بیرسٹر حمید باشانی
سرینگر شہر محصور ہے۔ اس کے باسی اپنے گھروں میں بند ہیں۔ یہاں خوف کے سائے ہیں۔ دہشت ہے۔ فوجی پہرے اور کرفیو کے باوجود کچھ لوگ سڑکوں پر نکل کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ شہر بند ہے، اس پر خوف چھایا ہے ۔ مگر اس شہر کو لیکر دنیا بھر کے کئی دوسرے شہروں میں بھی احتجاج ہو رہا ہے۔ جلسے جلوس ہو رہے ہیں۔ لوگ غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں۔ جمہوریت اور انسانی حقوق پر شب خون کی مذمت کر رہے ہیں۔ جمہوری اور انسانی حقوق کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
یہ غم و غصہ ، جوش و جذبہ فطری ہے۔ جس طریقے سے ریاستی عوام کو بیک جنبش قلم ان کے صدیوں کے حقوق سے محروم کیا گیا ہے یہ اس کا فطری رد عمل ہے۔ یہ ایک خوفناک صورت حال ہے۔ لوگوں کے جذبات ابل رہے ہیں۔ غم و غصہ عروج پر ہے۔ اور یہی وہ نازک لمحہ ہوتا ہے جب قوموں سے غلطیاں ہو تی ہیں، جن کی سزا ان کی آنے والی نسلیں بھگتتی رہتی ہیں۔
چنانچہ اس ہیجان خیز وقت میں کشمیری قیادت اور عوام کے لیے لازم ہے کہ وہ دانش سے کام لیں۔ صبر اور بردباری کا مظاہرہ کریں۔ ان غلطیوں سے بچیں جو ظلم کی اس سیاہ رات کو طوالت بخش سکتی ہیں۔ جو کشمیری عوام کے جائز اورمسلمہ موقف کو کمزور کر سکتی ہیں، اور قابض قوتوں کی حیثیت کو مزید مضبوط کر سکتی ہیں۔
کشمیر کی تاریخ میں ایسا ہیجان خیز وقت کئی بار پہلے بھی آیا۔ اس ہیجان خیز وقت میں سنگین غلطیاں سرزد ہوتی رہی ، جس کی وجہ سے آزادی کی منزل قریب آنے کے بجائے دور ہوتی گئی۔ اسی طرح کی ایک ہیجانی کیفیت میں ایک تاریخی غلطی شیخ عبداللہ سے ہوئی تھی۔ شیخ صاحب بلاشبہ ایک دانش مند لیڈر تھے۔ مگر 1946 میں “کشمیر چھوڑ دو” تحریک چلا کر انہوں نے پہاڑ جیسی غلطی کی تھی۔
مہاراجہ ہری سنگھ انگریزوں کی طرح سمندر پار سے نہیں آیا تھا۔ وہ اس دھرتی کا بیٹا تھا۔ اس کے آبا و اجداد نے یہ ریاست بنائی تھی۔ اور اس پر سو سال تک حکومت کی تھی۔ اوپر سے مہاراجہ قوم پرستی کے جذبات سے مغلوب تھا، اور ریاست کے مسقبل کے بارے میں اس طرح سوچتا تھا جس طرح شیخ صاحب سوچتے تھے۔ واحد اختلاف مستقبل میں ریاست کے معاشی اور سیاسی نظام پر تھا۔ مہاراجہ ایک آزاد خیال آدمی تھا۔ وہ ریاست سے جاگیرداری نظام اس طرح ختم کرنے کے حق میں نہیں تھا، جس طرح شیخ صاحب تھے۔ شیخ صاحب کا “نیا کشمیر” کشمیری پنڈتوں نے لکھا تھا جو زیادہ تر کمیونسٹ تھے۔ وہ بلا معاوضہ زمینیں لے کر کسانوں میں تقسیم کرنا چاہتےتھے، جو بعد میں انہوں نے کیا بھی۔
