محمد حسین ہنرمل
” ماورائے عدالت قتل کی سزاووں کے بارے میں بہت کچھ لکھا ا ور کہا جاچکاہے ۔ وزیرستان سے لیکرسوات اور اسلام آباد اورصوبہ بلوچستان سے کراچی تک ماورائے عدالت قتلوں کی داستانیں ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ۔ماورائے عدالت قتل کی سزا پریقین رکھنے والے اور اس کو جواز فراہم کرنے والے ایک نہیں بلکہ دوگنے جرم کے مرتکب ہوتے ہیں۔
پہلا جرم ان لوگوں کا یہ ہے کہ یہ اس ملک کے آئین اور عدالتی نظام کی دھجیاں اڑا دیتے ہیں۔کیونکہ آئین ہی میں جھلی حروف میں یہ شق لکھا ہے کہ ملک کے کسی فرد یا ادارے کو ملزم پر عدالت میں حاضر کیے بغیر ہاتھ اٹھانے کی اجازت قطعاً نہیں ۔ گویا ایسا کرنے پر ماورائے عدالت قتل کرنے والے آئین اور عدالت کی نفی کرنے کے مرتکب ہوتے ہیں ۔
ماورائے عدالت قتل کوجواز فراہم کرنے والوں کا دوسرا جرم یہ ہے کہ یہ ملزم کو اپنے تئیں مجرم قرار دے ان کی جان لے لیتے ہیں ۔ اس نوعیت کے قتل کا حالیہ واقعہ پچھلی رات ژوب کے علاقے” تورہ درگہ” میں پیش آیا۔ مقتول سردار خان مندوخیل ایک خوبرو اور خوش لباس نوجوان تھے جبکہ قاتل ٹی ٹی پی، لشکر جھنگوی یا کسی دوسری کاالعدم تنظیم کے دہشتگرد نہیں تھے بلکہ اس ریاست کے ایک ذمہ دار حفاظتی ادارے ایف سی کے اہلکار تھے۔
سردار خان مندوخیل اپنے ساتھیوں سمیت سرہ توئی ایف سی چیک پوسٹ پر مامور ایف سی اہلکاروں کی گولیوں کانشانہ اس وقت بنے جب وہ ایک نان کسٹم پیڈ گاڑی کو دو تین ہزار روپے بھتہ ادا کیے بغیر ایک متبادل راستے پر لے گئے تھے ۔ رات کو جب وہ اُسی راستے پر واپس کسی دوسری گاڑی میں آرہے تھے تو سرہ توئی چیک پوسٹ کے حدود میں چیک پوسٹ پرمامور اہلکاروں نے ان کی گاڑی کونشانہ بنایا۔ فائرنگ کے نتیجے میں سردار خان موقع پر شہید ہوئے جبکہ ان کے دو اور ساتھی زخمی ہوئے ۔
خاندان والوں کو جب اپنے پیارے کے ماوراء عدالت اور ناحق قتل کی اطلاع پہنچی تو وہ مقتول کی لاش صبح سویرے سول اسپتال سے لے گئے اور اسے کلیوال شہید چوک پر بطور احتجاج رکھ دیا۔سردار خان کے لواحقین کا مطالبہ حکومت وقت سے مطالبہ تھا کہ جب تک حکومت ِ وقت مقتول کے قتل میں ملوث اہلکاروں کو گرفتار یاان کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کریگی،تب تک وہ لاش کو نہیں دفنائیں گے ۔ اس احتجاجی دھرنے میں لوگ جوق درجوق شر یک ہوتے رہے اوربہت مختصروقت میں یہ اجتماع عوام الناس کے ایک بڑے سمندر میں تبدیل ہوگیا ۔ گیارہ بجے مَیں خود اس دھرنے میں پہنچا تو معلوم ہوا کہ ڈپٹی کمشنر بھی دھرنے والوں سے مذاکرات کیلئے کچھ دیرپہلے آئے ہوئے تھے ۔
مقتول کے لواحقین ، سماجی تنظیموں کی قیادت اور ڈی سی کے درمیان مذاکرات میں یہ طے ہوا تھا کہ حکومت کم ازکم ان ایف سی اہلکاروں کے خلاف تھانے میں ایف آئی آر درج کرے گی جن کی فائرنگ سے ایک بے گناہ شخص شہید اور دو دیگر افراد زخمی ہوئے تھے ۔ شدید گرمی کے موسم میں آگ اگلنے والی سڑک پر یہ دھرنا تقریباً سات گھنٹے جاری رہا۔
