کشمیر،جماعت اسلامی اورمفلوک الحال پاکستانی

طارق احمدمرزا

امت مسلمہ کے نئے مزعومہ لیڈر وزیراعظم عمران خان افغانستان بخشوانے گئے تھے، کشمیر گلے پڑگیا۔مودی کے دوبارہ منتخب ہونے پر ان کا’’ عالمانہ‘‘ تجزیہ یہ تھا کہ اب کشمیر کا مسئلہ پرامن طریقے سے حل کیے جانے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں لیکن حالت یہ بنی ہے کہ قوم کوامسال اپنا یوم آزادی اپنے نہیں بلکہ کشمیریوں کے نام کرنے پرمجبورہوناپڑگیا۔14؍اگست کو’’ کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کے نعرے لگیں گے۔کرش انڈیا اور ہندوستان مردہ باد ،مودی مردہ باد،ہندتوامردہ بادکے نعرے بھی لگیں گے،بالکل اسی طرح جس طرح سیاچن سے ہاتھ دھو لینے کے بعد لگے تھے۔بالکل اسی طرح جس طرح کارگل کی جنگ کے بعد لگے تھے۔اوربالکل اسی طرح جس طرح قیام بنگلہ دیش کے بعدبھی لگے تھے۔

مفلوک الحال پاکستانیوں کا بس یہی کام رہ گیاہے۔گزشتہ ستراکہتربرسوں سے اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے ان سے زندہ بادمردہ باد کے نعرے ہی لگوئے جاتے ہیں۔عمران خان امریکہ جاکر اورواپس آکر بھی یہی بیان دیتے رہے کہ اب ہم نے کسی اور کی جنگ نہیں لڑنی۔تو پھر کشمیریوں کی جنگ بھی انہیں خود ہی لڑنے دیں۔کشمیری متحد ہوتے یا اپنی آزادی کے حقیقی متمنی ہوتے تو عبداللہ فیملی کو کیوں اپنے سر چڑھاتے ۔

ستر اکہتر برسوں میں یکے بعد دیگرے پاکستانی حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو کشمیریوں کے ہی مبینہ فلسفہ عمل ’’دھپ لگسی تے ٹھس کرسی‘‘ پر عمل پیرا ہوکرچلایا۔ستر اکہتربرسوں میں نہ تو وہ خود اور نہ ہی اقوام متحدہ،نہ ہی او آئی سی اور نہ ہی ہم ان کی جنگ جیت سکے ہیں۔ہاں ان کی اورافضانستان کی جنگ لڑتے لڑتے فاقہ کش پاکستانی مزید مفلوک الحال ضرور ہو گئے ہیں۔

سنہ 2008 سے تومولانا فضل الرحمٰن صاحب یوم یکجہتی کشمیر کی آڑ میں فائیو سٹار گلچھڑے اڑاتے اڑاتے بادل ناخواستہ منسٹر انکلیو سے رخصت ہوئے۔لیکن نام نہاد کشمیر کمیٹی قومی خزانے پربوجھ بنی بدستور موجود ہے۔ اس کمیٹی کا بجٹ مفلوک الحال پاکستانیوں کے لئے کم ازکم ایک ماہ کے لئے روٹی کی قیمت میں15 پیسے کی کمی تو لا ہی سکتا ہے۔

نواز شریف جی اپنے گھر میں مودی جی کی میزبانی کرتے خوشی سے پھولے نہ سماتے،کیک کاٹ کاٹ کران کے منہ میں ڈالتے اورمفلوک الحال پاکستانی پپڑی جمے ہونٹوں سے ’’میاں دے نعرے وجن گے‘‘گاتے اوردل ہی دل میں خوش ہوتے۔ لیکن نوبت بہ اینجارسید کہ آج انہی بڑے میاں کے بھائی چھوٹے میاں جی قومی اسمبلی میں گلے پھاڑپھاڑ کر کہے جا رہے تھے کہ ہم دوسرافلسطین نہیں بننے دیں گے۔

جناب والاہم توپہلافلسطین بنتے وقت بھی گلا پھاڑپھاڑکر یہی کہہ رہے تھے۔وہ تو خیر اب ماضی کا قصہ بن گیالیکن یہ تو کل کی بات ہے کہ ہم گلا پھاڑ پھاڑکر،چھاتی پیٹ پیٹ کر یہ بھی کہہ رہے تھے کہ یروشلم میں امریکی ایمبیسی نہیں بننے دیں گے۔قبلہ اول کی خاطر جان دے دہیں گے۔اسرائیل پر جہنم کے دروازے کھول دیں گے۔لیکن یوم القدس منایا توایسا منحوس قسم کاکہ ارض مقدس کے نمائیندہ فلسطینی سفیر کو ہمارے اس ملک ِخداداد ،اسلامی قلعہ سے فلسطین واپس بلالیا گیا اور آپ خودڈونلڈ ٹرمپ کی بانہوں میں جھولنے چلے گئے۔واپسی پہ ایسا استقبال ہوا جیسے قبلہ اول آزاد کرواکر،یا کم از کم یروشلم میں امریکی ایمبیسی کی تعمیر رکوا کر پاکستانیوں اور مسلمانوں سے کیا ہوا وعدہ نبھا کر آئے ہوں لیکن بیان دیا کہ لگتا ہے میں کرکٹ ورلڈکپ جیت کر آیا ہوں۔

