بیرسٹر حمید باشانی
کشمیر میں خوف اور بے چینی کی کیفیت ہے۔ وہاں پراضافی فوجوں کی تعیناتی کے ساتھ ساتھ افواہوں کا سلسلہ جاری ہے۔ کچھ سرکاری خطوط اور سرکلر جو سوشل میڈیا پر گردش کر رہے تھے، جعلی ثابت ہو چکے ہیں. ارباب اختیار نے بھی اس صورت حال کی وضاحت کی ہے۔ ان کا کہناہے کہ فوجوں میں اضافہ اورمجموعی طور پرسیکورٹی میں سختی وادی میں دہشت گردی کے کسی بڑے حملے کی اطلاعات کے پیش نظر کی جارہی ہے۔
اس کے باوجود افواہیں جاری ہیں۔ کوئی حکومت کی وضاحت پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ لگتا ہے کہ کچھ ہونے والا ہے۔ اور یہ ہونے والا یہ ہے کہ سرکار دفعہ پینتیس اے ختم کرنے کا حتمی فیصلہ کر چکی ہے۔ اور یہ ساری تیاریاں اس کے خلاف ہونے والے ممکنہ احتجاج ہر قابو پانے کے لیے کی جا رہی ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی لیڈرشپ اور حکومتی حلقوں میں ایک عرصے سے دفعہ پینتیس اے کا خاتمہ زیرغور ہے۔ اس حوالے سے مختلف اعلانات کیے جاتے رہے ہیں۔ یہ دفعہ بھارتی آئین میں کیسے آیا ؟ سرکار اسے کیوں ختم کرنا چاہتی ہے ؟ اور کشمیر کے اندر اس کے خاتمے کے خلاف سخت رد عمل کیوں ہو گا ؟ ان سولات کے جوابات کے لیے اس کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
بر صغیر میں نقل مکانی کا رحجان بہت پرانا ہے۔ لوگ صدیوں سےمختلف وجوہات کی بنا پر ایک جگہ سے ہجرت کر کے دوسری جگہ آباد ہوتے رہے۔ ان وجوہات میں روزگار، رہاش، موسم، جانی مالی تحفظ اور دوسری کئی وجوہات شامل رہی ہیں۔ کشمیر کے اندر سے بر صغیر کے مختلف شہروں کی طرف ہجرت کے بارے میں تو ہم جانتے ہی ہیں۔ تقریبا ہرہڑے شہر میں ایک جھوٹا بڑا “محلہ کشمیریاں” یا” کشمیری” محلہ ہوتا تھا۔ لیکن یہ صرف یک طرفہ ہجرت کبھی نہیں تھی۔ برصغیر کے مختلف حصوں سے بھی لوگ ہجرت کر کہ کشمیر میں آباد ہوتے رہے۔
بیسویں صدی کی دوسری دھائی میں برصغیر کی مختلف ریاستوں اور علاقوں سے لوگوں کا کشمیر کی طرف رخ کرنے کے رحجان میں اضافہ ہوا۔ اس کی وجہ تجارت اور سیاحت تھی۔ کشمیر کے حسین دلفریب مناظر اور خوشگوار موسم کی وجہ سے کچھ لوگ یہاں مستقل آباد ہونے لگے۔ کچھ جائدادیں خریدنے لگے۔ کچھ لوگوں نے سرکاری ملازمتیں بھی لے لیں۔ یہ دیکھ کر مقامی آبادی میں یہ خوف پیدا ہوا کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کشمیر مقامی لوگ اقلیت میں بدل جائیں گے۔ اس خوف کا شکار صرف وادی کے غریب مسلمان ہی نہیں، جموں کے مالدار اور با اثر ڈوگرے بھی تھے۔ وادی کے پڑھے لکھے پنڈت بھی شامل تھے ۔
چنانچہ مہاراجہ ہری سنگھ سے یہ مطالبہ کیا جانے لگا کہ اس سلسلے میں قانون سازی کی جائے۔ مہاراجہ خود بھی اپنی ریاست کی انفرادیت اور خود مختاری کو لیکر کافی حساس تھا ، چانچہ سن 1927 میں اس سلسلے میں با قاعدہ قانون سازی کی گئی۔ اس سلسلہ عمل میں ” سٹیٹ سبجیکٹ ” کا قانون معرض وجود میں آیا۔ اس قانون میں تین چیزیں بہت اہم تھِیں۔ پہلی یہ کہ کوئی شخص جو ریاست جموں کشمیر کا مستقل باشندہ نہیں ہے، وہ اس ریاست میں جائداد نہیں خرید سکتا۔
دوسری یہ کہ کوئی غیر ریاستی شہری ریاست کے اندر سرکاری نوکری نہیں کر سکتا۔ اور تیسری یہ کہ کوئی غیرمستقل باشندہ یہاں آزادانہ سرمایہ کاری نہیں کر سکتا۔ بیس اپریل 1927 کو مہاراجہ ہر ی سنگھ کا بنایا ہوا یہ قانون نافذہوا۔ اس قانون کے تحت کوئی بھی شخص جو دس سال تک ریاست میں مستقل رہائش پذیررہا ہو اسےریاست کا مستقل باشندہ تصور کیا جائے گا۔
یہ قانون ریاست میں “سٹیٹس کو” کی ضمانت تھا۔ اس سے جموں کے مالدار ڈوگروں کی جاگیروں اور ان سے جڑے کاروبار کو تحفظ ملتا تھا۔ پنڈت جو زیادہ تر سرکاری ملازمتوں میں تھے ان کی ملازمتیں اور مستقل محفوظ ہو جاتا تھا۔ اور غریب کشمیری کسان جس کے پاس اگر کوئی تھوڑی بہت زمین تھی تو اس کو بھی تحفظ ملتا تھا۔ مہاراجہ کا یہ خدشہ بھی دور ہو جاتا تھا کہ مالدار انگریز یا دوسرے لوگ کشمیر میں آکر بس جائِں گے۔ ہمارا موسم چرائیں گے۔ اور ہمارے لیے دیگر مسائل پیدا کریں گے۔ چنانچہ اس قانون کی خوبصورتی یہ تھی کہ یہ عوام و خواص سب کو اپنے فائدے میں لگتا تھا۔ چانچہ یہ قانون ریاست کی تقسیم کے بعد بھی ریاست کے تینوں حصوں میں برقرار رہا۔
