پاکستان کے علاوہ دنیا میں شاید کوئی اور ملک ایسا ہو جہاں فوجی سربراہ کی تعیناتی کے حوالے سے اتنی دلچسپی پائی جاتی ہو اور کسی فوجی افسر کی تعیناتی یا ملازمت میں توسیع عوامی سطع پر زیر بحث آتی ہو۔ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کی تعیناتی یا ملازمت میں توسیع کے فیصلے کے حوالے سے مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر بحث اور مباحثہ خلاف معمول بات نہیں ۔ اس فیصلے کی حمایت اور مخالفت میں بہت کچھ کہا اور لکھا جارہا ہے ۔ اس موضوع پر وسیع بحث سے اس بات کا بھی اظہار ہوتا ہے کہ توسیع یا تعیناتی اب خالصتا فوجی امر نہیں رہا بلکہ اس کے سوشیو – پولیٹیکل پہلو بھی اہم ہیں ۔
یہ فیصلہ غیر متوقع بھی نہیں تھا کچھ ماہ سے اس حوالے سے بحث ہورہی تھی اور رائے عامہ کا جائزہ لینے کیلئے فیلرز چھوڑے جارہے تھے ۔ ایک طرف کچھ حلقے اس فیصلے کو جواز فراہم کررہے ہیں اور سراہا رہے ہیں تو دوسری طرف کچھ صاحب الرائے حلقے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار کررہے ہیں اور ماضی کے ایسے فیصلوں کا حوالہ دیکر اس کے ممکنہ منفی اثرات کی جانب توجہ دلا رہے ہیں ۔ اس فیصلے کے داخلی پہلو کے ساتھ ساتھ خارجی پہلو بھی بہت ا ہم ہے مگر یہاں اس پر بحث مقصود نہیں۔ اداروں پر عوامی بحث و مباحثے سے پریشان ہونے کی بجائے اس کو مثبت انداز میں دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ بحث او مباحثے میں جوابدہی کا پہلو اہم ہوتا ہے ۔ اداروں کو عوامی موڈ کا پتہ چلتا ہے ۔
پاکستان میں چیف آف آرمی سٹاف کے تقرری کے حوالے سے میرٹ کی دھجیاں اڑانے والی دو ناپسندیدہ روایات پنپ چکی ہے ۔ ایک تو سیئنر ترین افسر کی بجائے سینارٹی لسٹ میں کم سئنیئر افسر کو فوجی سربراہ بنایا جاتا ہے اور کئی سینیر افسران کو بائی پاس کیا جاتا ہے . ماسوائے جنرل پرویز کیانی کے جو میرٹ پر چیف آف آرمی سٹاف بنا زیادہ تر سینئیر افسران کو بائی پاس کرکے سربراہ بنے ۔
مثال کے طور پر موجودہ آرمی چیف کی پہلی تعیناتی کے وقت چار سینئیر جرنیلوں کو بائی پاس کیاگیا۔ دوسرا ملازمت میں توسیع بھی روایت بن رہی ہے ۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے چار بار ، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف نے تین تین بار اور جنرل پرویز کیانی نے ایک بار توسیع لی۔ فوجی سربراہ کی ملازمت میں ایک ایکس ٹینشن سے سینکڑوں افسران کی ترقی کا عمل متاثر ہوتا ہے ۔
سیاسی تاریخ کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو پاکستانی فوج نے جب بھی اپنی خالصتا ًفوجی کردار کی نسبت دیگر غیر پیشہ وارانہ کاموں خصوصا سیاست میں مداخلت اور حصہ لینے کی وجہ سےہمیشہ عوامی بحث اور مباحثے کو دعوت دی ہے ۔ اور بعض اوقات عوامی غیض و غضب کا سامنا بھی کیا ہے ۔ شاذو نادر کسی فوجی افسر اور خصوصا فوجی سربراہ کے ملازمت میں توسیع کے حوالے سے کسی نے عدالت سے بھی رجوع کیا ہو ۔ پشاور ہائی کورٹ میں توسیع کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا ہے اور پاکستان بار کونسل نے بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے ۔ ماضی قریب میں جسٹس افتخار چودھری نے ملازمت میں توسیع پر پابندی کا فیصلہ دیا تھا ۔