اس معاملے پر مہاراجہ کو کسی درمیانی حل پر قائل کیا جا سکتا تھا۔ اصل سوال جو اس وقت درپیش تھا وہ مستقبل کی ریاستی سیاست میں مہاراجہ ہری سنگھ کا مقام تھا۔ اس معاملے میں کئی یوروپین ریاستوں کی نظیر سے استفادہ کیا جا سکتا تھا، جنہوں نے اپنے بادشاہوں کو جدید جمہوری بندوبست کا حصہ بنا دیا تھا۔ بعد میں شیخ عبداللہ بھی ایسا ہی کرنے پرمجبور ہوئے۔ انہوں نے مہارجہ کے بیٹے ڈاکٹر کرن سنگھ کو صدر ریاست مان لیا۔ مگر یہ کام بہت دیر سے ہوا۔ اس وقت تک ریاست کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا تھا۔ اس کی وحدت پارپارہ ہو چکی تھی۔
سنہ 1946 میں اگر یہ کام کر دیا جاتا، تو آج حالات مختلف ہوتے۔ ریاست بندر بانٹ سے بچ جاتِی۔ اور جو لاکھوں لوگ ہندو مسلم فسادات میں مارے گئے وہ بچ جاتے۔ اس طرح ریاست کے اندر جو مذہبی روا داری کی روایات تھِیں وہ مجروح ہونے سے بچ جاتی۔ مگر آدمی جتنا بڑا ہوتا ہے، اس سے غلطی بھی اتنی ہی بڑی سرزد ہوتی ہے۔ اس غلطی کا خمیازہ آج ہماری نسل بھگت رہی ہے۔ اب موجودہ رہنماوں پر لازم ہے کہ وہ ایسی غلطیاں نہ کریں، جن کا خمیازہ ان کی نسلوں کو بھگتنا پڑے۔
آج کے عالمی تناظر میں دنیا میں کسی تحریک کو تباہ کرنا ہوتو اس کا آسان نسخہ یہ ہے کہ اسے مذہبی رنگ دے دیا جائے۔ مگر کشمیر کے اندر کچھ لوگ جان بوجھ کر یہ غلطی کر رہے ہیں۔ ان کی تقاریر، تحریروں اور بیانات سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ایک قوم کی آزادی کی تحریک کے بجائےیہ کوئی ہندو مسلم تنازعہ اورسوال ہے۔ اس طرح کا بیانیہ آگے لانے سے مسئلے کے پیچھے موجود تاریخی، اخلاقی اور قانونی جوازیت کمزور پڑ جاتی ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ تقسیم در تقسیم کے عمل سے گزرنے کے بعد جموں کشمیر کا جو بچا کچھا علاقہ” یونین ٹیری ٹوری” قرار دیا گیا ہے، اس علاقے میں صرف مسلمان آباد نہیں ہیں۔ جموں میں ہندو ڈوگروں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔ وادی میں اگرچہ ہندوں کی تعداد کم رہ گئی ہے، مگر جو بڑی تعداد میں پنڈت وہاں سے نکلے ہیں انہوں نے ریاست کی شہریت ترک نہیں کی ہے۔ وہ بدستور کشمیری ہیں۔ قانونی اور آئینی طور پر وہ تمام معاملات میں رائے دینے کے حقدار ہیں۔ اس طرح یہ آج بھی ایک کثیر لاثقافتی اور کثیر المذہبی علاقہ ہے۔ اس علاقے میں مذہب کی بنیاد پر چلائی جانے والی تحریک کشمیری عوام کے اندر مذید دشمنی اور منافرت کا ہی باعث بن سکتی ہے، جس فائدہ صرف قابض قوت کو ہی ہو سکتا ہے۔ اس وقت سوال مذہبی شناخت کا نہیں، بلکہ ریاستی تشخص کا ہے، جسے اس کے درست تناظر میں پیش کرنا ضروری ہے۔
