بھارت کے متنازعہ اسلامی مبلغ ذاکر نائیک نے ملائیشیا میں اپنے نسل پرستانہ بیان پر معافی مانگ لی ہے۔ دوسری جانب ملائیشیا کی پولیس نے ان کی تمام عوامی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ہے۔
ذاکر نائیک کو بھارت میں منی لانڈرنگ اور نفرت انگیز تقاریر کرنے کے مقدمات کا سامنا ہے اور اسی وجہ سے وہ گزشتہ تین برسوں سے ملائیشیا میں قیام پذیر ہیں۔ لیکن اس ملک میں انہیں اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا، جب انہوں نے ملائیشیا کی نسلی اور مذہبی اقلیتیوں سے متعلق تبصرہ کیا۔
پیر کے روز ملائیشیا کی پولیس نے ان سے تقریبا دس گھنٹے تک ان کے اس بیان کے بارے میں تفتیش کی، جو انہوں نے گزشتہ ماہ ایک تقریر کے دوران دیا تھا۔ ذاکر نائیک کا کہنا تھا کہ ملائیشیا میں ہندوؤں کو بھارت کے مسلمانوں کے مقابلے میں ‘ایک سو گنا زیادہ حقوق‘ حاصل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملائیشیائی چینی اس ملک میں مہمان کی طرح رہ رہے ہیں۔
ملائیشیا میں نسل اور مذہب کا موضوع انتہائی حساس تصور کیا جاتا ہے۔ اس ملک کی بتیس ملین نفوس پر مشتمل آبادی میں سے ساٹھ فیصد مسلمان ہیں۔
پولیس کی تفتیش کے بعد ذاکر نائیک کا اپنے تبصرے سے متعلق معافی مانگتے ہوئے کہنا تھا کہ وہ نسل پرست ہرگز نہیں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا ہے اور اس میں تبدیلیاں بھی لائی گئی ہیں۔
منگل کو ان کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”میری ہرگز یہ نیت نہیں تھی کہ کسی فرد یا کمیونٹی کی دل آزاری ہو۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ”یہ اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے اور میں اس غلط فہمی پر دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔‘‘.
ذاکر نائیک ملائیشیا میں مستقل رہائش کا پرمٹ رکھتے ہیں لیکن ان کے اس متنازعہ بیان کے بعد کئی وزراء نے ان کی ملک بدری کا مطالبہ کیا ہے۔ پندرہ اگست کے بعد سے پولیس نے قومی سلامتی اور نسلی ہم آہنگی کے خدشات کے باعث ذاکر نائیک کی عوامی سرگرمیوں پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے۔
ملائیشیا کے سرکاری میڈیا کے مطابق وزیراعظم مہاتیر محمد نے اتوار کو کہا تھا کہ ذاکر نائیک کو اسلام کی تبلیغ کرنے کی مکمل آزادی ہے لیکن انہیں ملائیشیا کی نسلی سیاست کے بارے میں نہیں بولنا چاہیے۔
DW