واضح رہے کہ پاکستان اس وقت لگ بھگ 90 بلین ڈالرکا مقروض ہے۔سنہ 1980 سے اب تک آئی ایم ایف 13 مرتبہ پاکستان کو معاشی طور پردیوالیہ اور ناکام ریاست قراردیئے جانے سے بچانے کے لئے ’’ بیل آؤٹ‘‘ کروا چکا ہے۔اس سال بھی آئی ایم ایف نے پاکستان کو 12 بلین ڈالر کا صدقہ خیرات میں دیا ہے ۔اس میں سے دو بلین ڈالر ہرسال قرضوں کی واپسی میں خرچ ہوجائیں گے اور چھ برس بعدنئی حکومت ایک بار پھر آئی ایم ایف کے در پہ کشکول لے کر کھڑی نظرآئے گی کیونکہ 78 بلین کا سابقہ قرض بمع نیا قرض بمع سود پھر بھی اس بھکاری زندہ باد مردہ بادقوم کے ذمہ واجب الاداہوگا۔

اس وقت جو بھی حکومت ہوگی وہ عمران خان کی حکومت پہ لعن طعن کرے گی کہ یہ سب کچھ عمران خان کا کیادھرا ہے۔بالکل اسی طرح جس طرح آج عمران خان زرداری اور نوازشریف کوآج کے تباہ حال پاکستان کا ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ نہ عمران خان کا قصور ہے نہ زرداری یا ضیاالحق یاشوکت عزیز یاکسی اورکا۔ہم پیدائشی طورپر ہیں ہی بھکاری۔ہم نے نسل درنسل بھکاری ہی رہنا ہے۔ہم توخود صدقہ وخیرات پہ پلنے والی غلام ابن غلام قوم ہیں،ہم نے کشمیریوں کو کیا آزادی دلوانی ہے ۔

پیارے کشمیریو،تم خود بھی توکچھ تاریخ سے سبق سیکھو۔ کشمیری بنو،فلسطینی نہ بنو!۔کشمیری نہیں بن سکتے تو ہانگ کانگ والے ہی بن جاؤ۔جنہوں نے اپنی قومی اسمبلی کی ایک غیرقومی قرارداد منظور ہونے سے پہلے ہی منسوخ کروادی۔ بہرحال یادرکھو کہ ہم نے(بلکہ پوری امت نے) فلسطینیوں کے لئے بھی ستر اکہتر سال سے سوائے نعرے لگانے کے کچھ نہیں کیا۔تمہارے لئے کیا کریں؟۔ ’’کیا حملہ کردیں ہندوستان پر؟‘‘۔

خبر ہے کہ کشمیر ایشو کے حوالے سے قومی سلامتی کی خصوصی مشاورتی کمیٹی میں امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق صاحب کو بھی شامل کر لیا گیاہے۔بقول شخصے غالباً حافظ سعیدصاحب کا نعم البدل بنا کر،جنہیں امریکہ یاترا سے قبل اپنے آقا کوخوش کرنے کیلئے اندرکردیا گیا تھا۔بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جماعت اسلامی کا بنیادی نیٹ ورک موجودہے لیکن مبینہ طورپروہاں یہ جماعت کالعدم قراردے دی جاچکی ہے۔اگر تو خاکم بدھن ،خاکم بدھن انصافی حکومت محترم سراج الحق صاحب کے ذریعہ ایک کالعدم جماعت کا نیٹ ورک اپنے کسی مقصد کے لئے استعمال کرنے کی نیت رکھتی ہے تواسے اس سے کلیتاً بازرہنا چاہیئے،ورنہ نہ صرف یہ کہ وزیراعظم کے اگلے دورہ امریکہ سے قبل پیارے سراج الحق صاحب کوبھی جیل میںحافظ سعیدصاحب کی معیت اختیارکرنا پڑجائے گی ،بلکہ پاکستان بھی جو کہ اب FATF کی گرے لسٹ میں ہے،بلیک لسٹ میں آسکتا ہے۔ مجھے سراج الحق صاحب سے بہت ہمدردی ہے ،چنانچہ موصوف کی بجائے انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کے کسی سابق پاکستانی وکیل یاجج یا سول سوسائیٹی کے کسی نمائیندہ کو منتخب کیا جاتا توزیادہ خوشی ہوتی ۔

بہرحال مجھے امیدبلکہ قوی یقین ہے کہ محترم سراج الحق صاحب جو خاصے جہاندیدہ اورسمجھ دار شخصیت ہیں، اس کمیٹی کواپنی ذاتی حیثیت میں آزادی ِکشمیر کے لئے اچھے اچھے مشورے دیں گے۔اور اپنے ر وحانی پیشواجناب ابوالاعلیٰ مودودی صاحب کاوہ فرمان بھی ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھیں گے جس میں انہوں نے جہاد کشمیر کو حرام یا ناجائزقراردیا تھا۔اور عدالت میں حلف اٹھاکریہ بھی فرمایا تھا کہ اگرہندواکثریت کے ملک میں مسلمان اقلیت کے ساتھ ملیچھوں اور شودروں جیساسلوک روا رکھا جائے اوران پر منوؔ کے قوانین کا اطلاق کیا جائے اور انہیں شہریت کے حقوق سے محروم کردیا جائے توانہیں (یعنی مودودی جی کو) اس پرمطلق کوئی اعتراض نہ ہوگا۔

کشمیرکمیٹی کی طرح مذکورہ مشاورتی کمیٹی بھی خیر سے نشستن(اور خوردن) کرتی رہے گی لیکن مفلوک الحال،مقروض ،ناخواندہ،فاقہ زدہ اور بیمار پاکستانیوں نے ماضی کی طرح ایک بار پھرچودہ اگست کوسارادن زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگا کر اوردوگھڑیاں رولینے کے بعد گھر کی راہ لینی ہے اور اگلے دن ایک نئے معاشی عذاب کا سامنا کرنے کے لیے۔

٭

Comments are closed.