بیرسٹر حمید باشانی
ملکوں اور قوموں کے درمیان کسی بھی مسئلے کے حل کے کئی راستے ہوتے ہیں۔ عام ، مقبول اور مروجہ راستہ سیاسی ہے۔ یہ گفت و شنید کا راستہ ہوتا ہے، جس پر چل کر باہمی مکالمے سے مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے۔ دوسرا راستہ جنگ ہے۔ یہ ایک تباہ کن اور خطرناک راستہ ہے۔ بنی نوع انسان اپنی تاریخ میں ہزاروں بار اس کا تجربہ کر چکا ہے۔ اور شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ جنگ و جدل سے کسی مسئلے کا کوئی پائیدار اور خوشگوار حل نکلا ہو۔
فتح یا شکست دونوں صورتوں میں سب فریقین کے لیے جنگ تباہی و بربادی کے نا قابل فراموش قصے چھوڑ جاتی ہے۔ خون کے ایسے دھبے چھوڑ جاتی ہے جنہیں دھونے میں صدیاں لگ جاتی ہیں۔ نہ بھرنے والے زخم اور اندوہناک دے جاتی ہے۔ بقول ساحر، فتح کا جشن ہو یا ہار کا سوگ، زندگی میتوں پر روتی ہے، اس لیے اے شریف انسانو جنگ ٹلتی رہَ تو بہتر ہے، آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں، شمع جلتی رہے تو بہتر ہے۔
تیسرا راستہ سفارت کاری ہے۔ یہ ایک محفوظ اورمہذب راستہ ہے۔ اگرچہ یہ محنت طلب، صبر آزما اور وقت طلب راستہ ہے۔ سفارتی محاز پر دنیا کا سب سے بڑا اور طاقت ور فورم اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہے۔ حال ہی میں کشمیر میں جو واقعات رونما ہوئے ان پر پاکستان نے سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں اس موضوع پر گفتگوہ ہوئی۔ اس گفتگو کی ایک جھلک چینی مندوب کی ذرائع ابلاغ سے گفتگو کے ذریعے سامنَے آئی۔
اس اجلاس سے اگرچہ کوئی قرار داد یا ٹھوس تجویز سامنے نہیں آئی، بلکہ حسب روایت اور حسب سابق دونوں ممالک کو صبر سے کام لینے اور باہمی گفت وشنید کے زریعے اس مئسلے کو حل کرنے کا مشورہ دیا گیا۔ مگر پھر بھی یہ اجلاس اہم تھا۔ ان کشمیریوں کے لیے جن کی کیفیت پنجرے میں بند پرندوں کی سی ہے۔ دوسری طرف پاکستان کے سفارتی حلقوں نے اسے اپنی شاندار کامیابی قرار دیا اور اس پر مسرت کا اظہار کیا ہے۔ اگرچہ یہ ایک بڑی پیشرفت ہے، پچاس سال بعد دوبارہ مسئلہ کشمیر پر اتنے اہم سفارتی فورم پر بات ہوئی ہے۔ مگر اس کے ساتھ بہت زیادہ امیدیں وابستہ کرنا بھی اگے چل ک ماضی کی طرح مایوسی کا باعث بن سکتا ہے۔ اپنی توقعات کو معقولیت کے دائرے کے اندر رکھنے کے لیے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کے کردار اور عمل کو تاریخی تناظر میں دیکھنا چا ہیے۔
اقوام متحدہ کسی پیچیدہ مسئلے کو حل کرنے کی کیا استطاعت رکھتی ہے۔ اور اس کے حل کے لیے کس حد تک جا سکتی ہے ؟ ان سوالات کا جواب اسرائیل فلسطین تنازعے میں موجود ہے۔ اور یہ تنازعہ اس ادارے کی صلاحیتوں اور استطاعت کی ایک کلاسیکل تصویر ہے۔ اقوام متحدہ کل وقتی طور پراس تنازعے میں ملوث ہونے اور انتہائی متحرک کردار دا کرنے کے باوجود اس باب میں کوئی قابل ذکرپیشرفت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
فلسطینی آج بھی اپنے گھر سے بے گھر ہیں۔ فلسطین کی آزادی یا ریاست کا قیام تو اپنی جگہ ان کی ان کے گھروں میں واپسی اور نئی آباد کاریوں جیسے نسبتا چھوٹے مسائل کا بھی کوئی حل نہیں نکالا جا سکا۔ ان مسائل کو لے کر وہاں آئے دن خون خرابہ ہوتا رہتا ہے۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جہاں تک اقوام متحدہ کی قرادادوں کا تعلق ہے تو ان قراردادوں پر صرف اس وقت عمل ہوتا ہے، جب سپر پاور کی منشا ہو۔ ورنہ یہ قرار دادیں بے شک ان کی حیثیت حکمیہ ہی کیوں نہ ہو، نظر انداز کر دی جاتی ہین، یا ان کی خلاف ورزی کی جاتی ہے۔
سال 2003 میں جس وقت برطانیہ اور امریکہ اقوام متحدہ سے قرار داد منظور کرا کر عراق پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہے تھے، اس وقت سان فرانسسکو یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر سٹیون زانیس نے ایک ریسرچ سیڈی کی۔ اس سٹیڈی کا مقصد یہ معلوم کرنا تھا کہ آج تک اقوام متحدہ نے جو قرار دادیں پاس کیں، ان پر متعلقہ ملکوں کا کیا رد عمل تھا۔ اور اگر متعلقہ ملک نے کسی قرارداد پر عمل نہیں کیا تو اس پر کیا چارہ جوئی ہوئی۔ جن ممالک نے قراردادوں کی خلاف ورزی کی ان میں زیادہ تر وہ ہیں، جن کے امریکہ کے ساتھ قریبی تعلقات رہے ہیں۔ ان میں وہ ممالک شامل ہیں، جو امریکہ سے معاشی فوجی اور سفارتی مدد لینے میں پیش پیش ہیں۔
