طارق احمدمرزا
پہلے سے واضح کردوں کہ یہ تحریر نہ کسی کی مخالفت میںہے اور نہ ہی کسی کی وکالت میں۔محض حقائق کوپیش کرنا مقصود ہے۔کچھ ایسے تلخ حقائق جنہیں لاعلمی،کمزور یادداشت یا تعصب کی آنکھ دیکھ نہیں پاتی۔
جیسا کہ اب دنیا کا بچہ بچہ جان چکا ہے کشمیریوںپر بھارتی حکومت نے ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ ،جسے بڑی عجلت میں وہاں کی مقننہ نے بھی منظورکرلیا،ایک ایسی قیامت برپا کردی ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
بھارتی وزیراعظم نریندرمودیؔ کا دعویٰ ہے کہ اس اقدام سے کشمیریوں کا بھلا ہوگا۔راحت اوروکاس ملے گی ۔انہیںوہی حقوق مل جائیں گے جوملک کے باقی شہریوں کوشروع دن سے ملے ہوئے تھے اور وہ ان سے محروم چلے آرہے تھے۔اب کشمیری سکھ کا سانس لیں گے،باعزت زندگی گزاریں گے ۔وادی میں خوشحالی اور امن کا ایک نیا دورشروع ہو جائے گا وغیرہ۔
توقع تھی کہ نریندر مودیؔ اس اعلان کے بعدملکی اور عالمی میڈیا سمیت کشمیر کے مختلف شہروں کی گلیوں کا پیدل دورہ کرتے،کشمیریوں کو خوشی سے جشن مناتے، استقبالیہ بھنگڑے ڈالتا دیکھتے،کشمیری بچے لاڈ سے ان کی ٹانگوں سے لپٹ لپٹ جاتے،بزرگ کشمیری عورتیں ان کے سر پہ ہاتھ رکھ رکھ کر ان کی بلائیں لیتیں اور کشمیری مرد چارپائی پہ بٹھا کر ان کی مٹھی چاپی کرتے۔شوخ وچنچل کشمیری لڑکیا ںان کی خدمت میں کشمیری چائے اورگھر کی بنی نان خطائیاں پیش کرتیں۔
لیکن یہ کیا کہ کشمیریوں کی مبینہ راحت اوروکاس کے اس ’’نادر‘‘ اورتاریخی‘‘ منصوبہ کے اعلان سے پہلے کشمیر بھر میں ناکہ بندی کردی گئی،کرفیو لگا دیاگیا،بازار دکانیں سب بندکردیئے گئے،مسجدوں میںنماز پڑھنے سے بھی روک دیا گیا۔سکول کالج بند ہو گئے۔شادیاں منگنیاں،نکاح رک گئے۔انٹرنیٹ،ٹی وی چینل ،ٹیلیفون بند کر دیئے گئے حتیٰ کہ گلی محلوں میں بچوں کی کھیل کود بھی بند ہو گئی۔
کیا راحت اور وکاس کی خوش خبریاں یو ں سنائی جاتی ہیں؟۔کیا شہری حقوق شہریوں کاجینا حرام کرکے بحال کیئے جاتے ہیں؟۔
یہی وجہ ہے کہ پاکستانی وزیراعظم جناب عمران خان اور انصافی حکومت کے دیگروزرا بیقرار ہوکربجا طورپرپکار اٹھے کہ کشمیریوں کو ان کے گھروں میں نظربندکرنا،ان پر اشیاء خوردونوش خریدنے کی پابندی، مسجدوں میں نماز پڑھنے کی پابندی،کھلینے کودنے پرپابندی نازی ازم ہے۔یہ کام توہٹلرکرتا تھا۔یہ توکشمیریوں کی نسل کشی ہے۔مودیؔ اس دور کا ہٹلر ہے وغیرہ۔
بالکل درست ہے۔لیکن یہ سب کچھ پڑھ اورسن کریادآیا کہ اگر یہ سارے کام کرنے والا ہٹلر کہلاتا ہے تویہ سارے کام تو خود ہم نے بھی کیئے ہیں اوربدستورکررہے ہیں تو پھرہم بھی ہٹلر ہی ہوئے۔
قارئین میں سے بہت سے اس حقیقت سے پہلے ہی بخوبی واقف ہوں گے،لیکن بہت سے ایسے بھی ہوںگے جن کے لئے یہ خوفناک حقیقت ایک بار،بلکہ باربار دہرانے کی ضرورت ہے۔لیکن یہاں ایک بارپھرواضح کرتاچلوں کہ یہ تحریر نہ توکسی کی مخالفت میںہے اورنہ ہی کسی کی وکالت میں،محض حقائق کو پیش کرنا مقصود ہے۔
