کیا باجوہ ڈاکٹرائن سوئیڈن بھی پہنچ گئی ہے ؟

حسن مجتبیٰ

   کئی دن ہوئے کہ ریڈیو پاکستان کوئٹہ پر ا یک نیوز کاسٹر ہوا کرتے تھے صدیق آزاد۔ ایک دفعہ ریڈیو پاکستان سے خبریں پڑھتے جب انہوں نے خبریں ختم کیں تو خبروں کے آخر میں کہا کہ”یہ جو آپ نے سنا یہ سب جھوٹ تھا”۔

ظاہر ہے کہ اسکے بعدپھر اس نیوزکاسٹر کیساتھ کیا ہونا تھا؟جو کہ تب سے ہر بلوچ کیساتھ ہوتا آیا ہے۔مند ،بلوچستان کےگاؤں میں ایران پاکستان بارڈر کیساتھ رہنے والے صدیق آزاد پر اپنی دھرتی بلوچستان تنگ کردی گئی۔ وہ ایرانی بلوچستان چلا گیا۔ اسے “گریٹر بلوچستان تحریک” کیساتھ نتھی کر دیا گیا۔وہ عراق میں بھی رہااور وہ بچتا بچاتا سوئیڈن پہنچا۔ جہاں وہ آجکل آپسالاشہر کے پاس کئی برسوں سے مقیم ہے۔

یہ ایک نسل ہے۔ بلوچوں کی۔ بلوچ جو کردوں کی طرح ایک سے زیادہ ممالک میں کیسپئن سمندر سے لیکر آبنائے ہرمز تک ہیں۔وہ جو کہتے ہیں کوئی دوست نہیں سوائے پہاڑوٖں کے۔ مجھے جنیوا کے ناکس ہاسٹل کے ہال میں ایک نوجوان بلوچ ملا جس نے کہا “میں آپ کو پڑھتا رہتا ہوں” اس نوجوان بلوچ نے مجھے بتایا وہ لٹوینیا میں رہتا ہے۔ میرے دوست اور ناول نگار لکھاری محمد حنیف نے لکھا تھا کہ کون بلوچ ہے جو غائب نہیں۔ میں کہتا ہوں کون بلوچ ہے جو اگر غائب اور غائب ہوکر مارے جانے سے بچ کر یا غائب ہونے سے بچ کر دنیا کے کسی نہ کسی ملک میں نہیں ہے۔

سنہ1980 کی دہائی میں میرے شہر حیدرآباد کا جلاوطن صحافی نایاب حسین بھی سوئیڈن پہنچا تھا اس کا شعر ہے

یہ کربلا کے مسافر نہیں مگر پھربھی ۔۔۔۔ وطن سے شام غریباں کی یاد لائے ہیں

یہ آج کے دربدر اپنے وطن چاہے دیارِغیر میں جلاوطن بلوچوں پر صادق آتا ہے۔ نسل در نسل۔۔۔غائب ہوتے غائب ہوتےٹارچر سے گذرتے ، مسخ شدہ لاشیں ملتی  بلوچوں کی تاریخ کا سفر بھی جاری ہے۔ ذرا سوچیں چھوٹا بچہ علی  حیدر جس کا باپ بھی غائب ہو کر قتل ہو جاتاہے، دس سال کی عمر میں وہ گمشدہ بلوچوں کی رہائی کیلےکوئٹہ سے اسلام آباد تک پیدل  مارچ میں شریک ہوتا ہے چودہ  پندرہ سال کی عمر تک پہنچتے پہنچتے وہ بھی ایک دفعہ غائب ہو جاتا ہے۔

