسانی شروع کیں۔ چار گولیاں میری پشت پر اور دو گولیاں بازوں پر لگیں۔ اس دوارن ایک اور سپاہی نے بھی اپنی بندوق مجھ پر تان لی ، مگر اس کے آفیسر نے اس سے کہا کہ اپنا امیونیشن مت برباد کرو یہ خود مرجائے گا۔ مگر میں بچ گیا۔ اور اب ہسپتال کے فرش پر پڑا ہوں۔
یہ پیراگراف میں نے ایک کتاب سے اردو میں ترجمہ کر کہ اپنے الفاظ میں پیش کیا ہے۔ اب آپ کہیں گے کشمیر میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ ہماری آنکھوں کے سامنے آئے روز حقیقی دردناک واقعات رونما ہو رہے ہیں، اور آپ کتاب کا قصہ لیکر بیٹھ گئے۔ مگر کیا کیا جائے کہ یہ کوئی عام کتاب نہیں ایک کشمیری لکھاری بشارت پیر کی یاداشتوں پر مبنی کتاب ہے، اور اتفاق سے اس کتاب کا نام بھی “کرفیو نائٹ” ہے۔
بشارت پیر اس وقت کشمیر میں بڑا ہوا جب وادی میں شورش یابغاوت اپنے عروج پر تھی، جس کی وجہ سے اب تک ایک لاکھ کے قریب لوگ مر چکے ہیں، کئی زخمی اور معذور ہو ئے ہیں۔ یہ غیر معمولی کتاب کشمیر میں ہونے والے تصادم پر ایک کلاسیک کا درجہ رکھتی ہے۔ بشارت پیر صرف تیرہ سال کا تھا، جب قتل و غارت گری کا آغاز ہوا۔ مگر اس نے بڑے افسردہ خاطرانداز میں اس وقت کی یادیں قلم بند کیں ہیں۔ اور بتایا ہے کہ کیسے اس کے بچپن کا مٰعصوم دیہی کشمیر خوفناک میدان جنگ میں بدل گیا۔
بشارت پیر انت ناگ کے نزدیک ایک چھوٹے سے گاوں میں پیدا ہوا تھا۔ اس کا باپ ایک سول سرونٹ تھا، جس نے گاوں کے سکول ٹیچر کی بیٹی سے شادی کی ہوئی تھی۔ اس گھرانے کے پاس کچھ زمین تھی۔ کاشت کے موسم میں پورا گھرانہ مل کر کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ گاوں میں کسی کے پاس ٹیلی فون نہیں ہوتا تھا۔ اور گاوں میں صرف چند ایک افراد ایسے تھے، جو کبھی وادی سے باہر گئے ہوئے تھے۔
یہاں سےباہر کی دنیا بہت دور لگتی تھی، اور اس دور دنیا میں بھارت بھی شامل تھا۔ الحاق ہندوستان کے معائدے کے تحت ریاست کو اندرونی خود مختاری دے دی گئی تھی۔ یہ واحد ریاست تھی، جس کو اپنے اندرونی معاملات پر پورا اختیار تھا۔ بھارت کا کام صرف اس کی سرحدوں کی حفاظت کرنا تھا۔ مگر آنے والی بھارتی حکومتوں نے کشمیر میں اپنے اختیارات میں بدستور اضافہ کیا۔ سن1953میں اس وقت کے وزیر اعظم شیخ عبداللہ کو قید کر دیا گیا۔ نہرو نے اقوم متحدہ میں جس رائے شماری کا وعدہ کیا تھا، اس پر کبھی عمل نہیں ہوا۔
اس کے برعکس بار بار منتخب حکومتوں کو برطرف کیا جاتا رہا اور دلی کا برا ہ راست حکم گورنر راج کے تحت یہاں پر چلتا رہا۔ ترقیاتی فنڈ میں خورد برد ہوتی رہی۔ خواص کے لیے چار بڑے گولف کورس تو تعمیر ہوئے، مگر عوام کے لیے سکول ، ڈیمز اور صنعت کاری پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ سال 1987 کے انتخابات میں شرم ناک دھاندلی کے بعد غضبناک کشمیری لیڈر زیر زمین چلے گئے۔ اس کے فورا بعد وادی میں بم پھٹنے لگے۔ ہڑتالیں ہونے لگیں۔ خون خرابہ ہونے لگا، اور پتھر پھنیکے جانے لگے۔
