ڈی اصغر
ہماری جذباتیت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ہمیں بچپن سے ہی پردہ سیمیں پر جلوہ افروز کرداروں کے ادا کردہ مکالمے متاثر کرتے ہیں اور بوقت ضرورت، دوران گفتگو ان کا استعمال بطور حرف آخر بھی کیا کرتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے، جب ہمارے ازلی دشمن، بھارت نے اپنے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ایک صدارتی فرمان کے تحت ختم کرنے اور اپنے ملک میں ضم کرنے کا اعلان کیا ہے، ہمیں اپنے تمام رٹے رٹائے فلمی مکالمے کچھ اور شدت سے یاد آنے لگے ہیں۔
بھارت غاصب، ظالم، جارح، انسانی حقوق پامال کرنے والا اور طاقت کے نشے میں چور ملک ہے۔ جس نے کشمیری عوام کو اپنے اندر زبردستی اتنے برسوں سے جکڑے رکھا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ، بھارت کا موجودہ قدم درست ہے یا مکمل غلط۔ جذبات سے بالاتر ہو کر، صرف منطقی بنیادوں پر اگر سوچا جائے تو اس قدم کے مختلف زاوئیے ہیں۔
ایک بات مکمل طور پر قابل غور ہے، کہ اگر یہی قدم مقامی قانون ساز اسمبلی سے پہلے منظور کروایا جاتا تو قدرے بہتر قدم کہلاتا۔ کیونکہ اسے مقامی عوام کی رضامندی حاصل ہوتی۔ جس شاہی فرمان یعنی صدارتی فرمان کے ذریعے اسے نافذالعمل کیا گیا، وہ عجلت قابل اعتراض ہے۔ چونکہ موجودہ بھارتی حکومت کو دونوں ایوانوں میں عددی اکثریت حاصل ہے، سو دونوں ایوانوں سے فی الفور حمایت کوئی اچھنبے کی بات نہ تھی۔ کشمیر جو ویسے ہی بھاری فوج کی موجودگی کی وجہ سے ایک قید خانہ پہلے سے تھا، اس میں مزید نفری کا اضافہ بھی حفظ ماتقدم کے طور پر کردیا گیا۔
یہاں کیا کیوں اور کیسے کو بیان کرنا مقصود نہیں۔کیونکہ لوگ اس جگہ کی تاریخ اور اس تنازعے کی بالخصوص تاریخ سے بخوبی واقف ہیں۔ کیا یہ حالیہ واقعہ قانونی اور اخلاقی طور پر درست ہے؟ ان سوالوں کے جوابات، آنے والے کچھ عرصے میں عیاں ہوں گے۔ بہتر سال سے چلتا آرہا تنازعہ حل اس طرح ہوتا، کہ دونوں فریقین کچھ نہ کچھ پاتے اور بقیہ وقت ایک دوسرے کے خلاف مخاصمت ختم کردیتے۔ اس بات کا حل مشرف۔واجپئ صاحب کی ملاقات اور لاہور اعلامیہ میں پنہاں ہے۔
لیکن اس پیش رفت کے بعد جو کچھ بھی اس سمت سے ہوا اس نے ہمارے کشمیر موقف کو کمزور سے کمزور ہی کیا۔ آپ لاکھ مخالف پر تنقید فرمائیے پر پہلے خود اپنے اعمال کو بھی بغور دیکھئیے اور جائزہ لیجئیے کہ ہم سے کیا کوتاہیاں ہوئیں جن کی بدولت ہم اسی مقام پر کھڑے ہیں، جہاں پر ہم سنہ سینتالیس میں تھے۔
ہمارا رجسٹرڈ نعرہ جو آپ کو وطن عزیر کے ہر گوشے میں سنائی دیتا ہے یعنی “کشمیر بنے گا پاکستان” کتنا مبالغے سے لبریز ہے، آئیے اس کا سرسری سا جائزہ لیتے ہیں۔ کبھی یہ غور فرمائیے کہ کشمیر ایک شاہی ریاست تھی۔ جسے تاج برطانیہ کے فرمان برائے آزادی ہند کے تحت مکمل خود مختاری، یا پھر بھارت یا پاکستان سے الحاق کا اختیار حاصل تھا۔ خدا جانے کیا اس وقت کس کے من میں سمائی جو اس وقت اس جنت نظیر وادی پر لشکر کشی کا فیصلہ کیا گیا۔ اس وقت کے مہاراجہ ہری سنگھ جو کشمیر کے راجہ تھے، انہوں نے ہندوستان سے دفاعی مدد مانگی۔ جناب نہرو نے موصوف کو دفاعی امداد کو قانونی جواز دینے کے لئے، اسے بھارت سے الحاق پر مشروط کر دیا۔ پھر اس وادی کا بھی ایک طرح کا بٹوارہ ہوا۔ جی ہاں آزاد کشمیر جو ہم اپنی پسپائی تک حاصل کرسکے۔ یوں سمجھئیے کہ وہ ہمارے نعرے “کشمیر بنے گا پاکستان” کے خواب کے عین مطابق تھا۔
نہ جانے کیوں ہمارا دل اس پر نہ بھرا اور ہم نے کسی ضدی بچے کی ضد کی طرح باقی کا کشمیر بھی حاصل کرنے کا تہیہ کرلیا۔ ہمارا جواز یہ تھا اور ہے کہ کشمیر میں مسلم اکثریت ہے۔ مگر جو بات ہم کہتے ہوئے کتراتے ہیں کہ “شاہی ریاستوں” پر یہ اکثریت کا اصول لاگو نہیں ہوتا تھا۔ اس معمولی سی دلیل پر غور فرمائیے کہ اگر ہم وہاں جارح بن کر داخل نہ ہوتے اور کشمیر ابھی بھی اپنے اسی سلسلے پر قائم ہوتا تو آج بھی وہاں کسی مہاراجہ کا راج ہوتا۔ جیسے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر خلیجی ریاستیں۔ یہ بھارت کو وہاں داخلے اور قیام کا جواز دینے کے ذمے دار ہم خود ہیں۔
پچھلے ستر بہتر سال سے ہم بڑے وثوق سے اپنی عوام کو یہ نعرہ کسی چورن کی پھکی کی طرح بیچ رہے ہیں۔ آپ کسی بڑے سے بڑے محب وطن سے پوچھ لیں کہ بھائی کیسے کشمیر بنے گا پاکستان۔ بس پھر سنئیے اور سر دھنئیے۔ جہاد پر مفصل لیکچر جس میں جگہ جگہ غزوہ ہند کی آمیزش بھی ہے اور ایک متعصب ہندو ریاست کی مکمل شکست و ریخت کی ایک دل دہلانے والی منظر کشی۔ یوں کہئیے منہ کی کہانیاں جو ہم نے خود سے گھڑ رکھی ہیں۔
اسی بھارت کو ہم نے سبق سکھانے کی خاطر اسی حکمت عملی کو اپنائے رکھا جس سے باقی ماندہ کشمیر کبھی پاکستان نہ بن پایا۔ یعنی جہادیوں کی در اندازی اور وہی گھسا پٹا یقین کے ان کے سرحد کے اس پار جاتے ہی، وہاں مقیم کشمیری ان کے ساتھ شورش برپا کرکے ایک غدر مچادیں گے۔ بھارتی قابض افواج کی تعداد گئی بھاڑ میں۔ ویسے بھی ہمارے مطالعہ پاکستان کے عین مطابق ایک مسلمان کئی ہندووں پر بھاری ہوتا ہے۔ خواہ وہ سپاہی جدید اسلحے سے لیس ہی کیوں نہ ہو۔ بس اس خودکش سوچ کے آگے یہ بتلائیے کون سی دلیل کارگر ہوگی۔
ستر برس سے اس خود کش سوچ کے ٹیکے ہم نے اپنی طرف کے نوجوانوں کو تو لگائے ہی لگائے، پر وادی میں موجود وہاں کے نوجوانوں کا بھی اسی سوچ سے بیڑہ غرق کیا۔ جن ہاتھوں میں قلم اور کتاب ہونی چاہیئے تھی اس میں کلاشنکوف تھمائی گئی اور دلاسے دلائے گئے کہ وطن کی آزادی ہی زندگی کا سب سے بڑا نصب العین ہے۔ وہ بے چارے اپنی جوانیاں ہماری خواہشات کی خاطر اپنی جان سمیت کبھی کسی جنگجو تو کبھی کسی اور جہادی کے نام کو سامنے رکھتے تباہ کرتے رہے۔