اپنے چچا صدیق آزاد کے کئی برسوں بعد کراچی کے پٹیل پاڑے لیاری کے نوجوان ساجد بلوچ کو تو کتابوں سے عشق ہوتا ہے۔ پڑ ھنے لکھنے سے اور کہانیوں سے۔ اسکے دوست اسے کافکا کہتے۔ پاکستان کے محب وطن انگریزی میڈیا میں چار سال تک کام کرنے ولاا صحافی ساجد بلوچ مختصر کہانیوں جیسی لیکن حقیقی کہانیاں غائبستان میں غائب ہوتے لوگوں کی لکھتے لکھتے خود اپنے دوست عبدالحکیم بلوچ کو غائب اور پھر “پراسرار حالات” میں ہلاک ہوتے دیکھتا ہے۔

حکیم بلوچ کراچی کی امریکی قونصلیٹ میں کام کرتا تھا۔ اسے آئی ایس آئی نے اغوا کیا اور پھر رہا ہونے کے دو دن اندر وہ ہلاک ہوگیا ۔عبدالحکیم بلوچ کے دوست کہتے ہیں کہ اسے سلو پوائزن دیا گیا تھا۔ ۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا انسانیت کے ساتھ ایسی وارداتیں ہونے کی کہانیاں لکھنے والاوہ ساجد خود کہانی بن جائے گا۔ کافکا کی دی ٹرائل” کا مشتاق قاری۔ 

 ساجد نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ “بندے کے غائب ہو کر لاپتہ ہونے سے اسکی لاش ملنا بہتر ہے۔ بلوچ صحافی ساجد حسین نے یا اسکے یاروں دوستوں ، گھر والوں نے یا کسی نے بھی یہ سوچا بھی نہیں ہوگا کہ پاکستان میں پاکستان کے ریاستی اداروں (ظاہر ہے کہ فوج اور اسکی آئی ایس آئی جیسی ایجنسیوں نہ کہ محکمہ انہار یا جنگلات) کے اغوا، تحویلی گمشدگی یا جبری لاپتہ ، ٹارچر سے بھاگتے ہوئے، اپنا سر بچاتے ہوئے، کئی اپنے ملک اور ملک کی قسمت جیسے ملکوں میں دربدر ہوتے ہوئے آخرکار پناہ کا متلاشی جس وعدہ کی ہوئی سرزمین پر پہنچے گا وہاں بھی گمشدہ ہوکر اسکی ہی لاش ملے گی۔

ساجد کا بھی آبائی تعلق بلوچستان کے مند گاؤں سے تھا جو کہ ایران پاکستان سرحد پر واقع یہ علاقہ نہ صرف انسانی اسمگلنگ اور منشیات کی عالمی منڈی میں رسائی کے لیے ماضی قریب تک بدنام تھا (اب کا پتہ نہیں) بلکہ یہی وہ علاقہ ہے جہاں مشرف دور حکومت میں فوجی جاسوسی اداروں کے ہاتھوں پہلی بار بلوچ سیاسی منحرفین غلام محمد بلوچ سمیت غائب اور پھر قتل کیے گئے تھے۔

ساجد حسین بلوچ تین سال قبل   سوئیڈن میں بلوچی زبان کی پروفیسر کی دعوت پر  اومان سے  سوئیڈن،  پہنچا تھا۔ جہاں سے ساجد کی لاش ملی ہے وہ علاقہ تمام سوئیڈن میں 1990 کی دہائی میں پاکستانی ایجنسیوں کی مدد سے منشیات کی اسمگلنگ کا اتنا بڑا مرکز  بن گیا تھا کہ سوئیڈن حکام کو انتباہ کرنا پڑا تھا کہ اگر پاکستانی ایجنسیوں نے یہ دھندے بند نہ کیے تو براہ راست مقدمات پاکستانی سفارتخانےپر دائر کرنے پڑیں گے۔

