لیاقت علی
پانچ اگست 2019 کو بھارتی پارلیمنٹ کے آئینی اقدامات( غلط یا درست ہونے کے بحت کو علیحدہ رکھتے ہوئے) نے مسئلہ کشمیر کو بہت حد تک حل کردیا ہے۔ اب اس بات کے امکان نہ ہونے کے برابرہیں کہ بھارت اور پاکستان کے مابین کشمیر پر دوطر فہ بات چیت بھی ہوسکے۔ اب دونوں ممالک کے مابین بہت سے دیگر مسائل پر تو بات چیت ہوسکتی ہے لیکن کشمیر کے زیر بحث آنے کے امکانات مققود ہوگئے ہیں۔
ان اقدامات سے یہ بات بھی آشکارا ہوگئی ہے کہ اب دونوں ممالک کے مابین کشمیر پر جنگ نہیں ہوسکتی یا یہ کہہ لیں کہ اگر یہ کمشیر پر جنگ کرنا بھی چاہئیں تو دنیا کے بڑے انھیں ایسا نہیں کرنے دیں گے۔ جنگ کا اگر کوئی تھوڑا بہت امکان تھا بھی تو وہ گذشتہ دو ہفتوں کی سفارتی سرگرمیوں کی بنا پر ختم ہوکر رہ گیا ہے اور پنجابی میں وہ جو کہتے ہیں کہ گل کل تے پیہ گئی اے والی صورت حال بن گئی ہے،چھوٹی موٹی ٹھک ٹھک لائن آف کنٹرول پر جاری رہے گی اور ایک دوسرے کو مطعون کرنے کا تماشا لگے رہے گا۔
مودی کو اندوروں ملک سیاسی قوتوں کی حمایت حاصل ہے گو کہ کانگریس اور کچھ دیگر جماعتیں کشمیر پر ہونے والے ان آئینی اقدامات کی مخالفت کررہی ہیں لیکن ان کی مخالفت محض زبانی جمع خرچ سے زیادہ نہیں ہے۔ وہ زبانی اظہار کرنے سے تو رہیں لیکن اندر خانے وہ خوش ہیں کہ جو کام وہ نہیں کرسکتی تھیں اسے مودی نے کر دکھایا ہے۔ جتنا یہ کام کرنا مشکل تھا اسے سے زیادہ مشکل اسے واپس لینا ہے اور بھارت کی کوئی بھی سیاسی پارٹی ان آئینی اقدامات کو واپس لینے کا وعدہ نہیں کرے گی کیونکہ اس کا مطلب ہوگا ووٹ بینک کا ہاتھ سے نکل جانا۔
اب کشمیریوں کو اپنے سیاسی معاشی اور آئینی حقوق کے لئے بھارتی کی یونین کے اندر رہتے ہوئے جدوجہد کرنا ہوگی اور بھارت کی دوسری جمہوری اور سیکولر قوتوں کے ساتھ اتحاد و الحاق بنانا ہوگا اب اکیلے کشمیر کے نام پر وہ اپنے حقوق حاصل نہیں کرسکیں گے۔
فرض کرتے ہیں کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر پاکستان کو مل گیا ہے۔ کشمیر نے پاکستان سے الحاق کرلیا ہے۔ تو کیا کشمیر کی غیر مسلم آبادی جو ہندووں سکھوں اور بدھ مت کے ماننے والوں پر مشتمل ہے اور جو کشمیر کی آبادی کا تقریبا 29 فی صد ہے اس کو بھی پاکستان قبول کرے گا؟ یا اس غیر مسلم آبادی کو لینے سے انکار کردے گا۔
اور اگر قبول کرے گا تو اس کی موجودگی میں پاکستان کا اسلامی کیریکٹر کیسے برقرار رہ سکے گا کیونکہ ایک صوبہ جس میں ایک تہائی کے قریب آبادی غیر مسلم ہوگی وہ پاکستان میں اگر نہیں تو اپنے صوبے کی حد تک شریعت کے نفاذ کی راہ میں مزاحم ہوگی۔ پھر کشمیریوں نے بھارت کی تمام تر زیادتیوں اور ظلم و ستم کے باوجود جن جمہوری آزادیوں کا مزہ چکھا ہے ان کا پاکستان میں کیا ہوگا؟
کیا کشمیریوں کو بھارت کے الیکٹرونک میڈیا پر انٹرویوز دینے کی اجازت ہوگی جیسا کہ اب وہ پاکستان کے میڈیا پر بھرپور انداز میں اپنا موقف بیان کرتے ہیں؟۔ سری نگر میں کشمیری قیادت جس طرح لال چوک میں کشمیری کی آزادی کے نعرے لگاتی ہے کیا اسے سری نگر اور مظفر آباد میں کشمیر کی پاکستان سے آزادی کا مطالبہ کرنے کی اجازت ہوگی؟
کیا کشمیر میں کشمیریوں کی انتظامی عہدوں پر تعینات کیا جائے گا یا پنجابی افسران ہی ان عہدوں پر تعنیات ہوں گے؟ کشمیر کو اپنے ساتھ ضم یا ملحق کرنے سے پاکستانیوں کو ان اور ان سے ملتے جلتے اور بہت سے سوالات بارے غور وفکر کرنا ہوگا کیونکہ یہ نہ ہو کہ کشمیر تو مل جائے لیکن اس کے ملنے سے ایک اور پنڈورا باکس کھل جائے۔
♦