خان زمان کاکڑ
سولہ دسمبر 2014ء کو پشاورجسے پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا کو پھولوں کے قبرستان میں بدل دیا گیا۔ آرمی پبلک سکول پر دہشت گردوں نے حملہ کرکے وہاں موجود ڈیڑھ سو سے زیادہ پھولوں کو خون و خاک میں ملا دیا۔ اس قیامت خیز واقعے کے دن اسلام آباد میں نوازشریف کی حکومت کے خلاف تحریک انصاف پارٹی کے جاری دھرنے کے 126 دن پورے ہورہے تھے۔ دھرنے کو ختم کیا گیا۔ دھرنے کے اختتام پر سیاسی جماعتوں نے کچھ سکھ کا سانس لیا کہ اس اعصاب شکن واقعے کے بعد شاید اب فوجی ایسٹبلشمنٹ جمہوری حکومت گرانے کی سوچ کچھ وقت تک ترک کردے گی۔
سیاسی جماعتوں اور سماجی حلقوں کی خوش فہمی اس وقت اور بھی بڑھ گئی جب چند دن بعد وزیراعظم نوازشریف کی طرف سے بلائی گئی ایک کل جماعتی کانفرنس جس میں فوجی قیادت بھی شریک تھی میں اعلان کیا گیا کہ مزید کسی بھی قسم کے دہشت گردوں کو برداشت نہیں کیا جائیگا اور سب کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کی جائیگی۔ ساری “ملکی قیادت” کو “ایک پیج” پر پایاگیا۔ ایک بات چھوڑی گئی جس کی ترویج کیلئے پھر سیاسی جماعتوں اور لبرل حلقوں یا سول سوسائٹی نے دن رات ایک کرکے کام کیا۔
حیرت ہوتی ہے کہ سیاسی جماعتوں اور لبرل دانشوروں نے اس ادارے کی زبان پہ کیسے اتنی آسانی سے اعتبار کیا جس کے ہاتھوں وہ کئی دہائیوں سے مار کھاتے چلے آرہے تھے۔ شعوری یا لاشعوری طور پر ایک ایسا تاثر سیاسی حلقوں کی طرف سے پھیلایا گیا کہ ریاست کی پالیسی میں ایک ڈرامائی تبدیلی آچکی ہے، اب وہ فوج جو دہشت گردوں کا خالق اور والی وارث تھی دہشت گردوں کا صفایا کرنے کی تیاری کرچکی ہے۔ اس نئے ابھرتے ہوئے بیانیے کو نیشنل ایکشن پلان یا بیس نکاتی قومی ایجنڈے کا نام دیا گیا۔
اس “متفقہ دستاویز” میں جن نعرے نما باتوں کو شامل کیا گیا ان میں کسی بھی لحاظ سے پالیسی میں تبدیلی کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔ میں ایک سیدھی سادی بات کروں، جو لوگ آئین کو ایک دن کیلئے نہیں مانے ہیں، وہ پھر کیا کسی پلان پر عملدرآمد کرنے کے پابند ہونگے؟ بالفاظ دیگر، اس پلان پر کس نے عملدرآمد کرنا تھا؟ کیا حکومت کی اوقات تھی کہ وہ فوج کو کسی پلان پر عملدرآمد کا پابند بناتی؟ کیا حکومت کے پاس یہ اختیار تھا کہ وہ ان معاملات میں کوئی مداخلت کرتی جو چار دہائیوں سے مکمل طور پر فوج کے کنٹرول میں چلے آرہے ہیں؟
اس سے بھی بنیادی سوال یہ ہے کہ اپنے بنائے ہوئے دہشت گردوں کو ختم کرنے کیلئے کونسے پلان کی ضرورت تھی؟ پوری کی پوری خارجہ پالیسی کس کے ہاتھ میں تھی کہ نیشنل ایکشن پلان کو پاس کرنے پر شادیانے بجائے گئے؟ دہشت گردی کو ختم کرنا مقصود تھا لیکن اس کیلئے جو پلان بنایا گیا اس میں دہشت گردی کی بنیاد کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں تھا۔ دہشت گردی کی بنیاد کیا ہے؟
