لیاقت علی
کشمیر میں مودی سرکارنے جوکاروائی کی ہےاس پرپاکستان کی ریاست اور حکومت کا سیاپا توسمجھ میں آتا ہے لیکن پاکستان کا لیفٹ بالخصوص پنجابی لیفٹ اس پربہت زیادہ سیخ پا ہے۔ کشمیریوں کے حقوق، کشمیرکی آزادی اوراقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیرمیں استصواب رائےکی یاد انھیں بہت زیادہ ستارہی ہے۔
کشمیر میں مودی سرکار نے جو کچھ کیا ہے اس کی کسی صورت حمایت نہیں کی جاسکتی اوراس کی مذمت ضرور کی جانی چاہیے لیکن یہ کرتے ہوئے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ کشمیر کا ایک حصہ پاکستان کے زیرقبضہ بھی ہے اور ایک نظراس پرڈالنا چاہیے کہ وہاں کیا ہورہا ہے اورکیا ہوتاآرہا ہے۔ کیا پاکستانی کشمیر میں جمہوری حقوق کی صورت حال تسلی بخش ہے؟
کیا وہاں انسانی حقوق کی صورت حال خوش گوارہے؟ کیا پاکستانی کشمیر کے عوام کو ان کے سیاسی اورمعاشی حقوق میسر ہیں؟ گوایسا کرنا موجودہ صورت حال میں کوئی قابل ستائش ایکٹوٹی نہیں ہے اورگالی گلوچ کے امکانات کافی زیادہ ہیں۔
پاکستانی کشمیرکی سیاسی ،معاشی اورسماجی صورت حال پراچٹتی سی نظر ہی بتادیتی ہے کہ وہاں سب اچھا نہیں ہے۔ وہاں جسے ہم سیاسی حکومت کہتے ہیں وہ اسلام آباد سیکرٹریٹ میں وزارت امورکشمیرمیں بیٹھے ایک جائنٹ سیکرٹری کے ماتحت ہے اور یہ جائنٹ سیکرٹری جیسا چاہے اورجس طرح چاہے اس حکومت کو چلانے کا اخیتار رکھتا ہے۔ وزارت امورکشمیر کاجائنٹ سیکرٹری کشمیر کی نام نہاد منتخب حکومت کا باس ہوتا ہے۔ کشمیرکوجس عبوری آئین کے تحت چلایا جارہا ہے اس کے مطابق کوئی سیاسی جماعت اورسیاسی کارکن جو کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کا حامی نہیں ہے وہ وہاں الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتا۔ ہر امیدوار کو ایک بیان حلفی دینا ہوتا ہے کہ وہ کشمیر کو پاکستان میں ضم کرنے کا حامی ہے۔
کشمیر اسمبلی کی 41 نشستوں پر براہ راست انتخاب ہوتا ہے جب کہ 8نشتوں پر بالواسطہ انتخاب ہوتا ہے۔ ان آٹھ مخصوص نشستوں میں 5 عورتوں کے لئے ایک نشست علما اور ایک ٹیکنو کریٹ اور ایک سمندر پار کشمیریوں کے مختص ہے۔ دلچسپ امر ہے کہ اس اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے ایک بھی نشست نہیں ہے حالانکہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ پورے پاکستانی کشمیر میں اقلیتوں کا وجود ہی نہ ہو۔ 41 نشستیں جن پربراہ راست انتخاب ہوتا ہے ان میں سے 12 نشستیں پاکستان کے مختلف شہروں میں مقیم کشمیری باشندوں کے لئے مختص ہیں۔
اوراس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان 12 نشستوں پرعام طورپرمیونسپل اداروں کے ملازمین ووٹ ڈالتے ہیں اور وہی امیدوارعام طورپرکامیاب ہوتے ہیں جنھیں پاکستان کی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کی تائید وحمایت حاصل ہوتی ہے۔عام طورپرپاکستانی کشمیرمیں وہی پارٹی الیکشن میں کامیابی حاصل کرتی ہے جس کی پاکستان میں حکومت ہوتی ہے۔اگر پاکستان کے وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے تو پاکستانی کشمیر میں پیپلزپارٹی جیت جاتی ہے اوراگرمسلم لیگ کی حکومت ہو تو اس کا جیتنا لازم ہے۔
کشمیر اسمبلی کے اوپر ایک کشمیر کونسل بھی ہے جس کے ارکان کی تعدا 14 ہے اور اس کا سربراہ وزیراعظم پاکستان ہوتا ہے۔کشمیرکونسل کے ارکان کی اکثریت نامزد کردہ ہوتی ہے۔ کشمیر کونسل کی اجازت ومرضی کے بغیرکوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی۔ کشمیر کونسل کے سربراہ کے طور پر پاکستان کے وزیراعظم کوکشمیرکی حد تک وائسرائے جیسے اخیتارات حاصل ہیں۔
پاکستانی کشمیر کی ایک ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ بھی ہے لیکن ان کی حیثیت محض دکھاوے کی ہے اور ان کی حقیقی کارکردگی نہ ہونےکے برابرہے۔پاکستانی کشمیر کا سماجی سیاسی اور معاشی انڈکس پسماندہ اور ناقابل یقین حد تک لو ہے۔اورتو اوروہاں جانے والے سیاحوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تاکہ کم سے کم لوگوں کو وہاں کی حقیقی صورت حال بارے آگاہی ہوسکے۔
بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے جمہوری سیاسی حقوق کی حمایت ضرور کریں لیکن اپنے دامن پربھی ایک نظر ڈال لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
♦