یہ کوئی ازمنہ اولیٰ یاوسطیٰ کی نہیں کل ہی کی بات ہے ہمارا ایک حاضرسروس چیف آ ف آرمی سٹاف اورکمانڈرانچیف آف پاکستان آرمڈفورسزسربراہ مملکت کی حیثیت میں فخریہ طورپراعلان کر رہا تھاکہ پاکستان کی ایک غیرمسلم قرار دی گئی اقلیت کینسرکی حیثیت رکھتی ہے اور یہ کہ اس نے اس کینسر کو جڑ سے اکھاڑ پھینکاہے۔اس پر اس کے اس وقت کے کیا فوجی اور کیا غیرفوجی،سبھی رفقا بھی اسے داددیتے رہے اوران کے سیاسی جانشین بھی،جنہوں نے اس کی قبرپر کھڑے ہوکر اس کے مشن کو آگے بڑھانے کا عہد کیا تھا، اب تک داددیتے چلے آرہے ہیں۔
کیا کسی اقلیت کے عقیدہ ،مسلک یانظریہ کو ریاستی سربراہ کی حیثیت سے کینسرقراردینا اور اس کے مشن کو آگے چلانانازی ازمنہیں۔ہٹلر کی وجہ بدنامی اورکیا ہے؟۔ملک کی ایک مذہبی اقلیت کوکینسرقرار دینا۔
اسی مخصوص اقلیت کے خلاف ملک کی درسی کتابوں میں زہرشامل کیاگیا۔دستاویزات کے حصول ،حتیٰ کہ سکول کالجوں میں داخلہ کے بھی ایسے حلف نامے تیار کئے گئے جس میں اس اقلیتی جماعت کے بانی کو گالی دینالازمی قراردیاگیا۔ایسا کام تو نہ مودی نے کیا ہے اور نہ ہٹلرنے کیا تھاجو ہم نے کردکھایاہے۔آج اگر مودی بھارتی ہندوؤں کے لئے یہ لازمی قرار دے دے کہ انہیں اپنے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کے حصول کی خاطرکسی بھارتی مذہبی اقلیت کے روحانی پیشوا کو گالی دینا لازم ہوگا تو ہمارا کیاردعمل ہوگا؟۔لیکن یہ ہم ہی ہیں جنہوں نے مونچھ مروڑ کر یہ بدبودار نوالہ بھرا اور پوری پاکستانی قوم ڈکارلئے بغیر اسے ہضم بھی کرگئی۔
واضح رہے کہ یہ تحریر نہ تو کسی کی مخالفت میں ہے اورنہ کسی کی وکالت میں۔محض اور محض تاریخی اور زمینی حقائق پیش کئے جارہے ہیں۔
اس پاکستانی مذہبی اقلیت کی مرکزی انجمن نے پرائیویٹ طورپرزمین خرید کر ایک چھوٹا ساشہر آباد کیا۔پاکستانی ہٹلروں نے اس شہر کا نام جواس اقلیت نے اپنی پسند اور اتفاق رائے سے رکھا تھا اسے زبردستی تبدیل کردیا۔یہ نام نہ تو فحش تھا،نہ ذومعنی،نہ توہین آمیز،یہ نام چونکہ عربی زبان میں تھا اور قرآن مجیدمیں آیا تھا اس لئے پاکستانی ہٹلروں کوپسندنہ تھا۔ابو جہل اور اس کے رفقا کو بھی قرآن کے ایک ایک لفظ سے نفرت تھی۔پاکستانی ہٹلروں کو بھی اس قرآنی لفظ سے چڑ تھی،انہوں نے اس شہر کے بس سٹاپ پر لگے بورڈ پر لکھے اس قرآنی لفظ پرانتظامیہ کی منظوری سے سیاہی پھروا کر سکون حاصل کیا۔
وزیراعظم عمران خان نے بڑے دکھ اور درد کے ساتھ بتایا ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈے کشمیر میں بھجوا دئے گئے ہیں اوروہ وہاں دندناتے پھر رہے ہیں۔بالکل درست،اور اسی طرح یہ بھی بالکل درست ہے کہ پاکستان میں سرکاری سرپرستی میں مذہبی غنڈے اس اقلیتی آبادی والے شہر میں داخل ہوکر گزشتہ کتنی ہی دہائیوں سے اس اقلیتی آبادی کے گلی کوچوں میںجلوس نکالتے،دندناتے ہوئے فحش نعرے لگاتے،ساری ساری رات انتہائی بلند آواز سے ریکارڈڈمغلظات فل والیوم میں لاؤڈ سپیکروں سے سنواتے ہیں۔کشمیر میں آر ایس ایس کی غنڈہ گردی کی طرح پاکستان میں اس مذہبی غنڈہ گردی کو بھی سرکاری سرپرستی حاصل ہے جس نے خوف وہراس کی فضاقائم کرکے اس پاکستانی مذہبی اقلیت کی نیندیں تو کیا،جینا حرام کررکھاہے۔