بشارت پیر بتاتا ہے کہ کس قدر بھارتی سپاہیوں کی طرف سے تشدد اور ریپ کے واقعات سے لوگوں میں شدت پسندی پیدا ہوئی۔ ان واقعات نے کشمیر کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ ہر گاوں میں مسلح لڑاکے پیدا ہونے لگے۔ اور گاوں سے ہندو جن کے اباو اجداد صدیوں سے یہاں آباد تھے اور مقامی صوفی مسلمانوں سے مل جل کر رہتے تھے، ہجرت کر کہ جانے لگے۔ بشارت جب موسم سرما کی چھٹیوں کے بعد موسم بہار میں سکول لوٹا تو ہندو بچوں کے ڈیسک خالی تھے۔
سنہ1990 کے وسط میں وادی میں عجیب واقعات ہونے لگے۔ جو عورتیں پورا برقعہ پہننے سے انکار کرنے کی جرات کرتیں ان پر تیزاب پھینکا جانے لگا۔ بھارتی فوجی گاوں کی تلاشی لیتے اور لوگوں کو نقاب پوش مخبروں کے سامنے پریڈ کراتے۔ کوئی انگلی اٹھاتا تو اس پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا۔ بشارت پیر نے تین عشرے پہلے کے واقعات کی جو تصویر کشی کی وہی واقعات آج ایک بار پھر رونما ہوتے نظر آرہے ہیں۔ آج بھی وادی میں ہر طرف فوجی بوٹوں کی دھمک ہے۔ سڑکوں پر گشت اور پہرے ہیں۔ گولیوں کی تڑ تڑاہٹ ہے۔ گلیوں اور بازاروں میں خون کے دھبے ہیں۔ شہر میں خوف وہراس اور دہشت کے سائے ہیں۔ کئی عشرے پہلے کشمیر پرچھایا جانے والا کرفیو ناِئٹ کا گھٹاٹوپ اندھیرہ آج بھی اسی طرح چھایا ہے۔
کشمیر کے لوگ حیرت و افسوس سے یہ دیکھتے ہیں، اور سوال کرتے ہیں کہ یہ کرفیو نائٹ کب ختم ہو گی۔ ظلم کی یہ سیاہ رات کا سویراکب ہو گا۔
ماضی کے واقعات کی سنگینی اپنی جگہ مگر اب کی بار مرکز کی طرف سے کشمیریوں کے جمہوری اور بنیادی حقوق پر بہت سخت شب خون مارا گیا۔ ریاست کی پوری آبادی کو یر غمال بنا کر ان پر ایک نیا آئینی و قانونی بندو بست مسلط کیا گیا۔ ان کے ساتھ ماضی میں کیے گئے تمام معاہدے اور وعدے یک طرفہ طور پر، اور ان کو کوئی اطلاع دیے بغیر انتہائی سفاکانہ طریقے سے توڑ دیے گئے۔ ان کی مرضی یا منشا جاننا تو ایک طرف ان کو بتائے بغیر نئی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ یہ شب خون مارنے کے لیے جو خوف و دہشت کی فضا پیدا کی گئی۔ ہردس گز پر ایک فوجی کھڑا کر دیا گیا۔ اور حکمران طبقات آخری لحمے تک جھوٹ بولتے رہے کہ یہ بندوبست ایک متوقع دہشت گردی کے واقعے سے نمٹنے کے لیے ہے۔
مستقبل کا کوئی تاریخ نویس جب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کی تاریخ لکھ رہا ہوگا تو وہ بڑی حیرت اور افسوس سے لکھے گا کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت نے کس طر ح بیک وقت جبر، فریب اور مکاری سے کام لیتے ہوئے ایسے اقدامات کیے، جن کا کسی کھلے سماج میں تصور تک نہیں کیا جا سکتا ۔ جس کا کوئی قانونی اخلاقی اور سیاسی جواز نہیں فراہم کیا جا سکتا۔ یہ طاقت ، غرور اور تکبر کا ایک کھلا مظاہرہ تھا۔ جس کا مقصد کشمیری عوام کی کھلی تذلیل کے سوا اور کیا ہو سکتا ہے۔ مستقبل میں یہ تاریخ پڑھنے والے اسے حیرت و افسوس سے پڑھیں گے۔ تجزیہ کار اس کی کوئی عقلی یا منطقی توجیح نہیں کر سکیں گے۔
♦