دہشت گردی کی بنیاد ہے پاکستان کی افغان پالیسی اور تزویراتی گہرائی کی پالیسی۔ دہشت گردی کی بنیاد ہے جنگی اقتصاد کی ایک وسیع سلطنت۔ دہشت گردی کی بنیاد ہے خارجہ پالیسی پر فوج کی اجارہ داری۔ دہشت گردی کی بنیاد ہے سیاسی معاملات میں فوج اور خفیہ ایجنسیوں کی مداخلت۔ دہشت گردی کی بنیاد ہے آئین کی پامالی اور دہشت گردی کی بنیاد ہے قوموں کی محکومیت۔
دہشت گردوں کے ساتھ سختی سے نمٹنے اور ان کو ملنے والی امداد روکنے کا جملہ کونسا پلان ہے؟ یہ تو دہشت گردی کے خلاف جنگ کا حصہ بننے کے بعد سب سے مقبول جملہ ہوتا چلا آرہا ہے۔ دینی مدارس کو رجسٹرڈ کرنے اور قومی دھارے میں لانے اور نفرت انگیز مواد پر پابندی لگانے کا نعرہ تو فوجی آمر پرویز مشرف کی “روشن خیالی” کا حصہ بھی تھا۔ ملک کے مختلف علاقوں میں جاری آپریشنوں کو اپنے اپنے منطقی انجام تک پہنچانے کی بات تو اس ہر آپریشن کے غیر منطقی آغاز کے دن ہی کہی جاتی تھی اور پھر اس کو منطقی انجام تک پہنچایا بھی جاتا تھا۔
ہر فوجی آپریشن کے ہر منطقی انجام کے طور پر پشتونوں کو اپنی جان و مال پر اختیار سے ہاتھ دھونا پڑا ہے۔ پلان میں فاٹا میں اصلاحات کا نکتہ بھی شامل ہے جو بھی وہاں پر دنیا جہان کے دہشت گرد لانے کے ساتھ ابھر آیا تھا۔ سیاسی مفاہمت کیلئے بلوچستان حکومت کے اختیارات زیادہ کرنے کا نکتہ بھی پلان کا حصہ تھا لیکن وہاں پر ایف سی کی توسیع پسند سلطنت کی موجودگی میں کہاں کی مفاہمت اور کہاں کی حکومت ٹھہرتی؟
نیشنل ایکشن پلان کے آنے کے بعد عملاً دیکھا گیا کہ بلوچستان میں ایف سی کو سیاسی معاملات پر اپنا کنٹرول مزید بڑھانے کا ایک بہترین موقع مل گیا ہے جس کی ایک بڑی مثال پلان کے بننے کے بعد ایک سال کے اندر بلوچستان کے ہوم سیکرٹری اکبر حسین درانی کے مطابق اس صوبے میں نو ہزار سے زائد لوگوں کی گرفتاری ہے۔ یہ لوگ کون تھے اور کونسی دہشت گردی کرتے تھے؟ اس کا ہمیں کوئی پتہ نہیں چلا۔ ماما قدیر بلوچ کئی سالوں سے ہزاروں لاپتہ بلوچ افراد کے حوالے سے ایک احتجاجی کیمپ چلا رہے ہیں، ان کو بتایا گیا ہے کہ کیمپ کو “رجسٹرڈ” کرایں، ورنہ کارروائی کی جائیگی۔
اس پلان میں صرف ایک کام کا نکتہ تھا، جس پر عملدرآمد بھی ہونا تھا اور جس پر عملدرآمد ہو بھی گیا۔ اسی ایک نکتے کو قابلِ عمل بنانے کیلئے یہ سارا ڈول ڈالا گیا۔ اسی ایک نکتے کیلئے کوئی لبادہ درکار تھا جسکو نیشنل ایکشن پلان کے نام سے پایا گیا۔ نکتہ تھا فوجی عدالتوں کا قیام۔ فوجی عدالتیں نہ صرف قائم ہوئیں بلکہ فعال بھی ہوئیں اور یہاں تک کے ان کی مدت میں توسیع کیلئے ایک اور آئینی ترمیم بھی کی گئی۔ یہ سارا کام پوری “ایمانداری” کے ساتھ کیا گیا۔ کس کو دہشت گرد ڈکلئیر کیا گیا؟ کس کو کونسی سزا ملی اور کونسی دہشت گردی میں کونسی کمی لائی گئی؟