اس پاکستانی اقلیت کی زندگی کا ایک ایک لمحہ بلکہ نینیوسیکنڈ تک پاکستان کے ہٹلروں نے ایک عذاب میں بدل ڈالنے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔آج ہم پاکستانی فریادکررہے ہیںکہ ہٹلرثانی مودی نے کشمیر کو نازی طرز کے کنسنٹڑیشن کیمپ میں بدل دیا ہے،بالکل درست ہے لیکن کیا حقائق یہ ثابت نہیں کرتے کہ ہٹلر ثانی ہم ہیں ،مودی تو ہٹلرثالث ہے۔
مودیؔ نے توصرف وادی کشمیرکو ایک کنسنٹریشن کیمپ میں بدل ڈالا اور ہم نے پورے ملک کو۔ہمارے ہاں کبھی توزندہ جلائی گئی مذہبی اقلیتوں کی جلی ہوئی لاشیں ملتی ہیں تو کبھی قومی اور لسانی اقلیتوں کی مسخ شدہ
لاشیں۔یہ موضوع بجائے خود ایک الگ مضمون کا متقاضی ہے،اس پربہت کچھ لکھا بھی جا چکاہے۔لہٰذہ بات صرف ہندوستان ا ور پاکستان میں مذہبی اقلیت کے ساتھ روارکھے جانے والے سلوک تک محدود رکھوں گا۔
ایک بار پھرواضح رہے کہ یہ تحریر نہ تو کسی کی مخالفت میں ہے اورنہ کسی کی وکالت میں۔محض اور محض تاریخی اور زمینی حقائق پیش کئے جارہے ہیں۔ نہ ہی کسی کے مخصوص مذہبی عقائد یا نظریات سے کوئی بحث ہے بلکہ صرف مذہبی اقلیتوں کے بنیادی انسانی اورشہری حقوق کے حوالے سے بات کی جا رہی ہے۔ جس طرح مسلمان کشمیریوں کے حقوق کی بات کی جارہی ہے۔
مودی ؔنے کشمیر میں کرفیو نافذ کیا اورمحض چند گھنٹوں کی چھوٹ دی تاکہ کشمیری مسلمان عیدالاضحیٰ منا سکیں،جوقربانی کرسکتے ہیں وہ قربانی کر سکیں۔لیکن خوف وہراس کی فضا میں بچے اور فیملیاں عیدکیسے منا سکتے ہیں۔نازی ازم کی حد مکادی مودی ؔنے۔
لیکن ہم نے تو مودی کے نازی ازم بلکہ ہٹلر کے نازی ازم کا بھی ریکارڈتوڑاہوا ہے۔ہمارانام نہاد لبرل یاترقی پسند اور انسان دوست صحافی اوردانشوربھی کیااورہمارا سرکاری اور غیرسرکاری میڈیا بشمو ل سوشل میڈیابھی کیا،اس شرمناک حقیقت سے نہ توواقف ہے نہ واقف ہونا چاہتاہے اور نہ ہی واقف ہوجانے پر اس پر احتجاج کرنا چاہتا ہے کہ دنیا میں پاکستان وہ واحد ملک ہے جس کی پولیس نے ایک پورے شہرکی تمام آبادی(بشمول نومولودبچگان اور بسترنشین ،صاحب فراش،نیم بیہوش یا قریب المرگ باشندگان سمیت) کے خلاف محض اس لئے ایف آ ٓئی آر درج کی ہوئی ہے(اور دم تحریرواپس نہیں لی) کہ وہ ایک دن مل جل کرآپس میں خوشیاں مناناچاہتے تھے۔ایک ایسے دن جو ان کے مطابق ان کی اجتماعی خوشی کا دن تھا۔جی ہاں پورے شہر کی پوری آبادی پر اکٹھا پرچہ توخود ہٹلر نے بھی نہیں کٹوایا تھا۔ایساتو فرعون نے بھی نہیں کیاتھا۔نمرود کو بھی ایسی کبھی نہیں سوجھی تھی۔ مودی توکل کا بچہ ہے،ہم تو اس کے باپ کے بھی باپ ہیں۔