ایسے  علاقے میں گذشتہ دہائی سے اب تک پاکستان کے ان علاقوں سے لوگ جہاں سے فوجی اور جہادی بھرتی ہوتی ہے آکر آباد ہوئے ہیں۔ اسی علاقے  میں افریقی مافیا سمیت انسانی اسمگلنگ کے کئی گروہ بھی سرگرم ہیں۔ غائبستانی ایجنسیاں ساجد حسین کے آن لائن اخبار “بلوچستان ٹائمز” پر سخت نالاں تھیں اور پاکستان میں اسے بلاک بھی کیا ہوا ہے۔  منشیات، گم شدگیاں، بلوچ مزاحمت اور بلوچستان میں فوجی مظالم “بلوچستان ٹاْئمز” میں ساجد کے موضوعات تھے۔

اگرچہ سوئیڈپولیس پوسٹ مارٹم کی رپورٹ آنے تک کچھ بھی نہیں بتا رہی لیکن پولیس ترجمان یہ کہہ چکا ہے کہ ساجد کے جسم پر اس کی گواہی موجود ہے کہ اسکی موت سے کوئی “جرم” وابستہ ہے۔ یہ قتل بھی ہو سکتا ہے، حادثہ بھی یا خودکشی بھی لیکن قطعی طور پوسٹ مارٹم رپورٹ کے بعد ہی کہا جا سکتا ہے۔

لیکن ساجد کے اپسالا اور اسٹاک ہوم میں رہنے والے دوست اور ساتھی کہتے ہیں کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ساجداپسالا میں اپنے نئے گھر (جہاں اسکی بیوی بیٹی نے بھی ان دنوں آنا تھا) پہنچتے ہی سخت سردیوں میں پرانے اپسالا کے مضافات میں ندی پر جا پہنچا اور کود گیا! مجھے یہ پاکستان میں صحافی سلیم شہزاد کے قتل سے ملتا جلتا طریقہ واردات کی یاد دلاتا ہے کہ اسلام آباد سے ڈرائیو کر کے بندہ سرائے عالمگیر پہنچا اور اسکی کار کی ٹنکی بھی فل۔

اگر آزادی پریس کے عالمی دن سے تین چار روز قبل جلاوطن منحرف بلوچ صحافی کو سوئیڈن جیسے جمہوری اور محفوظ ترین ملک میں شہزاد سلیم بنایا گیا ہے تو پھر یہ ایسی سوسائیٹیوں میں رہنے والے پاکستان کے سیاسی منحرفین اور جلاوطنوں کیلے انتہائی خطرے کی گھنٹی ہے۔

پاکستان میں ضیا لحق کی فوجی آمریت میں طویل مدت تک قید و تشدد بھگت کر اب سوئیڈن میں رہنے والے ایک میرے دوست کا کہنا ہے کہ کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا لیکن اسکے پیچھے پاکستان کی فوجی جنتا کے ہاتھ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ “ یہی خیال یورپ میں صحافیوں کے تحفظ کیلے کام کرنیوالی تنظیم “رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز” کا ہے کہ ساجد کی گمشدگی اور ساجد کی موت کا تعلق ساجد بلوچ کے “بلوچستان  ٹائمز” والے صحافیانہ کام سے ہے”۔

لیکن سوئیڈن میں سوئیڈ حکام کے ساتھ سائنس اور کرمنالوجی پر کام کرنے والے میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ اس کے لیے شواہد کا ہونا ضروری ہے۔ اگر شواہد ملے تو پھر سوئیڈ حکومت پاکستانی حکومت کے ساتھ اس کیس کو انتہائی سنجیدگی سے آخری نتیجے تک اٹھائے گی۔لیکن اپسالا جو کہ زیادہ تر یونیورسٹی ٹاؤن ہے جہاں ساجد ایرانی ماہر لسانیات پروفیسر بلوچی زبان کی پروفیسرکیرینا جہانی  کے ساتھ  بلوچی زبان پر کام کر رہا تھا وہاں یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ کسی جلاوطن  بلوچ دانشور و اسکالر کی پر اسرار حالات میں میں ہلاکت ہوئی ہو۔