اس سوال کا جواب جس نے دینا تھا وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔ جو آئینی طور پر کسی کو جوابدہ بنانے کا مجاز تھا وہ خود کو بھی نہیں بچا سکا۔ فوج کی ناجائز خواہشات کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ٹیکتے بالاخر نیب کی زد میں آگئے، جیل تک پہنچ گئے، اپنی بیٹی اور اپنی سیکنڈ لیڈرشپ کے ساتھ۔ پھر افواجِ پاکستان کی نگرانی میں الیکشن ہوگئے بلکہ فوج کی نگرانی میں الیکشن کے نتائج کو اس شخص کے حق میں چرائے گئے جو طالبان کو دفتر دینے کا مطالبہ کرتا تھا اور جس کو طالبان خان کا لقب ملا تھا۔
اے این پی کے میاں افتخار حسین کے بقول یہ سلیکٹڈ، ریجکٹڈ وزاعظم ایک بوری کی مانند ہے جس کے پیچھے کوئی مورچہ زن ہوکر وار کرتا ہے لیکن اس بوری کی حکومت میں بھی نیشنل ایکشن پلان پر ریاست سے عملدرآمد کرانے کی خواہش دم نہیں توڑ گئی ہے۔ مسلسل مطالبے اور پر زور مطالبے ہورہے ہیں۔ بے مثال سادگی اور بے مثال بے بسی سے بیک وقت دوچار ہونے کا نام شاید جمہوریت پسندی، امن پسندی اور مفاہمت پسندی ہو۔ ایک ناپسندیدہ پسندی۔
نیشنل ایکشن پلان کے بنتے ہی دہشت گردی کا الزام افغانستان اور انڈیا کی طرف شفٹ ہونا شروع ہوگیا۔ افغانستان اور انڈیا سے دہشت گرد آتے تھے اور اپنے ہی “ایجنٹوں” کو نشانہ بناتے تھے، اپنے باطنی، پنجابی اور مذہبی دشمنوں کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ حافظ سعید اور جماعت اسلامی والوں کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ انڈیا اور افغانستان کے ساتھ دوستی کی لمبی تاریخ رکھنے والی عوامی نیشنل پارٹی پر حملے ہوتے رہے۔ نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کرنے کا مطالبہ ہوتا رہا۔ دہشت گرد کون ہیں؟ نیشنل ایکشن پلان کوئی تعریف نہیں دے سکا۔ دہشت گردی کے ڈسکورس پر فوج کی اجارہ داری تھی، اجارہ داری رہی۔
تحریکِ طالبان پاکستان کا ترجمان اور اے پی ایس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے والا شخص احسان اللہ احسان ریاست کا “معزز مہمان” ٹھہرا۔ جنوبی وزیرستان سے قومی اسمبلی کا ممبر اور ایک قوم پرست سیاسی کارکن علی وزیر جس کے خاندان کے ایک درجن سے زائد لوگوں کو دہشت گردوں نے قتل کیا ہے آج ہری پور جیل میں فوج کی نگرانی میں قید ہیں اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کررہا ہے۔ پلان میں نفرت انگیز مواد پر پابندی کی بات بھی شامل ہے۔ نفرت انگیز مواد کیا ہے؟ اس کی تعریف آج تک ہمیں نہیں مل سکی۔ کچھ لبرل بلاگرز کو اٹھایا گیا تھا شاید وہ ہی یہ مواد پھیلاتے تھے۔