دوسری بڑی غلطی جو کچھ لوگ کر رہے ہیں وہ حق خود ارادیت کو اس کے تاریخی اور قانونی تناظر سے کاٹ کر دیکھنے اور پیش کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ حق خود ارادیت ایک انسانی حق ہے۔ اس کا اطلاق کشمیر میں بسنے والے تمام انسانوں پر بلا تفریق ہوتا ہے۔ اس کا اطلاق صرف کشمیری مسلمانوں پر نہیں ہوتا، بلکہ اس میں سکھ عیسائی بھی سب ہی شامل ہیں۔ یہ بات اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی شامل ہے، اور اقوام متحدہ کی قرادادوں کا منشا بھی یہی ہے۔
مگر بد قسمتی سےکچھ لوگ حق خود ارادیت کو محدود و مشروط سمجھ رہے ہیں یا بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ حالاں کہ یہ غیر مشروط حق ہے۔ یہ حق جس طرح مسلمانوں کے لیے غیر مشروط ہے، اس طرح اقلیتوں کے لیے بھی غیر مشروط ہے۔ جس طرح مذہبی وابستگی کی بنیاد پر ریاست کے مسلمانوں کا حق ہے کہ وہ الحاق پاکستان کا نعرہ لگائیں اس طرح ہندو عقیدے کے حامل لوگ بھی مذہب کی بنیاد پر الحاق ہندوستان کا نعرہ لگانے کے مجاز ہیں۔ حق خود ارادیت کے اسی غیر مشروط اصول کے تحت خود ٘مختاری کا مطالبہ کرنا بھی کشمیری عوام کا حق ہے۔
یہ سارے تسلیم شدہ حقوق اپنی جگہ ہیں، مگر اس وقت یہ نعرے قبل از وقت اور بے موقع ہیں۔ اس وقت ریاست میں سوال اس کے اندر جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کی بحالی ہے۔ میڈیا کی آزادی اور انسانی حقوق کے تحفظ کا ہے۔ ریاست میں شہری آزادیوں اور انسانی حقوق پر جس طرح کی سخت پابندیاں عائد ہیں ان کے خلاف ایک متحدہ آواز اور متحدہ جہدوجہد کی ضرورت ہے۔ انسانی حقوق پر یقین رکھنے والوں کو ایک بہت بڑی امید بھارتی سپریم کورٹ سے بھی تھی۔
سپریم کورٹ میں اس سلسلے میں کئی درخواستیں دائر تھِیں۔ ان میں دفعہ تین سو ستر اور پینتیس اے کی بحالی سے لیکر جمہوری حقوق اور شہری آزادیوں کی بحالی جیسی گزارشات شامل تھِیں۔ مگر سپریم کورٹ نے ان درخواستوں پر فوری سماعت اور فیصلے سے اجتناب کیا اور وادی میں صورت حال معمول پر آنے تک انتظار کرنے کا مشورہ دیا۔ یہ فیصلہ آنے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ اب اس باب میں کشمیری عوام کی جہدو جہد کٹھں اور طویل ہو گی۔
بھارتی پارلیمنٹ پہلے ہی اس شب خون کی توثیق کر چکی جو کشمیری عوام کے انسانی حقوق اور شہری آزادیوں پر مارا گیا۔ سپریم کورٹ نے بھی اس باب میں کوئی فوری مداوا کرنے سے انکار کر دیا، جس سے لگتا ہے کہ اب ظلم کی رات لمبی ہو گی۔ اب غلطی کی گنجائش نہیں ہے۔ چنانچہ اب کشمیری عوام کے پاس واحد راستہ سیاسی جہدوجہد ہے۔ یہ جہدو جہد پر امن ہونی لازم ہے تاکہ بڑے پیمانے پر خون خرابے یا آبادی کے انخلا سے بچا جائے۔
♦