اسی طرح اس پوری اقلیتی آبادی پر کتنے ہی سالوںسے ان کی ’’عیدین‘‘ پر پابندی عائد ہوچکی ہے۔انہیںقانوناًزبردستی غیرمسلم قرار دے دیاگیا ،ٹھیک ہے اس قانون کومان لیا لیکن ان کوتوسنت ِابراہیمی پر عمل کرنیسے بھی ہم نے روک دیا ہے۔ہم دنیا بھر کے مذاہب کے ٹھیکیدار جوہوئے۔مودی نے تو پھربھی سنت ابراہیمی پرعمل کرنے کیلئے اپنی اقلیت کو چند گھنٹوں کی چھوٹ دے دی تھی ہم نے توکئی دہائیوں سے نہیں دی۔
اسی پربس نہیںاس شہرکی پوری آبادی کے تمام بچوں پریہ پابندی بھی گزشتہ کئی دھائیوںسے عائد ہے کہ وہ سال میں ایک بار بھی اکٹھے ہوکر کھیلوں کے مقابلوں میںشرکت نہیں کرسکتے۔کھیلوں کے سالانہ ٹورنامنٹ بھی منعقد نہیں کرسکتے۔عمران خان تم جودن رات ریاست مدینہ ریاست مدینہ اور کشمیر کشمیر کشمیر کی رٹ لگارہے ہو پہلے اپنے زیرتسلط اس پاکستانی مذہبی اقلیت کے ننھے منے بچوں کو ان کے سالانہ اجتماعات میں خوشیاں منانے اورسال ایک بارکھیل کودکرنے کی اجازت تو دو۔
اسی طرح کشمیروں کی نسل کشی کی بات کی جا رہی ہے۔ہم نے تو مذکورہ پاکستانی اقلیت کے مسلمہ شعائراورعقائد کے مطابق ان کے نکاح پڑھنے پڑھانے پربھی قانوناً پابندی لگائی ہوئی ہے تو’’ٹارگٹڈ جینو سائڈ‘‘ ہم بھی تو کر رہے ہیں ۔ایک مکروہ اور قابل مذمت بلکہ قابل لعنت کام ہمارے لئے جائز تودوسروںکے لئے ناجائزکیسے قرار دیاجاسکتا ہے۔
قارئین کرام ،چشم فلک نے اس ملک خدادا دمیں اس پاکستانی اقلیت کی قبریں مسمار ہوتی بھی دیکھیں بلکہ ان کے دفن شدہ مردے تک قبر سے نکال کرسڑک پہ پھینکے گئے دیکھے۔ان کے باپوں کو ان کے بچوں کی آنکھوں کے سامنے اور ان کے بچوں کو ان کے باپوں کی آنکھوں کے سامنے درندگی سے ذبح کیا گیا۔ان کی عورتوں کو ان کے گھروں کے اندر زندہ جلایا گیا۔ان کوہجومی تشدد کے ذریعہ قتل کرکے ان کی نعشوں کاایسا مثلہ کیا گیا کہ وہ شناخت کے قابل بھی نہ رہیں۔ہٹلر کے پیروکاروں نے اس پاکستانی مذہبی اقلیت کے مویشیوں تک کو زندہ جلادینے سے دریغ نہیں کیا۔اس معاملہ میں مودی ہماری گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
اس پاکستانی مذہبی اقلیت کا معاملہ تو اقوام متحدہ یا سلامتی کونسل میں بھی نہیں لے جایا جاسکتا۔آج دنیا میں ان کی سلامتی کی ضمانت دینے والا کوئی فرد واحد بھی پیدا نہیں ہو سکا۔وہ اپنے خدا کے علاوہ کسی پربھروسہ نہیں کر سکتے ،نہ ہی کرتے ہیں۔
اگر دنیا کے کسی ملک سے،کسی گوشے سے، اس اقلیت کے بنیادی انسانی حقوق کی بحالی کی بات کی جاتی ہے تو ہمارے حکمران اسے’’ پاکستان کااندرونی معاملہ‘‘ قراردیتے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگاتے۔یہی حال دیگرمذہبی اقلیتوں کے حوالے سے بھی ہے۔لیکن ان کا معاملہ اس لحاظ سے مختلف ہے کہ دیگر مذہبی اقلیتوں کوان کے اپنے مذہبی عقائد اورشعائرکے استعمال سے قانوناً نہیں روکا گیا،صرف اورصرف اسی اقلیت کوروکا گیاہے ۔اس کااعتراف سابق صوبائی وزیر قانون جناب راناثناء اللہ نے ایک ٹی وی انٹرویومیںبھی کیا تھا۔