ایک انگریزی روزنامے “ڈیلی ٹائمز” میں ایک بزرگ بلوچ قوم پرست دانشور محمد علی تالپور اور ایک پشتون دانشور ڈاکٹر محمد تقی کے کالمز پر پابندی بھی شاید “نفرت انگیز مواد” کی روک تھام کی پالیسی کے تحت لگائی گئی تھی۔ “ڈیلی ٹائمز” کا مالک پنجاب کے سابقہ گورنر سلمان تاثیر کا خاندان ہے۔ سلمان تاثیر کے قاتل کا جنازہ پاکستان کو ایک نیا ہیرو فراہم کرنے کے حوالے سے بے مثال رہا۔ لیاقت پارک راولپنڈی میں ایک لاکھ سے زائد لوگ اس قاتل کی آخری رسومات میں شریک تھے۔ جبکہ دوسری طرف راقم السطور، منظور پشتین، علی وزیر، محسن داوڑ اور دیگر ساتھی اپنے ایک شہید ساتھی، ایک قوم پرست پشتون اور ایک شاعر ارمان لونی کے جنازے میں شرکت کرنے اسلام آباد سے قلعہ سیف اللہ جا رہے تھے، سارے راستے میں بندوقوں اور مونچھوں والے کھڑے جانے نہیں دے رہے تھے۔
شمالی وزیرستان میں گزشتہ مئی کے آخر میں پرامن مظاہرین پر فوج نے گولیاں چلائیں، شاید کسی کے جنازے، فاتحے یا عیادت پر جانے کیلئے کسی کو اجازت ملی ہو۔ نیشنل ایکشن پلان وزیرستان کیلئے ایک مسلسل کرفیو کے نفاذ کے طور پر پہنچا ہے۔ پشتونخوا اور پنجاب کے اس فرق سے نیشنل ایکشن پلان کا ایک اور نکتہ ذہن میں آتا ہے اور وہ ہے پنجاب میں شدت پسندی کیلئے زیرو ٹالرینس۔ جس کیلئے یہ طریقہ اپنایا گیا کہ جس بھی کالعدم اور جہادی تنظیم پر زیادہ نکتہ چینی ہوگی اس کو “مین سٹریم” کیا جائے اور انتخابات میں حصہ دلوایا جائے۔ باقی نام بدل کرکام جاری رکھا جائے ،۔
“نام میں کچھ نہیں” شاید شیکسپیر نے کہا تھا۔ اپنے کام سے کام رکھا جائے، کام کی تکمیل پر لفافہ ملنے کا وعدہ پکا ہے۔ نیپ کا ایک اور اہم نکتہ مدارس کی ریگولیشن ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال طالبان کی آبائی درسگاہ درالعلوم حقانیہ کو تیسری دفعہ تین کروڑ روپے دینے میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں کی سزاوں پر 173صفحات کی ایک رپورٹ جاری کی ہے، جس میں 75 لوگوں کے خلاف فوجی عدالتوں کی سزاوں کو بدنیتی پر مبنی او ر بلاجواز قرار دیا گیا ہے اور ساتھ میں استبداد اور زیادتی کے اس سارے ڈھانچے پر بھی آئین اور قانون کی روشنی میں تنقیدی ریمارکس دئیے گئے ہیں جو ان فوجی عدالتوں کے ساتھ تشکیل پایا ہے۔
آج بھی پشتونخوا میں فوج کے عقوبت خانے ہیں،جن میں ہزاروں لوگ، پشتونوں کے بچے بے یار و مددگار پڑے ہیں۔ ملٹری کورٹس کی مدت پوری ہونے کے بعد انہیں بتایا جاتا ہے کہ ان عبوری سنٹرز کو بحالی کیمپ میں تبدیل کیا جائے گا۔ فوج کی نگرانی میں عبوری سنٹر اور بحالی کیمپ دو کوئی مختلف چیزیں نہیں بلکہ پشتونخوا کے مغربی اضلاع میں سیاسی عمل کے روکنے اور سیکوریٹی ایمپائر کو استحکام بخشنے کی ایک ہی پالیسی کے دو نام ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر سے چند ماہ پہلے جب لاپتہ افراد کے حوالے سے پوچھا گیا تھا تو اس کا جواب تھا کہ جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہے۔ نیشنل ایکشن پلان پاس کرتے وقت کیا کسی سیاسی لیڈر کے ذہن میں یہ نہیں آیا کہ فوج کی طرف سے مسلط کردہ جنگ میں سب کچھ کو جائز بنانے کا ایک بدترین پلان تیار ہوگیا ہے؟
روزنامہ شہباز
♦