نواز شریف کا ترقی کا ماڈل

لیاقت علی

نواز شریف کو سزا ہوئی توعوام بالخصوص پنجاب میں باہر کیوں نہیں نکلے تھے اور جب شہباز شریف کو نیب نے گرفتارکیا توپنجاب کے عوام سڑکوں پراحتجاج کے لئے کیوں نہیں آئے تھے؟اس وقت صورت حال یہ ہے کہ نواز شریف،مریم نواز، شاہد خاقان عباسی اورحمزہ شہباز کے ساتھ ساتھ ن لیگ کی اعلی قیادت جیلوں میں ہے لیکن عوام ہیں کہ ان کی حمایت میں سڑکوں پر نہیں نکلتے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ عوام اپنی منتخب قیادت کی حمایت میں سڑکوں پر کیوں نہیں نکلتے ۔یہ وہ سوال ہے جونجی محفلوں اورٹی وی چینلز پرپوچھا جاتاہے۔ نوازشریف فیملی کا دعوی ہے کہ وہ گذشتہ تین دہائیوں سے زائد عرصہ سے پنجاب کےعوام کی خدمت کررہی ہے۔ ہمارے میڈیا کا موقف ہے کہ تمام تر تحفظات کے باوجود پنجاب میں تعلیم ہو یا ڈویلپمنٹ یہ سب میاں برادران کےعہد اقتدارکی مرہون منت ہے۔

کہا جاتا ہے کہ نواز فیملی اورخاص طورپرشہبازشریف کے ڈویلپمنٹ ماڈل کا ایک زمانہ مداح ہے اورتواورغیر ملکی سفیروں تک نے شہباز شریف کے ترقیاتی کاموں کی تعریف کی ہے۔ لیکن سوال وہیں کا وہیں ہے کہ پنجاب میں اتنا کچھ کرنے کے باوجود کیا وجہ ہے کہ لوگ اپنے محبوب لیڈرزکی حمایت میں باہرکیوں نہیں آئے۔
ایک اندازے کے مطابق پنجاب کی آبادی گیارہ کروڑ کے قریب ہے۔ اس آبادی کا باسٹھ فی صد دیہاتوں میں اوراڑتیس فی صد شہروں میں بستی ہے۔ نواز شریف ،شہبازشریف اورمسلم لیگ ن کا ووٹ بینک شہروں کی حد تک محدود ہے دیہات میں وہ الیکٹیبلز پرانحصار کرتی آئی ہے۔الیکشن 2018میں ان الیکٹیبلز نے فوجی سایوں کے زیر اثر پہلو بدلے تو ن لیگ کو دن میں تارے نظرآنے لگے تھے۔ یہ الیکٹیبلز کبھی ن لیگ کے تھے ہی نہیں یہ تو مقتدرقوت کا وہ جہیز ہے جووہ اپنی پسنددیدہ سیاسی جماعت سے نکاح کرتے ہوئے اسے دیتی ہے۔

پنجاب کےشہروں میں نواز شریف اورشہباز شریف نےساری سیاسی سرمایہ کاری مڈل کلاس پاور بروکرزپرکی ہے۔ پراپرٹی ڈیلرز،قبضہ مافیا، سرکاری محکموں کے راشی اہلکار جوخود بھی کھاواوراپنےاوپروالوں کوبھی پہنچاو کی پالیسی پرعمل پیرا رہتے ہیں ن لیگ کی سیاسی پاور بیس ہے۔ لاہور کی دو سو چوہتر یونین کونسلز میں کسی ایک یونین کونسل کا چئیرمین اور وائس چئیر مین ایسا نہین جس کا برارہ راست یا بالواسطہ طورپر تعلق پراپرٹی بزنس یا قبضہ مافیا سے نہ ہو۔ ن لیگ کی پاور بیس جن سماجی پرتوں پر مشتمل ہے وہ مقامی تھانے دار، پٹواری اور انتظامیہ کے تعاون کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھاسکتی۔

یہ وہ پرتیں ہیں جو عوام کو دباتی اورانتظامی افسروں کی خوشامد ہی میں اپنی بقا سمجھتی ہیں۔ ان سے کسی قسم کی کوئی احتجاجی تحریک لانچ کرنے کا مطالبہ بلا جواز ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے باسٹھ فی صد لوگوں کے لئے شہباز شریف ہوں یا پھر نواز شریف نےکچھ نہیں کیا۔الٹا ان کے ترقیاتی فنڈز کو اپنے پسندیدہ شہروں کی ترقی پر خرچ کردیا ہے۔ پنڈی۔لاہور اور ملتان میٹرو ٹرین ہو یا پھر لاہور کا اورنج ٹرین پراجیکٹ یہ جنوبی پنجاب کے پسماندہ اضلاع کے لئےمختص فنڈز کو چراکر بنائے گئے ہیں۔ پنجاب کے جنوبی اضلاع میں انفراسٹرکچر نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔

سکول ہیں نا کالچ اگر کہیں سکول ہیں تو ان کے پاس عمارت نہیں ہے۔ اگر لڑکوں کے سکول ہیں تو لڑکیوں کی تعلیم کا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ دیہاتی خواتین ماہر امراض نسواں میسر نہ ہونےکی بنا پر زچگی کے دوران مر جاتی ہیں۔ اب پنجاب دیہاتوں کے باسیوں کے مادی مفادات نواز شریف شہباز شریف کے حق میں احتجاجی تحریک چلانے کے متقاضی نہیں ہیں۔ وہ تو الیکٹیبلز کے رحم و کرم پر ہیں ۔

وزیر اعلیٰ شہباز شریف ہو یا پھر عثمان بزدار ان کی صحت پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔ عوام کے نچلے طبقے کی محنت کش عوام اور نچلے درمیانہ طبقہ میاں فیملی کے ڈویلپمنٹ ماڈل کا بینیفشری نہیں ہے۔ ان کا ڈویلپمنٹ ماڈل اشرافیائی ہے جس کی ترجیح پید ل چلنے والوں کی بجائے کاروں میں سفر کرنے والے ہیں۔عوام کے لئے ن لیگ ہو یا پھر تحریک دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں ہی اشرافیہ کی نمائندہ جماعتیں ہیں دونوں ہی مقتدر قوتوں سے اقتدار کی بھیک مانگتی ہیں کبھی ایک کو مل جاتا ہے اور کبھی دوسری کو۔

Comments are closed.