کئی فوجی آمروں نے ملک کو راہ راست پر لانے اور گند صاف کرنے کی ٹھانی تھی ۔گند صاف ہوا یا نہیں مگر ان کی ناعاقبت اندیش اور غلط پالیسیوں نے ملک کو تباہی اور بربادی کے دھانے پر پہنچا دیا ۔ پہلے فوج برائے راست اقتدار پر شب خون مار کر براجمان ہوتی تھی اب پردے کے پیچھے سے معاملات چلا رہی ہے ۔ اور پہلے کی نسبت عمل دخل بڑھ گیا ہے ۔ اب بھی ہر قیمت پر ملک کی معیشت اور سیاست کو صحیح رخ پر ڈالنے کا عزم نمایاں ہے ۔ گذشتہ تین سالوں کے پولیٹیکل انجینیرنگ کا تجربہ سامنے ہے ۔ جس کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہورہے ہیں ۔
خالصتاً پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی نسبت دیگر امور خصوصا سیاست میں بڑھتی ہوئی مداخلت سے فوج کے کئی شعبوں مثلا انٹلی جنس اور تعلقات عامہ وغیرہ کا معاشرے میں کردار بھی بڑھ رہا ہے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کردار محسوس ، نمایاں اور قومی اداروں کا جانبدارانہ رول واضع ہوتا جارہا ہے ۔ ادارے اب واضع طور پر کسی ایک سیاسی فریق کے حامی یا مخالف نظر آرہے ہیں ۔ اس وجہ سے اب عوامی سطح پر مخالف نعرے اور دبے دبے اور کھلے انداز میں مخالفت بھی عام ہوتی جارہی ہے ۔
جنگ چاہے میدان جنگ میں ہو یا میدان سیاست میں پلان یا منصوبے اور اس پر عمل کرانے میں میں فرق ہوتا ہے۔ عمل کے اپنے ڈائنامکس ہوتے ہیں ۔ اور ہمیشہ منصوبہ بنانے اور اس کو عملدرامدکرانے والے افراد مختلف ہوتے ہیں۔ اسطرح منصوبے پر عملدرامد مخصوص شرائط میں ہوتی ہے ۔ اور شرائط میں معمولی تبدیلی نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہے ۔ ایسا طرح منصوبے کی کامیابی کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ وہ کتنا حقیقت پسندانہ اور معروضی اور موضوعی شرائط سے مطابقت رکھتا ہے ۔
اب گیند اداروں کی کورٹ میں ہے ۔ اور یہ اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے آئینی مینڈیٹ کے اندر رہ کر کام کرنا چاہتی ہے اور یا مینڈیٹ سے مبرا ، وہ غیر جانبداری کے اصول پر قائم رہتی ہے یا کسی ایک سیاسی فریق کی حامی ، وہ پیشہ وارانہ کام کو فوقیت دیتی ہے یا غیر پیشہ وارانہ سرگرمیوں میں غیر ضروری طور پر ملوث ہونا چاہتی ہے ۔ اگر ادارے اپنے آئینی مینڈیٹ کا احترام نہیں کرئیگی اور غیر پیشہ وارانہ امور میں دلچسپی لے گی اور اگر ایمپائر کسی ٹیم کے بارہویں کھلاڑی کی طور پر کھیلے گا تو ٹینشن تو پیدا ہوگا ۔ اگر کوئی کھلاڑی اورز مکمل ہونے کے بعد بھی کھیلے گا تو ٹینشن تو پیدا ہوگا ۔ ادار ے متنازعہ بھی بنیں گے اور ان کے کردار کے حوالے سے سوالات بھی ا ٹھیں گے ۔
♦