خالد تھتھال
ایک زمانہ تھا کہ تیسری دنیا سے تعلق رکھنے والے بہت زیادہ لوگوں نے مغربی ممالک میں معاشی ہجرت کی۔ مقامی روایات سے ناواقفیت اور مختلف رویوں کی وجہ سے چند سالوں کے بعد مقامی معاشروں میں ان تارکین وطن کے خلاف جذبات ابھرنا شروع ہوئے۔
کچھ نسل پرست جماعتیں بھی سامنے آئیں۔ برطانیہ میں اینک پاول کی زیر قیادت نیشنل فرنٹ کا کافی ذکر سنا جاتا تھا۔ فرانس میں ژاں ماری لی پین کی زیر قیادت بھی نیشنل ریلی کے نام سے تارکین وطن کے خلاف جماعت سامنے آئی، لیکن یہ جماعتیں کوئی زیادہ مقبولیت نہ حاصل کر پائیں ۔ کیونکہ ایک تو تارکین وطن مقامی معاشرے کے طور طریقے سیکھ کر معاشرے کا حصہ بننا شروع ہو گئے تھے اور دوسرا کہ مقامی معاشرہ بھی ان “عجیب” سے تھوڑا مانوس ہوتا جا رہا تھا۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسل پرستی کا مسئلہ کافی حد تک حل کی طرف گامزن تھا ۔ اور پھر سلمان رشدی کی “شیطانی آیات” سامنے آتی ہے اور رنگ کا مسئلہ ثانوی حیثیت اختیار کر لیتا ہے۔ اور اس کی بجائے مسلمان ایک ایسے گروہ کے طور پر سامنے آتے ہیں جو مقامی معاشرے سے ناخوش ہے، اسے ناپسند کرتا ہے اور اسے اپنے عقائد کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں۔
اس کتاب کے حوالے سے ہر مغربی ملک میں مظاہرے ہوئے۔ ناروے میں بھی اس کتاب کے خلاف مظاہرے ہوئے۔ ناروے میں ہر اہم کتاب کا نارویجن ترجمہ کیا جاتا ہے تاکہ وہ شخص بھی اسے پڑھ پائے جسے اردو پر دسترس حاصل نہیں ہے۔ چنانچہ کتاب کا ترجمہ نارویجن زبان میں ہوا اور ولیم نیگور نامی جس ناشر نے اسے چھاپنے کی جسارت کی تھی اُس پر قاتلانہ حملہ ہوا۔ حملہ آور نہیں پکڑے گئے لیکن افواہ ہے کہ اس میں ایرانی سفارت خانہ ملوث تھا۔
اور پھر تھوڑے تھوڑے وقفے سے کچھ نہ کچھ ایسا ہونے لگا جس پر مسلمانوں نے رد عمل دینا ضروری سمجھا۔ اور یوں محسوس ہونے لگا کہ مغربی ممالک میں نسل پرستی کا مسئلہ حل ہو گیا ہے، یا کہ مغرب میں صرف مسلمان ہی آباد ہیں اور یہی وہ واحد گروپ ہے جسے مقامی معاشرے سے گلے ہیں اور یہی وہ گروہ ہے جو مقامی اقدار کے لیے خطرہ ہے۔
حکومتی سطح پر جہاں انتہائی نرمی کا مظاہرہ کیا گیا اور مسلمانوں کے مطالبات مانے گئے، وہیں عام لوگوں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدگی کے جذبات پیدا ہونے شروع ہو گئے، جو ہر آنے والے دن بڑھتے گئے اور بڑھتے جا رہے ہیں۔
یہ انہی جذبات کا نتیجہ ہے کہ نیوزی لینڈ کی مسجد میں ایک گورے کا حملہ سامنے آیا اور یہ وہی جذبات ہیں جس کے نتیجے میں اوسلو کے باہر بیرم نامی علاقے میں ایک مقامی نے حملہ کرنے کی ناکام کوشش کی اور پکڑا گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کو ناپسندیدگی کی نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے۔ اگر یہ مسئلہ مذہب کا ہوتا تو مغرب میں تو ہندو بھی آباد ہیں، سکھ بھی ہیں، بدھ بھی ہیں۔ مغرب میں ہر مذہب کے ماننے والوں کی عبادت گاہیں موجود ہیں۔ لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی مندر یا گورودوارے پر حملہ ہو۔
مسلمانوں مخالف ان جذبات کو نسل پرستی کی ہی شاخ کہنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن اگر یہ نسل پرستی یعنی رنگ کا مسئلہ ہوتا تو یہاں تو کالے پیلے ہر رنگ کے لوگ آباد ہیں، لیکن نفرت صرف مسلمانوں کے حصے میں ہی کیوں آئی ہے۔
جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آتا ہے جس میں کسی ایک یا زیادہ مسلمانوں کو ناخوشگوار حالات سے گزرنا پڑے تو ایک دم سے ان کے لیے ہمدردی کی لہر اٹھتی ہے لیکن جلد ہی وہ بیٹھ بھی جاتی ہے اور حالات پھر پہلے جیسے ہو جاتے ہیں۔ چنانچہ بیرم کی مسجد پر حملے کے بعد مقامی آبادی نے مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے مسجد کے ارد گرد حفاظتی حصار بنائے۔چند دن بعد یہ بات پرانی ہو جائے گی، اور حالات پھر معمول کی جانب لوٹ جائیں گے۔
اصل مسئلہ وہیں کا وہیں ہے کیونکہ کوئی بھی اس پر کھل کر بات کرنے سے اس لیے تیار نہیں ہوتا کہ اُس پر نسل پرستی کا الزام نہ لگ جائے۔ نہ مسلمانوں میں سے کوئی اس صورت حال کی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کرنے کو تیار ہیں اور نہ کوئی سیاسی جماعت اس پر کھل کر بولنے کا کام کرنے کو تیار ہے کیونکہ مسلمانوں کا ووٹ بینک خاصی اہمیت رکھتا ہے۔ لہذا کوئی بھی جماعت مسلمانوں کا ناراض نہیں کرنا چاہتی۔
چنانچہ بیشک حکومتی سطح پر “اسلامو فوبیا” کے خلاف کام کرنے کے لیے کئی جماعتیں اکٹھی ہو چکی ہیں۔ لیکن اس سے صرف یہی ہو سکتا ہے کہ چند جماعتیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کر پائیں گی یا مسلمانوں کو سرکاری سطح پر چند رعایتیں مل جائیں گی لیکن عوام الناس کے اندر مسلمانوں کے خلاف جذبات میں کوئی تبدیلی آنے سے رہی۔
کہا جاتا ہے کہ مغرب میں مسلمانوں کے متعلق ناپسندیدگی کی جذبات کی وجہ مغرب میں مسلمانوں کی دہشت گردانہ کاروائیاں ہیں۔ اس دلیل کو مسلمان بہت آسانی سے یہ کہہ کر رد کر دیتے ہیں کہ اس کے ذمہ دار صرف چند عناصر ہیں جو مسلمانوں کی اکثریت کی نمائندگی نہیں کرتے وگرنہ اسلام تو امن کا دین ہے جس کی تعلیمات کے مطابق ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے۔
لیکن مصیبت یہ ہے کہ اگر دہشت گردانہ کاروائیوں کو بھول بھی جائیں تو یہ بات بھی تو اپنی جگہ موجود ہے کہ مسلمان ہی وہ واحد گروہ ہے جو مقامی معاشروں کا حصہ بننے سے انکار کر رہا ہے، اور اس کے جواز کے لیے وہ مذہبی تعلیمات کو سامنے لاتے ہیں۔
اوپر بیرم کے علاقے میں موجود مسجد کے اندر ہونے والے حملے کا ذکر کر چکا ہوں۔ آج فیس بک اس خبر سے بھری پڑی ہے کہ ناروے کا ولی عہد شہزادہ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کی خاطر اُس مسجد میں گیا۔ جوتے باہر اتارے، اندر مردوں عورتوں سے ملا۔ اور نارویجن رسم و رواج کے مطابق لڑکیوں سے بھی مصافحہ کرنا چاہا۔ تصویر میں دیکھ سکتے ہیں کہ لڑکی نے ہاتھ آگے نہیں بڑھایا۔
اب اس خبر کو ہر کوئی اپنا رنگ دے رہا ہے۔ کچھ لوگوں کے بقول ہمیں مسلمان خواتین سے مصافحہ نہیں کرنا چاہیئے کیونکہ یہ اُن کا دینی مسئلہ ہے۔ کچھ کے بقول شہزادے کی بے عزتی کی گئی ہے، اور اس حرکت کو مسلمانوں کی طرف سے مقامی معاشرے کو درمیانی انگلی دکھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔
چنانچہ جہاں سیاسی جماعتیں“اسلامو فوبیا” کے خلاف اپنے جہاد جاری رکھے ہوئے ہیں وہیں اور ہم مسلمان بھی جی توڑ محنت کر رہے ہیں کہ ان جماعتوں کو ہم نے کامیاب نہیں ہونے دینا۔
♦