یہ سب کچھ ہم کررہے ہیں اس اقلیت کے ساتھ جو اس ملک کے اتنے ہی شہری ہیں جتنا کوئی اور۔ایک ایسی اقلیت کے ساتھ جس نے اس ملک کو پہلاوزیرخارجہ دیا۔ وہی اقلیت جس نے اس ملک کو پہلانوبل انعام یافتہ پاکستانی دیا۔جس نے ایک وزیرخزانہ دیا،قائم مقام صدردیا۔پاک فضائیہ کا ایک سربراہ دیا،سنہ 65 کی جنگ میں شجاعتوں کے بے مثال کارنامے دکھانے والے متعدد فوجی افسر اورجوان دیئے ، اس ملک کے دفاع میں اپنی جان کی قربانی دینے والا پہلا (اور اب تک واحد) پاکستانی جرنیل دیا۔
پھر یہ بھی نہ بھولیئے کہ یہ آج کے پاکستان کی اسی دھتکاری ہوئی کمیونٹی کا ایک سربراہ ہی تھا جس نے اس وقت کشمیری مسلمانوں کی داد رسی کی خاطرتاریخ میں پہلی بار آل انڈیا کشمیرکمیٹی کی داغ بیل ڈالی تھی جبب باقی مسلمان لیڈروں کو اس طرف کا ہوش ہی نہیں تھا۔یہ زمانہ سنہ تیس کی دہائی کاہے جب راجہ گلاب سنگھ کشمیری مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھا رہا تھا۔اس کمیونٹی کے سربراہ نے علامہ اقبال سمیت ہندوستان کے سرکردہ مسلمان دانشوروں اوررہنماؤں کواس بات پر آمادہ کیا کہ وہ کشمیر کمیٹی میںشامل ہوکر کشمیری مسلمانوں کی دامے درمے سخنے اخلاقی اور قومی مددکریں،انہیں یتیمی کا احساس نہ ہونے دیں۔آل انڈیا کشمیرکمیٹی کاپہلا بانی صدر بھی آپ ہی منتخب ہوئے۔
اور پھر یہی اقلیتی کمیونٹی تھی جس نے کشمیر فرنٹ پر پاکستانی فوجوں کوکمک اوربیک اپ فراہم کرنے کی خاطراپنے جوانوں پرمشتمل ’’فرقان فورس‘‘تیارکرکے دی،ایک ایسے وقت میں جب اس کمیونٹی کے اشد مخالفین جہاد کشمیر کو حرام اورناجائز قراردینے کے فتاویٰ جاری کرنے میں مصروف تھے۔
لیکن ہمارے وزراء ،سیاستدان،ممبران پارلیمنٹ،حکمران،علماء،اساتذہ(اس لئے کہ وہ یہی نصاب پڑھاتے ہیں)،حتیٰ کہ بعض صحافی اور ٹی وی اینکر تک روزانہ کی بنیاد پر انہیں یہودی ایجنٹ بلکہ یہودیوں سے بدتر قرار دیتے نہیں تھکتے۔
پاکستان بھرکے بازاروں میں چھوٹی چھوٹی دکانوں تک پر ان کے لئے ’’داخلہ بندہے‘‘ کے پوسٹراور سٹکر لگے نظرآتے ہیں۔اس طرح کی ہردکان میں ایک عدد پاکستانی ہٹلر بیٹھا نظر آئے گا۔تو بتایئے ہندوستان نے آج تک کتنے ہٹلر پیدا کئے ہیںاور ہم نے کتنے۔ہم تو ہٹلرساز ہیں۔بلکہ تھوک کی تعداد میں انہیں ایکسپورٹ بھی کرتے ہیں۔دنیا کے ہرملک میں آپ کو یہ پاکستانی ہٹلرمذہبی منافرت اورتشددکا پرچارکرتے نظر آئیں گے۔
جن قارئین کی یادداشت کمزور ہے ان کی خدمت میں آخر پرایک بارپھرعرض کرتا چلوں کہ یہ تحریر نہ تو کسی کی مخالفت میں ہے اورنہ کسی کی وکالت میں۔محض اور محض تاریخی اور زمینی حقائق پیش کیے ہیں۔ کوئی رائے،کوئی فیصلہ یا فتویٰ دینے کی ضرور ت نہیں ۔پہلے ہی بہت سے فیصلے ہو چکے ہیں!۔اگر کسی فیصلہ کی گنجائش باقی ہے بھی تووہ تاریخ کافیصلہ ہی ہوگا،میرا یا آپ کانہیں۔
٭
One Comment