کبھی آپ نے کسی بڑے سے بڑے کشمیر کے خیرخواہ کی زبان سے یہ نہیں سنا ہوگا کہ آئیں ان غریبوں کی بہتر اور اعلی تعلیم کے لئیے وظیفے جاری کرتے ہیں۔انہیں علم کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں کہ یہ بین الاقوامی قوانین کے ماہر وکلا بن سکیں۔ جو اپنی آزادی کا مقدمہ لڑ سکیں۔ جو اقوام عالم میں اپنی حالت زار کو بدلنے لے لئے کوئی مثبت کردار ادا کرسکیں۔ ہماری نظر میں “گوریلا جنگ” ہی بہترین حکمت عملی تھی اور خدا جانے اب بھی ہے۔ کیونکہ ہمیں یہ زعم ہےکہ ہماری اس حکمت عملی نے افغانستان سے روس کو انخلا کرنے پر مجبور کردیا تھا۔ ایسے بقراطوں کو غالبا ایک چھوٹی سی تفصیل بھول جاتی ہے کہ ہماری پشت پر اس وقت امریکہ بہادر کا ہاتھ تھا۔
چلیں بالفرض محال اس بات کو تسلیم بھی کیے لیتے ہیں کہ کشمیر ایک روز جادو کے زور پر ہم سے ملحق ہو جاتا ہے۔ ہم کیا ایسا رکھتے ہیں، کون سی گیدڑ سنگی ایسی ہمارے پاس ہے جس کی بدولت ہم ان کو بھی سنبھال لیں گے۔ آپ پہلے اپنے موجودہ وطن عزیز کی دگر گوں معاشی حالت پر نگاہ دوڑائیے پھر فیصلہ کیجئیے، کہ کیا ایسا ہمارے پاس موجود ہےجس کی بدولت ان اضافی افراد کی زندگیوں کو ہم پہلے سے بہتر کرسکیں۔ موجودہ وطن عزیز میں تعلیم، صحت، سیکیورٹی ، معیشت ہر چیز ہی تنزلی کا شکار ہے۔ ایسے میں ہم پہلے اپنے قابل ہوجائیں پھر ان کو بھی دعوت دینے لائق بن سکیں گے۔ لیکن وہ کیا کہیے، ہم میں بھی ذات کا خناس ہے کہ جس نے ہم کو ایک ہی نقطہ پر مرکوز کر رکھا ہے۔ کشمیر مسلمانوں کی اکثریت رکھنے والی ریاست ہے۔ یہ ہمیں ملنی چاہئیے تھی۔ یہ خواہش وہ خواہش ہے کہ جس کی خاطر خود ہم نے موجودہ ملک کی سلامتی اور خوشحالی کو داو پر لگا رکھا ہے۔
یہ موضوع اتنا وسیع ہے اور دلائل اتنے کہ کئ اقساط درکار ہوں راقم کو ان کو تفصیل سے بیان کرنے کے لئیے۔ پر ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئیے تو ہم نے ایک سراب کا پیچھا گزشتہ بہتر سالوں سے کیا ہے۔ اپنی عوام کو بھی اس ٹرک کی بتی کے پیچھے لگاے رکھا ہے طرح طرح کے جزباتی مکالمے سنا کر۔ مثلا “کشمیر تقسیم کا نامکمل ایجنڈا ہے“، “کشمیر ہماری شہہ رگ ہے“، ” ہم کشمیر کی خاطر آخری حد تک جائیں گے” ، “کشمیر بنے گا پاکستان، یہ ہے ہمارا ایمان“۔
یہ نعرے کسی پاکستانی فلم یا ڈرامے میں تو چل سکتے ہیں، پر حقیقت اس سے قدرے مختلف ہے۔ وہ اقوام متحدہ کا بار بار تزکرہ بھی ہم تسبیح کے ورد کی طرح کیا کرتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اس قرارداد جس کا حوالہ دیتے دیتے ہم ہلکان ہوے جاتے ہیں، اس کی رو سے جارح افواج کو کشمیر سے انخلا کرنا ہوگا۔ خیال رہے اقوام متحدہ کی نگاہ میں سنہ سینتالیس میں ہم نے کشمیر پر لشکر کشی کرکے جارحیت کا مظاہرہ کیا تھا، سو ان کی نگاہ میں ہمیں پہلے اپنے کشمیر سے نکلنا ہوگا۔ پھر چند ایک بھارتی فوجوں کو وہاں امن قائم رکھنے کے لئیے رہنا ہوگا۔ پھر وہاں استصواب راے ہوگا۔ یہ کہیں نہیںً کہا گیا کہ اقوام متحدہ وہ استصواب راے اپنی نگرانی میں کرواے گی۔ جو سوال یہاں بنتا ہے کہ اگر ہم اتنے ہی حق پر ہوتے تو اپنے پاس موجود آزاد کشمیر میں کب کا استصواب کروا کے اسے کب کا حقیقی معنوں میں آزاد کر چکے ہوتے۔
♥