لیاقت علی
اسلام آباد میں ہندو مندرکی تعمیرکو لے کرتنازعہ کھڑاکردیا گیاہے۔مولوی مندر کی تعمیرکودین اسلام کے خلاف سازش قراردے رہے ہیں اوراس کی تعمیر کو روکنے کی کوشش کررہے ہیں اورجہاں تک حکومت کا تعلق ہے تووہ اسے اپنا کریڈٹ قراردے رہی ہے اوریہ باورکرانے کی کوشش کررہی ہے کہ اسےاقلتیوں کے حقوق کا بہت زیادہ خیال ہےاوروہ اقلیتوں کے بارے میں فراخدلانہ اوررواداری پرمبنی پالیسی پرعمل پیرا ہے۔
جہاں تک مولویوں کا تعلق ہے تووہ ہراس بات اورکام کے مخالف ہیں جس سے دنیا میں پاکستان کا اچھا اوربہترامیج ابھرسکتا ہے۔وہ پاکستان کوانسانیت کا دشمن ملک ثابت کرنے پرہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔وہ پاکستان کوایک ایسا ملک بنانا چاہتے ہیں جواقلیتوں سے تعلق رکھنے والے اپنے شہریوں کی زندگیوں کواجیرن بنانے یقین رکھتا ہے۔
اسی طرح ہماری حکومتیں بھی اقلیتوں بارے محض کاسمیٹک پالیساں بنانےپر یقین رکھتی ہیں۔کیاپاکسان کے ہندووں کا مسئلہ اسلام آباد میں ہندومندرکی تعمیر ہے؟پاکستان کے ہندووں کی اکثریت اندرون سندھ رہتی ہے جہاں ہرشہراورقصبے میں مندر موجود ہیں۔ان مندروں میں ہندووں کو جانےاورعبادت کرنے سے کوئی نہیں روکتا۔
ہندووں اورپاکستان کی دیگر اقلیتوں کے مسائل اپنی نوعیت کے اعبتار سےمذہبی نہیں معاشی،سماجی اورسیاسی ہیں۔ہندووں کی اکثریت کا تعلق نیچی جاتیوں سے ہے جنھیں آج کل ہم دلت کہتے ہیں۔یہ غربیوں کے غریب ہیں۔ تعلیم،صحت اورروزگار نام کی کوئی چیز انھیں میسر نہیں ہے۔ ان کی نوجوان لڑکیوں سے مقامی جاگیرداروں کے کارندے مولویوں اورپیروں کے عملی تعاون سے زبردستی قبول اسلام کرکے شادی کرلیتے ہیں۔ ان لڑکیوں کے ماں باپ روتے پیٹتے رہتے ہیں اور ان کی شنوانی سرکار،درباراورعدالت میں نہیں ہو پاتی۔ ہندو تاجروں اور دوکانداروں کو سندھ میں آئے دن اغوا کرلیا جاتا ہے اوربھاری رقوم لے کر انھیں چھوڑا جاتا ہے۔ قانون نافذ کرنےوالے ادارے ہندو تاجروں اوردوکانداروں کا تحفظ کرنےکی بجائے ڈاکووں اور بھتہ خوروں کا ساتھ دیتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں قومی اورصوبائی اسمبلی میں اقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں کے لئے اعلی ذات کے ہندووں کو رکن نامزد کرتی ہیں۔یہ کریڈیٹ پیپلزپارٹی کودیا جاسکتا ہے کہ اس نےاقلیتوں کے لئے مخصوص نشستوں پر دلت کمیونٹیزسے تعلق رکھنےوالےافراد کورکن نامزد کرکےاسمبلیوں میں پہنچایا ہے۔
پاکستان کی اقلیتوں کو عبادت گاہیں نہیں ان کے سیاسی اور انسانی حقوق دینے ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین میں ایسی شقیں موجود ہیں جو پاکستان کے شہریوں کے مابین مذہب کے نام پر تفریق کرتی ہیں اوران شقوں کی موجودگی میں پاکستان میں مساوی شہریت کی بنا پر حقوق کا حصول ممکن نہیں ہے۔
اگر حکومت پاکستان چاہتی ہے کہ اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور وہ ریاست پاکستان کو اون کریں تو انھیں اس میں سٹیک ہولڈر بنانا ہوگا اورپاکستان کی اقلیتیں سٹیک ہولڈرز اسی وقت بن سکتی ہیں جب انھیں مساوی شہری حقوق ملیں گے۔ مندر چرچ اور گورودواروں کی تعمیر اور تزئین وآرائش محض رسمی کاروائی ہے اس سے اقلیتوں کو کچھ فائدہ ہونے والا نہیں ہے۔
♦