پاکستان کے دو ارکان پارلیمنٹ ، محسن داوڑ اور علی وزیر جن کا تعلق فاٹا سے ہے گرفتار ہیں اور جب سپیکر سے ان کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ میں بے بس ہوں۔لیکن پاکستانیوں کو کشمیری رہنماوں کی ان کے گھر میں نظر بندی پر بہت دکھ ہورہا ہے۔
خیبر پختونخواہ اور فاٹا پاکستان کا وہ بد قسمت علاقہ ہے جہاں پاکستان کی فوج نے محض اپنے مفادات کے لیے وہاں کے عوام کو مذہب کے نام پر قتل وغارت پر آمادہ کیاجسے جہاد کہا گیا۔۔ اور سرحد کے دونوں اطراف ہزاروں نہیں تو لاکھوں افراد اس جہاد کی نذر ہو گئے۔ جب ان علاقوں کے عوام اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا شعور ہوا اور ان کے خلاف آواز اٹھائی تو توریاست ان کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کر د یں۔ لیکن پاکستانیوں اور آزاد میڈیا کی نیندیں کشمیر میں بھارتی مظالم نے حرام کر رکھی ہیں۔
اسی طرح بلوچستان کے عوام اپنے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں تو انہیں گرفتار کرنے کی بجائے غائب کر دیا جاتا ہے۔ پچھلے کئی سالوں سے ان لاپتہ افراد کے لواحقین کوئٹہ اور کراچی پریس کلب کے باہر کیمپ لگا کر احتجاج کر رہے ہیں اور جب اس احتجاج مین شدت پیدا ہوتی ہے تو ان میں سے کچھ کی مسخ شدہ لاشیں بھی مل جاتی ہیں۔ پاکستانیوں کا ضمیر تو بلوچستان میں اجتماعی قبروں کے دریافت ہونے پر بھی خاموش رہا لیکن کشمیریوں میں ہونے والے مظالم ان کے ضمیر کو تنگ کرتے ہیں۔
کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی پر پاکستان آرمی کی حمایت یافتہ جہادی تنظیموں نے کئی خودکش حملے کیے جس میں سینکڑوں افرادجاں بحق ہو چکے ہیں۔ لیکن پریس میں ان جہادی عناصر کے خلاف کاروائی کرنے کا کوئی مطالبہ سامنے نہیں آتا۔ پچھلے ہفتے افغانستان میں ہزارہ کمیونٹی کی شادی کی تقریب میں خود کش حملہ کیا گیا لیکن پاکستانی پریس اور سوشل میڈیا میں کوئی ہل جل نہیں ہوئی لیکن ہمیں بھارتی کشمیر کے مظلوم عوام کے قصے سنائے جارہے ہیں۔
پاکستان میں پریس اور الیکٹرانک میڈیا پر سخت پابندیاں عائد ہیں۔ حکومتی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے صحافیوں اور لکھاریوں کو تو فارغ کر دیا گیا ہے یا ان کے کالم شائع کرنے بند کر دیے گئے ہیں ۔ کئی نیوز ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں لیکن ہمیں بھارتی کشمیر میں انٹرنیٹ اور فون اور پریس پر پابندیاں یاد آتی ہیں۔