ڈیڑھ بجے کا وقت تھا کہ دھرنے والوں کو ڈپٹی کمشنر اور پولیس کی جانب سے پیغام آیا کہ قاتلوں کے خلاف صرف ایف آئی آر کا پارچہ درج کرنا بھی ان کی بس کی بات نہیں ، لہٰذا آپ لوگوں سے مودبانہ التماس کی جاتی ہے کہ میت کی تدفین کا انتظام کریں ۔ ایف سی اہلکاروں کے ہاتھوں شہید ہونے والے سردار خان مندوخیل کے بہیمانہ قتل نے ایک نہیں بلکہ کئی معقول اور سنجیدہ سوالات کو جنم دیاہے۔
پہلا سوال یہ ہے کہ کیا نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا ملک میں ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال کو روکنے کی ذمہ داری بھی ذمہ داری بھی فرنٹیئر کانسٹیبلری کی ہے یا یہ کام ایکسائز کے ادارے کی ذمہ داری ہے ؟
دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس ملک میں اگر نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کا حقیقت میں ایک جگہ سے دوسری جگہ انتقال غیر قانونی اور ممنوع ہے تو پھرہر چیک پوسٹ پرچندہزار روپے بھتے کے عوض اسے چھوڑنا کونسا قانونی کام ہے؟
تیسرا اور بنیادی سوال یہ ہے کہ سردار خان مندوخیل اگرگاڑیوں کی غیر قانونی کاروبار سے منسلک تھے تو ایف سی اہلکاروں نے کس قانون کے تحت اس بیچارے پر گولیاں چلادیں ؟ ایف سی کو باالفرض اگر بھتہ ادا نہ کرنے والوں کے خلاف کاروائی کا حق حاصل ہے تو پھرسوال یہ بھی ہے کہ ایسے افراد کو حراست میں لینے کی بجائے ان کوپَل بھر میں گولی مارنے کا کیاجواز بنتاہے ؟
سردار خان مندوخیل انتہائی غریب اور مفلوک الحال گھرانے سے تعلق رکھتے تھے ۔ وہ کسی کالعدم دہشتگرد تنظیم کے مفرور کمانڈر اورنہ ہی کلبھوش یادیو کی طرح ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث تھے؟ سردار خان کے چھوٹے چھوٹے بچے یتیم اور ان کی بیوی آج بیوہ ہوگئیں ۔ کیا ان کے یتیم بچوں اور بیوہ اس ریاست کے طاقتور ادارے سے یہ سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے کہ گرفتار کرکے عدالت میں اس پر مقدمہ چلانے کی بجائے سردار خان کو موت کا پروانہ کس مذہب اور قانون کی روشنی میں جاری کیا گیا؟
چلیں، سردار خان کے بہیمانہ قتل کو ہم ایف سی اہلکاروں کی غلطی پر محمول کریں گے لیکن کیا اس ادارے کے سربراہ کمانڈنٹ ایف سی کی بے حسی، سردار خان کے لواحقین اور بہی خواہوں پر نمک پاشی کامزید سبب نہیں بنا۔ کمانڈنٹ صاحب کواس دھرنے میں آنا چاہیے تھا جس میں مقتول سردار خان کی لاش شدید حبس کے علم میں برف کے گولوں تلے پڑی ہوئی تھی۔کمانڈنٹ صاحب کو اپنے ماتحتوں کی غلطی پر معافی مانگنی چاہیے تھی اور قتل میں ملوث اہلکاروں کے خلاف تھانے کو ایف آئی آر درج کرنے کاحکم صادر کرناچاہیے تھا ۔
لیکن افسوس کیساتھ کہناپڑرہاہے کہ قتل ناحق کے باوجودنہ تو ایف سی اہلکار گرفتار ہوئے ، ان کے خلاف ایف آئی کار درج کرنے دیاگیا نہ ہی اس کھلی جارحیت پر ایف سی کے اعلیٰ حکام نے رتی بھر شرمندگی اور ندامت محسوس کی ۔
♦