بھارتی میڈیا نے دعویٰ کیا کہ سلامتی کونسل کے مستقل رکن ملک روس نے جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی سے متعلق نئی دہلی حکومت کے فیصلے کی تائید کر دی، جسے بھارت کی ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دیا گیا۔ اس ضمن میں بھارتی نیوز ایجنسی اے این آئی سمیت قریب سبھی نمایاں بھارتی میڈیا ہاؤسز نے روسی وزارت خارجہ کی ترجمان سے منسوب کے ایک بیان کا حوالہ دیا۔
تاہم ایک پاکستانی اخبار نے دعویٰ کیا کہ روسی وزارت خارجہ نے اس معاملے پر کوئی باقاعدہ بیان جاری نہیں کیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ روسی وزارت خارجہ کی خاتون ترجمان نے جمعے کے روز اپنی پریس کانفرنس میں ماسکو ریجن کے ایک وفد کے تجارت کے سلسلے میں بھارت کے دورے کا ذکر تو کیا تھا لیکن اس بریفنگ میں کشمیر کے حوالے سے کوئی بیان جاری نہیں کیا گیا۔
روسی دفتر خارجہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر بھی گزشتہ ایک ہفتے کے دوران سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے انتقال پر افسوس کے علاوہ بھارت سے متعلق کوئی بیان موجود نہیں۔
تو بھارتی میڈیا روسی وزارت خارجہ کے کس بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسے نئی دہلی کی سفارتی کامیابی قرار دے رہا ہے؟
ڈی ڈبلیو کی روسی سروس سے وابستہ خاتون صحافی ایکاترینا وینکینا کے مطابق روسی دفتر خارجہ کے پریس ڈیپارٹمنٹ نے نیوز ڈاٹ آر یو سے گفتگو کرتے ہوئے کشمیر کے حوالے سے ایک بیان جاری کیا تھا۔ یہ رپورٹ جمعہ نو اگست کے روز شائع کی گئی تھی۔ اس ویب سائٹ کے مطابق بیان میں کہا گیا، ’’ہم سمجھتے ہیں ریاست جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت میں تبدیلی اور اس کی دو یونین علاقوں میں تقسیم بھارتی آئین سے مطابقت رکھتی ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ فریقین اس فیصلے کے بعد علاقے کی صورت حال کو مزید سنگین نہیں ہونے دیں گے‘‘۔
روسی وزارت خارجہ کے بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ ماسکو پاکستان اور بھارت کے مابین تعلقات کی بحالی کا حامی ہے۔ بیان میں کہا گیا، ’’ہمیں امید ہے کہ دونوں ممالک کے باہمی اختلافات سیاسی اور سفارتی طریقوں سے 1972 کے شملہ معاہدے اور سن 1999 کے لاہور معاہدے کے مطابق دوطرفہ طور پر حل کیے جائیں گے‘‘۔
کشمیر کے مسئلے پر چین کا تعاون حاصل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت دونوں ہی چین کے ساتھ رابطے میں ہیں۔چین کا لداخ کے معاملے پر بھارت کے ساتھ تنازعہ پایا جاتا ہے۔ حالیہ بھارتی فیصلے کے ردِ عمل میں میں لداخ کو جموں و کشمیر سے الگ کر کے بھارت کا ایک یونین علاقہ بنانے کے فیصلے پر چینی وزارت خارجہ نے چھ اگست کے روز ہی اپنا شدید ردِ عمل ظاہر کیا تھا۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ہوا چن ینگ نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا، ’’بھارت اپنے مقامی قوانین میں یکطرفہ تبدیلی کر کے چین کی علاقائی خود مختاری کو مسلسل نقصان پہنچا رہا ہے جو ناقابل قبول ہے۔‘‘ جواب میں بھارتی وزارت خارجہ نے چینی بیان کو بھارت کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیا۔
پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بھی بھارتی اقدامات کے بعد چین کا ہنگامی دورہ کیا اور جمعے کے روز اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔ چینی وزیر خارجہ وانگ یی نے قریشی سے ملاقات کے بعد کہا کہ بیجنگ حکومت کی رائے میں کشمیر سے متعلق کوئی بھی یکطرفہ قدم کشمیر میں حالات کو مزید پیچیدہ بنا دے گا اور ایسے اقدامات سے گریز کیا جانا چاہیے۔
انہوں نے کشمیر کی صورت حال کو سنجیدہ اور باعث تشویش قرار دیتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پاکستان اور بھارت کو یہ مسئلہ پر امن طریقے سے، اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قراردادوں، اور دونوں ممالک کے مابین ماضی میں طے پانے والے معاہدوں کی روشنی میں حل کرنا چاہیے۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے ہفتے کے روز اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے دورہ چین کے حوالے سے بتایا کہ چین نے کشمیر کے حوالے سے پاکستانی موقف کی تائید کی ہے۔ قریشی کے مطابق اسلام آباد مسئلہ کشمیر کو سلامتی کونسل میں لے کر جانے کا ارادہ رکھتا ہے اور اس ضمن میں بیجنگ سے مدد کی درخواست بھی کی گئی ہے۔