اس سے قبل سال2008میں  اوسلو ، ناروے کی ایک عمارت کی گیارہویں منزل سے جلاوطن بلوچ محقق و دانشور عارف بارکزئی“گر کر ہلاک” بتائے گئے تھے۔ عارف بارکزئی کی بلوچستان کی سیاست و سماجیات پرتحقیق “بارکزئی پیپرز” کے نام سے اب کتابی شکل میں موجود ہے جس پر پاکستانی ریاستی بیانیے والوں کی طرف سے انتہائی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور لیاری کراچی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عارف بارکزئی بھی پاکستانی ریاست اور ریاستی اداروں کے زیر عتاب تھے۔

اگر ایسے تمام خدشات جن کا اظہار اکثر حلقے کر رہے ہیں کو درست مانا جائے جو کہ سوئیڈن جیسے ملک میں جلاوطن بلوچ صحافی ساجد حسین کی گمشدگی اور پھر انکا مردہ حالت میں ملنا اس بات کا غماز ہے کہ ترکی اور ایران جیسے ممالک کی طرح اب پاکستان کی طاقتور اور انتہائی خوفناک جاسوسی ایجنسی آئی ایس آئی نے پاکستان سے باہر رہنے والے سیاسی جلاوطن یا پناہ گزین سیاسی منحرفین اور ریاست مخالف سیاسی جلاوطنوں کو نشانہ بنانا شروع کیا ہے۔ جیسا کہ کچھ عرصہ قبل سابق فوجی آمر پرویز مشرف نے بھی پاکستانی نجی ٹی وی چینل کے اینکر وجاہت ایس خان کو ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا ( یہ انٹرویو یو ٹیوب پر بھی موجود ہے) کہ بقول انکے “پاکستان دشمنوں سے باہر نمٹا جا سکتا ہے۔ جیسا کہ دنیا کے بہت سے ممالک کرتے ہیں۔ ہم بھی کر سکتے ہیں۔ کس کو کیا پتہ چلے گا کون کر گیا!”۔

اب ساجد کی سوئیڈن میں گمشدگی  اور پھر ہلاکت پر میرے ایک دوست نے مجھ سے پوچھا “کیا باجوہ ڈاکٹرائن اب سوئیڈن پہنچ چکی ہے؟”۔ 

اس پر مجھے یاد آیا کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل نے پاکستانی صحافیوں کو اپنی ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ میں بتایا تھا امریکی دورے کے دوران فوجی آمر جنر ل ضیا الحق نے کہا تھا کہ دنیا بھر میں آئی ایس آئی کے ایجنٹ بھیجے یا بھرتی کیے جائیں گے لیکن امریکہ میں نہیں۔ لیکن ہم نے ضیا الحق کی ہدایات کے برعکس دو ہزار ایجنٹ امریکہ میں بھیج دیے تھے۔” امریکی اخبارات ایک سے زیادہ بار اس کا انکشاف اپنی رپورٹوں میں کرچکے ہیں کہ پاکستان سے باہر سفارتی مشن اپنے ملک کے سیا سی منحرفین پر کس طرح نظر رکھتے ہیں۔

اسکی کئی مثالیں موجود ہیں جب سیاسی منحرفین کے اجتماعات اور مظاہرے ریاستی اداروں کے فوج کے حامیوں نے جارحانہ انداز سے خراب کیے ہیں۔ خاص طور موجودہ حالات میں جب پاکستان جیسے ملک کا وزیر داخلہ اعجاز شاہ ہو جو ماضی میں سابق فوجی آمر پرویز مشرف کیخلاف مختار مائی کی میزبان اور خواتین کی انسانی حقوق کی کارکن ڈاکٹر آمنہ بٹر کو بھی، اعجاز شاہ کی زبان میں “کسی  کالے کو ڈالر د ے کر مروایا جا سکتا ہے” جیسی دھمکیاں دے چکا ہو تب اسلامی جمہوریہ پاکستان با المعروف انٹیلیجنس ریپبلک ِآف غائبستان سے کچھ بھی بعید نہیں۔