آٹھ اگست بلوچستان کی تاریخ میں ایک سیاہ ترین دن ہے۔تین سال پہلے اسی دن بلوچستان کی پوری وکلاء برادری کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا منصوبہ کامیاب ہوگیا تھا،ریاستِ پاکستان نے اس زمین ہلانے والے سانحے کو “دہشت گردی کے ایک واقعے” کا نام دے کر معمول کا حصہ بنا دیا لیکن ہمیں اس سانحے نے جو غیرمعمولی نقصان پہنچایا اس کا پورا احساس شاید ابھی تک اس لئے بھی نہیں ہوا ہوگا کہ پچھلے 40 سالوں سے ہماری سرزمین پہ مسلط جنگ کا مجموعی اثر کافی شدید رہا ہے اور کسی انفرادی واقعے کو اپنی نوعیت میں دیکھنے کا منظم عمل شروع نہیں ہوا ہے۔
میرے نزدیک سانحہ بابڑہ کے بعد سانحہ 8 اگست پاکستان میں پشتونوں کی تاریخ کا سب سے بڑا واقعہ ہے۔ 12اگست 1948 کو پشتونوں کے ایک منظم سیاسی طبقے کو نشانہ بنایا گیا تھا اور 8 اگست2016 کو پشتونوں کے ایک منظم پروفیشنل طبقے کو نشانہ بنایا گیا۔فرق صرف اتنا تھا کہ اول الاذکر واقعے میں بالواسطہ تشدد کا سہارا لیا گیا تھا اور آخر الذکر واقعے میں بلاواسطہ تشدد کا سہارا لیا گیا۔
دونوں واقعات کا مقصد ایک دوسرے سے کچھ مختلف نہیں تھا۔ریاست اپنے جیسے سماج بنانے کی جدوجہد کے مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے بلاواسطہ تشدد کے کامیاب استعمال تک پہنچ چکی ہے۔بلاواسطہ تشدد کا ہر ماحول بالواسطہ تشدد کو جواز فراہم کرنے کیلئے منظم طور پر استعمال کیا گیا ہے۔کوئٹہ کے اوپر بلاواسطہ تشددکا ماحول مسلط کرنے کے بعد ہی وہاں پر فوجی سلطنت کی اجارہ داری ممکن ہوئی ہے۔
دوسری انگریز افغان جنگ کے بعد کوئٹہ کومکمل طور پر اپنے قبضے میں لانے کے بعد برطانوی استعمار نے اس کو اپنے توسیع پسندانہ مقاصد اور افغانستان کے خلاف ایک فوجی اڈے کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا تھا۔مقامی آبادی کی سیاست کا بنیادی مقصد اس شہر میں عسکریت کے ابھار پہ قابو پانا اور شہری خصوصیات کو غالب بنانا تھا۔برطانوی ہند اور مقامی آبادی کے درمیان یہ لڑائی ہندوستان کی تقسیم کے فیصلے کے ساتھ اختتام تک نہیں پہنچ سکی اس لئے کہ پاکستانی ریاست اس “فاروڈ پالیسی”کو جاری رکھنے میں سنجیدہ نظر آئی جس کو انگریز استعمار نے مرکزی ایشیا ء اور افغانستان کی طرف پیش قدمی کرنے کیلئے اپنائی تھی۔
پشتونوں اور بلوچوں کی قوم پرستی ہر قسم کی استعماری پیش قدمی کی مخالفت میں اپنی بنیادیں مستحکم کرتی چلی آرہی ہے۔کوئٹہ میں ان وکلاء جیسا ترقی پسند اور سیاسی طور پر فعال پروفیشنل طبقے کا ظہور بھی اس سیاسی ماحول میں ممکن ہوا تھا۔بالفاظ دیگر کوئٹہ کی پوری سیاسی اور سماجی تاریخ نوآبادیاتی قوتوں کے ساتھ اپنے مزاحمتی تعلق میں ہی تشکیل پائی ہے۔ شہید وکلا ء موجودہ بلوچستان میں آباد پشتونوں کی پہلی اعلیٰ تعلیم یافتہ نسل کے طور پر ابھر کر کوئٹہ شہر میں پشتونوں کی جاندار ثقافتی موجودگی کا احساس اور ثبوت فراہم کرنے میں سب سے بنیادی کردار ادا کر رہے تھے۔
