ندیم شاہ
ہمارے دوستوں میں سچ سننے کا حوصلہ ہونا چاہیے کیونکہ بعض حضرات کی جانب سے مسلسل گالیاں پوسٹ کی جارہی ہیں جو کہ مناسب نہیں۔ کشمیر کے مسئلہ پر پی ٹی آئی کی پالیسی پر انہیں کافی تنقید کا سامنا ہے اس لیے میں نے مناسب سمجھا صورتحال کی وضاحت کی جائے۔
بھارت کی جانب سے تین ماہ قبل اعلان کیا گیا کہ وہ کشمیر کا سپیشل اسٹیٹس کا درجہ ختم کرنے جارہا ہے۔ بھارتی وزیر خارجہ نے یہ اعلان بنکاک میں امریکی سیکریٹری اف اسٹیٹ سے اپنی ہونیوالی ملاقات میں کیا۔ جو کہ عالمی اخبارات میں رپورٹ بھی ہوا مگر تبصرہ کرنیوالے دوست نہ تو اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی مطالعہ کرتے ہیں۔
کشمیر کے حوالے حکومتی پالیسی غیر سنجیدگی کا مظہر رہی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اس حوالے سے ٹھوس پالیسی بنانے کی ضرورت تھی مگر ایسا نہ ہوا۔ اب محض شور مچانے سے بھارتی ترامیم واپس نہیں ہوسکتیں۔
اب آئیے عمران خان ٹرمپ ملاقات کی طرف جس میں ٹرمپ نے کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی تھی اور عمران خان پاکستان واپسی پر اس قدر خوش تھے کہ انہوں نے کہا یوں لگتا ہے جیسے ورلڈ کپ جیت کر آئے ہوں ۔اس ملاقات کے نتیجہ میں بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35-اے میں ترامیم کرتے ہوئے کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ بنادیا اور ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہوگئی۔
جبکہ بھارت بنکاک ملاقات میں واضح عندیہ دے چکا تھا کہ اگست کے پہلے ہفتہ میں وہ آیینی ترامیم لائے گا۔ سوال یہ ہے کہ ہم نے ان تین ماہ میں کیا تدابیر اختیار کیں۔ کدھر گئی ہماری خارجہ امور کی مہارت؟؟؟ کوئی دوست انکی وضاحت کرے گا۔؟؟ ایسے حالات میں ہمارے لیے کیا رہ جاتا ہے؟ کیا ہم نے کشمیریوں کے ساتھ دغا نہیں کیا؟ اگر یہی طے کرنا تھا تو 72 سال ہزاروں لوگوں کی قربانی کیوں دی گئی؟
امریکی ثالثی کے مقاصد کیا ہیں:۔
۔1۔ کشمیر پر بھارتی بالادستی کو مضبوط کرنا اور اسے بھارت آیینی قانونی حصہ بنانا جس پر عمل ہوچکا ہے
۔2۔چین کے خلاف شکنجہ کسنا اور بھارتی آئینی حدود والے کشمیر میں اپنے اڈے بنانا تاکہ چین کے خلاف اپنی کاروائیاں کرنا۔ اس منصوبے پر عملدرامد ہونا باقی۔
ہماری حکومت نے چین جیسے دوست ملک کے ساتھ بھی کوئی مناسب سلوک نہیں کیا۔
چین نے سی–پیک منصوبے پر پاکستان سے کمٹمنٹ لی تھی کہ باہمی معاہدے کو لیک نہیں کیا جائے گا۔ مگر ہماری حکومت نے معاہدہ کی کاپی آئی۔ ایم۔ ایف کے حوالے کردی جہاں سے وہ کاپی سی آئی اے کو مل گئی۔ آئی ایم ایف پاکستان کی ریذیڈنٹ ڈائریکڑ ٹریسیا نے ایک ہفتہ قبل اسلام آباد نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوے اعلان کیا کہ پاکستان نے چین کے ساتھ ہونیوالے خفیہ معاہدے کی کاپی، آئی ایم ایف کو فراہم کی تھی۔
ادھر چینی خفیہ ایجنسیوں نے بھی تصدیق کی کہ پاکستان نے خفیہ معاہدے کی کاپی آئی ایم ایف کو فراہم کی تھی۔ چین جیسے دوست ملک کو سخت شاک لگا یہی وجہ ہے کہ بھارتی ترامیم کے متعلق خاموش تماشائی بن گیا۔ جبکہ اس سے قبل حافظ سعید اور مولانا مسعود اظہر (غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق مرحوم) کے متعلق اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ویٹو کیا تھا لیکن کشمیر کے معاملے میں صرف اتنا کہا کہ پاکستان۔ بھارت تحمل کا مظاہرہ کریں۔
ان حالات میں دوست خود سمجھ سکتے ہیں کہ یہ خطہ مستقبل قریب میں وار زون بننے جارہا ہے۔اور یہ سب کچھ پی۔ٹی آئی کے کھاتے پڑنے والا ہے۔ ہماری حکومت کی اس بارے کیا حکمت عملی ہے۔؟ کوئی دوست اس پر بات کرے گا۔ یا ٹرمپ سے ملنے کے بعد ورلڈ کپ جیت کر انے
کی نعرہ بازیوں سے مسئلے حل ہوجائیں گے؟؟؟؟؟