ظفر آغا
جناب آپ امیتابھ بچن کے حالات سے بخوبی واقف ہیں۔ حضرت نے تالی بجائی، تھالی ڈھنڈھنائی، نریندر مودی کے کہنے پر دیا جلایا، سارے خاندان کے ساتھ بالکنی میں کھڑے ہو کر ‘گو کورونا، گو کورونا‘ کے نعرے لگائے، اور ہوا کیا! حضرت مع اہل و عیال کورونا کا شکار ہو کر اسپتال پہنچ گئے۔
ارے فلمی ہستیوں کو تو جانے دیجیے، بڑے بڑے بھگوان کے پجاری بھی کورونا وائرس سے نہیں بچ پا رہے ہیں۔ ذرا سوچیے، وہ بالاجی جن کے مندر میں ہزاروں افراد روز جا کر اپنی اپنی منتیں مانگتے ہیں، اس مندر کے سب سے بڑے پجاری کورونا کی گرفت میں ایسا آئے کہ بھگوان کو پیارے ہو گئے۔ الغرض یہ کورونا کی وبا ایسی ہے کہ جس کے آگے نہ ہی بادشاہ، پیادے اور نہ ہی بڑے بڑے بھگوان کی چلتی نظر آ رہی ہے۔ بس یوں کہیے کہ دنیا بھر میں اس وبا کا خطرہ بڑھتا ہی جا رہا ہے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر کرے تو کرے کیا۔ حقیقت یہی ہے کہ ہر کس و ناکس اس کے آگے لاچار ہے۔
ادھر کورونا کا یہ عالم ہے کہ کسی طرح تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی ہے، بھلے ہی ہمارے اخبار اور ٹی وی آئے دن اس وبا پر مودی جی کی فتح کا اعلان کر رہے ہوں۔ حالت یہ ہے کہ آئے دن یہ بڑھتی ہی جا رہی ہے، بلکہ حالات روز بہ روز بگڑتے ہی جا رہے ہیں۔ ابھی دو روز قبل اپنے آبائی وطن الٰہ آباد فون کیا تو پتہ چلا کہ وہاں بھی بہت تیزی سے پھیل رہا ہے۔ وہ اتر پردیش جو پہلے تقریباً ‘کورونا مُکت‘ سمجھا جاتا تھا، اس کی حالت اب تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ وہاں بھی لاک ڈاؤن پھر شروع ہو گیا ہے۔پڑوس میں بہار کی یہ حالت ہے کہ کورونا وارڈ میں مردے اور مریض ساتھ ساتھ لیٹے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
اُدھر حیدر آباد میں ایک صحافی سے گفتگو ہوئی تو وہ بتا رہے تھے کہ قبرستانوں اور شمشان گھاٹوں میں جگہ نہیں مل رہی ہے۔ خود دہلی میں پچھلے ہفتے دو تین دن اچھی اچھی خبریں آئیں، پھر معلوم ہوا کہ صاحب یہاں تو ہر چار میں ایک شخص کورونا کا شکار ہے۔ ہندوستان میں اس معاملے میں سچائی پوری طرح سامنے نہیں آ رہی ہے۔ دراصل میڈیا خریدا جا چکا ہے۔ ابھی کچھ روز قبل کیجریوال نے دہلی کے تمام اخباروں اور ٹی وی کو بڑے بڑے اشتہار دیئے، بس اس کے دوسرے روز دہلی کی حالت اخبار میں سدھر گئی، لیکن تیسرے دن پھر حالات بگڑ گئے۔ الغرض حالات بہت نازک ہیں اور دن بہ دن بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ غیر ملکی ذرائع کے مطابق اگلے سال کے شروع تک ہندوستان میں اس مرض میں دس کروڑ سے زیادہ افراد مبتلا ہو جائیں گے۔ ان حالات میں کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ کریں کیا، جائیں کہاں اور آگے ہوگا کیا!