اس فہرست میں اسرائیل سر فہرست ہے۔ سن 1968 سے لیکر اس وقت تک اسرائیل اقوام متحدہ کی بتیس قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ ترکی دوسرے نمبر پر ہے، جو1976سے لیکر چوبیس قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ اس کے بعد مراکش ہے جو سترہ قراردادوں کی خلاف ورزی کر چکا تھا۔ اس مطالعے کے مطابق سن 1947 سے لیکر اس وقت تک اقوام متحدہ پندرہ سو کے قریب قرارددیں پاس کر چکی تھی، جن میں سے تقریبا نوے قراردادوں کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، اور خلاف اورزی کرنے والے ممالک کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔
اس مطالعے میں وہ قراردادیں شامل نہیں ہیں، جو واضح نہیں ہیں، یا جن کی تشریح پر فریقین کے درمیان اختلاف ہے۔ اس طرح یو این کی مشہور زمانہ یا “بد نام زمانہ” قرار دادنمبر دوسو بیالس اور تین سو اڑتیس بھی اس میں شامل نہیں ہیں۔ اس میں وہ قراردادیں بھی شامل نہیں ہیں جن کے ذریعے کسی ملک کی مذمت کی گئی ہو۔ اس مطالعے کا نقطہ ماسکہ وہ قراردادیں ہیں جن میں کسی خاص ملک کو کسی خاص عمل کی ہدایت کی گئی۔ اسرائیل نے جن قراردادوں کی خلاف ورزی کی وہ زیادہ تر مشرقی یروشلم کے انضمام اور اباد کاری کے متعلق تھِیں۔ یا وہ قراردادیں جن میں اسرائیل کو طاقت کا استعمال کرنے سے روکنے یا فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کرنے سے منع کیاگیا تھا۔
مگر اسرائیل نے ان قرادادوں کی کھلی خلاف ورزی کی۔ قرارداد کی روشنی میں عراق کے خلاف کاروائی کے دوران جب اسرائیل سے یہ سوال کیا گیاتو اس کا جواب بڑا دلچسب تھا۔ اس نے کہا جو اقوام متحدہ کے جو فیصلے عراق کے متعلق ہیں، اور جوفیصلے اسرائیل کے متعلق ہیں ان میں بڑا فرق ہے۔ اسرائیل اس خطے کی واحد جمہوریت ہے اور اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ اور عراق اس خطے کی انتہائی ظالمانہ آمریت ہے ، جو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے۔ اور اپنے عوام کے خلاف کیمیائی ہتھیار ستعمال کرتی ہے۔ گویا اپ کے ملک میں جمہوریت ہے تو آپ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کا حق مل جاتا ہے۔
یہ لمبی کہانی بیان کرنےکا مقصد یہ ہے اقوام متحدہ کی اس نا قابل رشک تاریخ کو سامنے رکھتے ہوئے اس پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت کے تیوراور قرائن بتاتے ہیں کہ اب موجودہ بھارتی حکومت بھی اسرائیل کی طرح سخت ترین رویہ اپنانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ مودی صاحب کئی بار انتہائی فخر و غرور سے کہہ چکے ہیں کہ ہم ایک ارب بیس کروڑ لوگ ہیں۔ ہمیں کون دباو میں لا سکتا ہے۔ ہم معاشی اور عسکری اعتبار سے ایک بڑی قوت ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا کی سننے کے بجائے دنیا کو بتایا جائے کہ کیا کرنا چاہے۔
ان حالات میں یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اگر بے تحاشا وسائل اور وقت صرف کرنے کے بعد اگر اقوام متحدہ میں کوئی قرار داد منظور ہو بھی جائے، اور بھارت اسرئیل، ترکی، مراکش اور دیگر ممالک کی طرح اس پر عمل دارمد ا سےا نکار کر دے تو کون سا راستہ اختیار کیا جا سکتا ہے۔ کیا موجودہ عالمی سیاست کے تناظر میں بھارت کے خلاف کسی تادیبی کاروائی کی جا سکتی ہے، یا ایسے کوئی امکانات موجود ہیں کہ بھارت کو قرارداد پر عمل کرنے پر مجبور کیا جا سکے۔ ہماری اس دنیا میں آج بھی جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون چلتا ہے۔ اور لاٹھی سے مراد آج کے دور میں معاشی اورعسکری قوت ہے۔ ان زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر ہی کسی ایسے راستے کا انتخاب کیا جانا چا ہیے، جس میں حل کے امکانات واضح ہوں۔
One Comment