سال1954 میں بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر کے درمیان ریاستی باشندوں کی شہریت کا سوال کھڑا ہوا۔ حکومت ہند نے ریاستی باشندوں کو بھارت کی شہریت کی پیشکش کی۔ اور ریاستی لیڈر شپ کا یہ مطالبہ تسلیم کر لیا کہ ریاست مہاراجہ کے دور کا “سٹیٹ سبجیکٹ قانون” برقرار رکھ سکتی ہے۔ اور اس کے اندر ترمیم یا اضافے کا اختیار بھی ریاستی اسمبلی کے پاس ہے۔ اس بات کو صدارتی حکم نامے کے تحت آئین میں شامل کر لیا گیا۔ یہ قانون پینتیس اے کے نام سے مشہور ہوا۔
اب یہ قانون دو وجوہات کی بنا پر زیر بحث ہے۔ ایک یہ کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی پہلی انتخابی مہم کے دوران بار بار یہ بات دہرائی کہ وہ کشمیر کے ساتھ جڑے تمام مسائل کی جڑ دفعہ370 اور35 اے کو سمجھتے ہیں۔ اور اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ اگر وہ بر سر اقتدار آگئے تو وہ اس قانون کو ختم کر دیں گے۔ مگر بر سر اقتدار آنے کے باوجود وہ ریاست میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ چنانچہ انہوں نے محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی سے مل کر حکومت بنائی۔
محبوبہ سمیت کشمیر کے تمام لیڈر خواہ وہ بھارت نواز ہوں، پاکستان نواز ہوں یا خود ٘مختاری کے حامی ہوں سب اس بات پر متفق ہیں کہ دفعہ پینتیس اے نہیں ختم ہونا چاہیے۔ ماضی کی طرح آج بھی ہر ایک کو اس قانون میں کوئی نہ کوئی دانش نظر آتی ہے۔ چنانچہ وہ اس کے تحفظ کے لیے کسی بھی حد تک جانے کا بار بار اعلان کر چکے ہیں۔ چنانچہ مودی سرکار اپنے پہلے دور حکومت میں اپنے انتخابی منشور کے اس اہم ایجنڈے سے صرف نظر کرنے پر مجبور رہی۔
دوسرے دور اقتدار کی انتخابی مہم میں اس باب میں ان کا لہجہ پہلے سے کئی زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے اس بار اس قانون کے خاتمے کا عزم اور زیادہ شدو مد سے دہرایا ۔ چنانچہ عام طور پر یہ بات باور کی جا رہی ہے کہ مودی سرکار اس مد میں عملی قدم اٹھانے کے لیے تیار ہے۔
دفعہ 35اے پر اتنی سرگرمی اور بحث کی دوسری وجہ یہ کہ یہ قانون سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، جس کی اگست کے آخر میں سماعت ہے۔ یہ سماعت :وی دی سیٹیزن” نامی تنظیم کی ایما پر ہو رہی ہے، جن کا خیال ہے کہ یہ قانون امتیازی اور غیر آئینی ہے اور بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہے۔ ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ آئین میں اس دفعہ کی شمولیت صدارتی حکم نامے کے بجائے آئینی ترمیم کے ذریعے ہونی چاہیے تھی۔
جہاں تک عدالت کی بات ہے تو عدالتی طریقے سے یہ معاملہ حل ہوتے نظر نہیں آتا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سپریم کورٹ میں اس معاملے پر سماعت ہو گی۔ اس سے پہلے سپریم کورٹ تین بار اس معاملے پر غور کر چکی ہے۔ اور اس دلیل کو مسترد کر چکی ہے۔ لکھن پال بنام صدر کیس میں 1961 میں سپریم کورٹ کاایک پانچ رکنی بنچ یہ دلیل مسترد کر چکا ہے۔ دوسری بارسمپت پرکاش بنام ریاست جموں کشمیر میں ایک اور پانچ رکنی بنچ نے ایسا ہی کیا تھا۔ اور سال 2016 میں سٹیٹ بنک آف انڈیا بنام سنتوش گپتا میں دو رکنی بنچ نے پہلے دو فیصلوں کی طرح ایک بار پھر قرا ر دیا کہ صدارتی حکم نامے کے تحت ایسا کیا جانا درست تھا۔
چنانچہ اس دفعہ کی قانونی حیثیت ثابت شدہ ہے۔ البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ عدالت پارلیمنٹ کو بحث کے لیے کہہ سکتی ہے، جس کی وجہ سے اس کا خاتمہ مزید مشکل ہو سکتا ہے۔ ان حالات میں ایک صدارتی حکم نامے کے تحت قانون میں تبدیلی مودی سرکار کے لیے ایک آسان راستہ ہے، جس کا کشمیر کے لوگوں کو خدشہ ہے۔
♦