پاکستان کے بعد بھارتی وزیر خارجہ سبھرا منیم جے شنکر بھی بیجنگ کے تین روزہ دورے پر ہیں۔ پیر بارہ اگست کے روز انہوں نے اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کی۔ بھارت مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کسی تیسرے ملک کی ثالثی کے امکان کو مسترد کرتا ہے اس لیے بھارتی وزیر خارجہ کے دورہ چین کے حوالے سے بھی یہی کہا گیا ہے کہ وہ چینی حکام کے ساتھ دونوں ممالک کے دو ’طرفہ تعلقات کی مضبوطی‘ کے بارے میں گفتگو کریں گے۔
پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے حوالے سے ایرانی صدر حسن روحانی سے اتوار گیارہ اگست کے روز ٹیلی فون پر بات کی۔ ایرانی صدر کا کہنا تھا کہ مسئلہ کشمیر کا کوئی عسکری حل نہیں ہے اور اسے سفارتی طریقوں ہی سے حل کیا جا سکتا ہے۔ صدر روحانی کا یہ بھی کہنا تھا کہ تہران سمجھتا ہے کہ ‘کشمیر کے متنازعہ علاقے کے شہریوں کو قانونی حقوق اور پر امن زندگی کا حق حاصل ہونا چاہیے۔‘
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے بعد تہران کی جانب سے فوری طور پر کوئی ردِ عمل سامنے نہیں آیا تھا۔ تاہم قریب ایک ہفتے کے بعد دس اگست بروز ہفتہ ایرانی فوج کے سربراہ نے اپنے پاکستانی ہم منصب کے ساتھ کشمیر کے موضوع پر ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
ایرانی فوج کے سربراہ میجر جنرل محمد باقری نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر کے معاملے پر ’جلد بازی میں فیصلہ‘ نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جنرل باقری نے کہا، ’’فریقین سے توقع ہے کہ وہ علاقے کے عوام کی رضامندی کے بغیر کشمیر کی قسمت سے متعلق جلد بازی میں کوئی فیصلہ کرنے سے اجتناب کریں گے‘‘۔
بھارت میں متحدہ عرب امارات کے سفیر ڈاکٹر احمد البنا نے نئی دہلی کے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کو بھارت کا داخلی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی حکومت کے اس انتظامی فیصلے کا مقصد ’علاقائی تفاوت میں کمی لانا اور کارکردگی بہتر بنانا‘ ہے۔
آٹھ اگست کے روز متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ ڈاکٹر انور بن محمد قرقاش نے اپنے ایک بیان میں ’خطے میں امن، سکیورٹی اور استحکام کے لیے مذاکرات کی راہ اختیار کرنے کی ضرورت‘ پر زور دیا۔ انہوں نے اس اعتماد کا اظہار بھی کیا کہ بھارت اور پاکستان کے رہنما موجودہ تنازعے کو ’روابط، تعمیری مذاکرات، کشیدگی اور تصادم سے بچتے ہوئے‘ حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
یورپی یونین کی خارجہ امور کی نگران عہدیدار فیدیریکا موگیرینی نے بھارتی فیصلے کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں پاکستانی اور بھارتی وزارئے خارجہ سے ٹیلی فون پر گفتگو کی۔
یورپی یونین کے خارجہ امور کے دفتر کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق موگیرینی نے شاہ محمود قریشی اور سبرامنیم جے شنکر کے ساتھ گفتگو میں کشمیر اور خطے میں کشیدگی سے بچنے کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے پاکستان اور بھارت کے مابین سفارتی سطح پر مذاکرات کا انعقاد اس وقت کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔
یورپی یونین کشمیر کے مسئلے پر پاکستان اور بھارت کے مابین ’دوطرفہ سیاسی حل‘ کی حمایت کرتی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ مسئلہ کشمیر کی وجہ سے خطے میں طویل عرصے جاری ’عدم استحکام اور غیر یقینی صورت حال کو ختم کرنے کا یہی واحد راستہ‘ ہے۔
سعودی عرب اور اسرائیل کی خارجہ امور کی وزارتوں کی ویب سائٹس اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر کشمیر کی تازہ صورت حال کے حوالے سے کوئی بیان موجود نہیں ہے۔ تاہم ان دونوں ممالک نے سابق بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کے انتقال پر تعزیتی پیغامات شائع کیے ہیں۔
DW