ان کی سرگرمیوں کا جغرافیہ کہیں دفتروں کے تنگ و تاریک ماحول تک محدود نہیں رہاتھا بلکہ ان کی سرگرمیاں اسی ہی جغرافیے میں واقع ہوتی رہی تھیں جو قوم پرست اور ترقی پسند سیاسی تحریکوں نے ایک لمبی جدوجہد کے نتیجے میں انہیں فراہم کیا تھا۔ کوئٹہ کے وکلاء کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی فعال سیاسی وابستگیوں میں تھی، وہ نہ صرف باقی پروفیشنل طبقوں سے اس لحاظ سے ممتاز تھے بلکہ سماج کو غیر سیاسی بنانے کی ریاستی پالیسی کے خلاف پیش پیش بھی تھے۔ آمریت کی کوئی بھی شکل ان کو قابلِ قبول نہیں تھی۔
سال 2007 سے 2008 تک پاکستان میں جو وکلا ء تحریک چلی تھی باقی پاکستان میں وہ مرکزیت کے دائرے میں گھومتی پھرتی رہ گئی تھی لیکن بلوچستان میں اس کی ایک جینوئن اینٹی اسٹیبلشمنٹ شکل تھی جس کی بدولت وہاں کی سیاسی جماعتوں کو اپنی فعالیت کیلئے بھی بڑی گنجائش ملی تھی۔ یہ بذاتِ خود ایک جواب طلب سوال ہے کہ کیوں ملک کی سطح پہ اٹھنے والی احتجاجی تحریکوں کی نظریاتی حقانیت ہمیشہ ضمنی علاقوں تک ہی محدود ہوکے رہ جاتی ہے اور مرکزی علاقوں میں مصلحت پسندی کی ایک ایسی شکل اختیار کرجاتی ہے جس سے صرف سماج کو مزید غیر سیاسی بنانے کا کام لیا جاتا ہے؟
باقی ملک میں جب عدلیہ بحالی کی تحریک سیاسی نظام اور پارلیمان پر غیر منتخب لوگوں کا ہاتھ مضبوط رکھنے کا مقصد حاصل کرگئی تو بلوچستان کے وکلاء کیلئے اپنے صوبے میں ایف سی کی قائم ہونیوالی سلطنت کے تاریخی خطرے کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حیثیت اور نصب العین کا ازسرِ نو تعین کرنا لازم ہوچکا تھے۔ کوئٹہ میں خودکش حملے، بم دھماکے، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان اور جبری گمشدگیوں کا سلسلہ ایک سیاسی معمول کی شکل اختیار کرچکا تھا۔
ایف سی والوں نے کوئٹہ شہر کی سماجی اور سیاسی زندگی کو سیکیورٹی کی آگ کیلئے درکار ایندھن کے درجے تک نیچے لایا، باز محمد کاکڑ اور ان کے ساتھی وکلا ء عدالت کے اندر اور باہر اس فوجی پیش قدمی کی روک تھام کیلئے مختلف امکانات سوچتے ہوئے نظر آئے۔وکلاء برادری نے کوئٹہ کے شہری ڈھانچے میں خود کو مقامی آبادی کے ایک مئوثر نمائندہ طبقے کے طور پر ثابت کرنا شروع کیا تھا جس سے سرکاری آبادکاری کا ابھرا ہوا تسلط خطرے میں پڑ گیا تھا۔بلوچ قوم پرستوں کو ایک حد تک قابو میں رکھنے کے بعد غیر آئینی سرکاری آبادکاروں کیلئے اس طبقے کو توڑنا لازمی ہوچکا تھا،جس کے گرد کوئٹہ شہر کی سماجی اور ثقافتی زندگی کی ترقی پسند جہتیں تشکیل پارہی تھیں۔
کوئٹہ کی سیکیوریٹائزیشن کے خلاف کوئی ایسی سرگرمی نہیں تھی جس میں وکلاء برادری نے اپنا حصہ ایک نظریاتی اور ذمہ دار پروفیشنل طبقے کے طور پہ ڈالا نہیں تھا۔شہر کے متوسط طبقے کے ایک موثر نمائندے کے طور پر کورٹس کے اوپر اپنی ثقافتی اور نظریاتی بالادستی کو قائم کرتے ہوئے ان وکلا ء نے نہ صرف عدالتوں کو لوکلائز کرنے کے عمل کی بنیاد ڈالی تھی بلکہ سماج میں سیاست کیلئے بھی ایک خاطرخواہ گنجائش ڈھونڈ لائی تھی۔
اس وکلا ء برادری جس میں گزشتہ سالوں میں شہید بازمحمد کاکڑ نے بلوچستان بار کونسل کے صدر کی حیثیت سے ایک تاریخی کردار ادا کیا تھا ،نے سب سے اہم کام یہ کیا کہ اس نے ملک کے قانونی مین سٹریم میں اپنے صوبے اور لوگوں کی ایک شاندار نمائندگی کو یقینی بنایاتھا اور اس نمائندگی کو حقیقی روح فراہم کرنے کیلئے صوبے کے دورافتادہ اور پسماندہ علاقوں کے وکلا کو بھی اپنے وجود اور جدوجہد کا ایک فعال حصہ بنایا تھا۔
آسان الفاظ میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سماج کو توڑ پھوڑ سے بچانے میں وکلا ء کی یہ جاندار موجودگی بڑی مددگار ثابت ہو رہی تھی جس سے سماج کو تحلیل کرنے والی متشدد قوتوں کو ایک انتہائی بڑا خطرہ لاحق ہوچکا تھا۔انہوں نے ہمیشہ ہر اس فرد، گروہ، شے، روایت اور روئیے کو نشانہ بنایا ہے جس کے گرد سماج خود کو بنائے اور چلائے رکھتا ہے۔پے درپے فوج کشیوں اور ساختیاتی تشدد کی مدد سے بلوچستان کی سرزمین کو مضبوط مرکز کا تابع بنانے کے بعد وہاں کے کاروباری اور پیشہ ور طبقات کو قابو کرنے کیلئے ننگے تشدد کا سہارا لیا گیا۔
تشدد کا کوئی ایسا طریقہ کار نہیں ہوگا جو کوئٹہ میں استعمال نہیں ہوا ہو۔شہری زندگی کو ایک بڑے عرصے تک فرقہ وارانہ تشدد کے ذریعے بلاک کیے رکھا گیا۔دہشت گردی اور ایف سی کی قوت میں اضافہ ایک ساتھ ایک ا نتہائی فطری تعلق اور راست تناسب میں دیکھا گیا۔کوئٹہ میں سیاست، قبائلیت اور مذہب کی ایک خاص تشریح حکمران طبقے نے ایک منظم پالیسی کے تحت شروع کی کہ جس سے اس شہر اور باقی صوبے میں ہر قسم کے سرکاری اور غیرسرکاری تشدد کو جوازفراہم کیا جاسکتا تھا۔
امیرِ شہر نے الزام دھر دیئے ورنہ
غریبِ شہر کچھ اتنا گناہگار نہ تھا
8 اگست کا واقعہ بلوچستان میں پہلا واقعہ نہیں تھا جو ایف سی کی حکمرانی میں رونما ہوا بلکہ اس سے پہلے لاتعداد ایسے واقعات ہوئے تھے جس سے کوئٹہ شہر کو توڑ پھوڑ کاشکار بنانے والی پالیسی کے خدوخال لوگوں پر واضح ہوئے تھے لیکن 8 اگست کا واقعہ اس لحاظ سے اپنی نوعیت اور بلوچستان کی تاریخ کا پہلا اور سب سے بڑا واقعہ تھا کہ اس میں ایک پوری پروفیشنل کلاس کو جڑ سے اکھاڑ کرکے پھینک دیا گیا اور واقعے کے فوراً بعد کہا گیاکہ یہ انڈیا نے چائنا پاکستان اکنامک کاریڈور یا سی پیک پر حملہ کیا۔
لاشوں کا اس سے بڑا مذاق اڑایا بھی نہیں جاسکتا تھا۔کسی ترقیاتی منصوبے کی اتنی بڑی قیمت چکانے کا کبھی نہیں سنا تھا اور منصوبہ بھی کچھ ایسا جس کا پشتونوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہو ا ور بلوچوں کے ساحل اور وسائل پر ایک بڑے استعماری قبضے کا نام ہو۔بلوچ قوم پرست پاکستانی ریاست کے طرف سے لائے ہوئے ترقیاتی منصوبوں کو بلوچستان کو مستعمرہ بنانے کی ایک پالیسی سمجھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر اس کی مخالفت کرتے آرہے ہیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں قائم شدہ کمیشن نے 8 اگست کے واقعے پر جو رپورٹ دی اس کے ساتھ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ جیسا سلوک کیا گیا ، رپورٹ کی سفارشات پر عمل کرنے کی بجائے ریاست نے جسٹس فائز عیسٰی کو مقدمات میں گھسیٹنا شروع کیا۔اس ملک میں انصاف کا یہی طریقہ کار ہے جو 70 سالوں سے چلا آرہا ہے۔
کوئٹہ اور بلوچستان آج بھی دہشت گردی اور ایف سی کے نرغے میں ہے۔سیکیورٹی سٹیٹ کا یہی تو روزگار ہوتا ہے،چلتا رہے گا،ہمارے پاس سیاسی مزاحمت کے سوا کوئی راستہ نہیں اور بلوچستان سے فوج اور ایف سی سے اختیارات واپس لیویز اور پولیس کو منتقل کرنا ہمارا بنیادی ہدف ہوسکتا ہے۔
روزنامہ شہباز، کوئٹہ