اس سوال کا جواب کسی کے پاس نہیں ہے، بس صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں مل کر سنجیدگی سے اس وبا سے نمٹنے کی کوئی حکمت عملی بنائیں۔ لیکن افسوس کہ اب حکومتوں کو تو کورونا وبا کی فکر بالکل ختم سی ہو گئی ہے۔ مودی کی پوری طاقت اور توجہ تو راجستھان حکومت میں لگی ہے۔ ایسے میں کورونا کی کس کو فکر! بس ‘میڈیا مینجمنٹ‘ ہو رہا ہے۔ ٹی وی روز کورونا پر مودی کی فتح کے قصیدے گا رہا ہے۔ اخبار جھوٹ–سچ کر رہے ہیں۔ ریاستی حکومتیں روز اخباروں میں اپنے اپنے وزیر اعلیٰ کی فوٹو کے ساتھ کورونا پر ان کی کامیابی کے قصے بطور اشتہار چھاپ رہے ہیں۔ کسی کو انسان اور وبا کی فکر ہی نہیں ہے۔
ان حالات میں بس یہ سمجھ لیجیے کہ اگلے چار پانچ ماہ میں یہ بیماری ہندوستان میں قہر ڈھانے والی ہے۔ سرکاروں کے بارے میں عرض کیا کہ ان کو کوئی فکر ہی نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ حکومتیں بس اندھیرے میں ہاتھ پاؤں چلا رہی ہیں۔ مرکزی حکومت کو ہی لے لیجیے، شروع سے اب تک کوئی واضح اور بامعنی حکمت عملی اس سلسلے میں رہی ہی نہیں۔ جب مارچ کے مہینے میں کورونا کا قہر جاری ہوا تو خود وزیر اعظم نریندر مودی نے بنفس نفیس ٹی وی پر ملک سے خطاب کر لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔ پھر وہ لاک ڈاؤن انھوں نے دو بار اور بڑھایا۔ اس وقت حکمت عملی یہ تھی کہ اگر سب کچھ بند تو کورونا بھی بند۔ لیکن وہاں بقول میر تقی میر ‘الٹی ہو گئیں سب تدبیریں، کچھ نہ دوا نے کام کیا‘۔ لاک ڈاؤن کے باوجود کورونا وبا پھیلتی ہی گئی۔ اور تو اور، ملک کی معیشت تباہ و برباد ہو گئی۔ حالات اس قدر بگڑے کہ بھوکے پیاسے مزدور بڑے بڑے شہر چھوڑ کر اپنے وطن کی جانب پیدل کوچ کر گئے۔ ملک میں ہاہاکار مچ گئی۔ کام دھندے اور کاروبار چوپٹ ہو گئے۔ کروڑوں افراد بے روزگار ہو گئے۔ نہ کورونا تھما اور نہ ہی معیشت سنبھلی۔
اب مودی حکومت کو سمجھ میں آیا کہ لاک ڈاؤن تو بہت مہنگا پڑا۔ لیجیے، ایک بار پھر مودی جی بنفس نفیس ٹی وی پر ملک کو خطاب کرنے آئے۔ اب ‘اَن لاک‘ کا شور ہوا۔ نکلو مگر ماسک لگا کر، کام کرو مگر سوشل فاصلے کے ساتھ۔ صاف تھا کہ اب حکومت کو انسانوں کی جان سے زیادہ معیشت بچانے کی فکر تھی۔ اس نئی حکمت عملی کے تحت کورونا کو تو بڑھنا ہی بڑھنا تھا، سو وہ ہو رہا ہے۔ لیکن معیشت بھی نہ سدھری۔ یعنی جان سے بھی گئے اور مال سے بھی گئے۔ جی ہاں، اب پھر لاک ڈاؤن لگانے کی چہ می گوئیاں ہیں۔
ادھر معیشت ہے کہ روز بہ روز بگڑتی جا رہی ہے۔ ابھی ہم بازار گئے تو دیکھتے کیا ہیں کہ ہر دوسری تیسری دکان پر تالا لگا ہے۔ پوچھا یہ کیوں نہیں کھول رہے ہیں، تو پتہ چلا کہ بھائی کوئی خریدار ہی نہیں۔ دکان کھولیں تو بجلی پانی کا خرچ الگ۔ ایسے میں گھر بیٹھنے میں ہی عقلمندی ہے۔ لیکن مودی جی کی بلا سے۔ بی جے پی کو اطمینان ہے۔ اس کو یقین ہے ہندوستان بھوکا مرے یا کورونا میں جان سے جائے، آخر ووٹ تو وہ مودی جی کے اشارے پر ہی دے گا۔ بی جے پی سمجھ رہی ہے کہ مودی جی کے پاس انگریزوں کا ‘بانٹو اور راج کرو‘ کا پرانا نسخہ ہے۔ اس ملک میں ہندو–مسلم کروائیے اور راج کیجیے۔ اور پھر مودی جی ہر الیکشن سے قبل ایک دشمن ڈھونڈ ہی لیتے ہیں۔ سنہ 2019 میں پاکستان تھا، اب چین مل ہی گیا ہے۔ بھلے ہی ہندوستانی زمین چین کے قبضے میں ہو، ٹی وی پر تو ہندوستان کی فتح کے جشن من رہے ہیں۔ احمق ہندوستانی لاکھ بھوکا مرے، مودی جی کی قیادت میں ہندوستان کی فتح کے نام پر پھر ووٹ ڈالنے کو راضی ہو ہی جائے گا۔
ایسی سیاسی صورت حال میں بھلا کیونکر مودی جی یا بی جے پی کو کورونا وبا کی فکر ہو سکتی ہے۔ لوگ مرتے ہیں، مرتے رہیں۔ بے روزگاری سے بھکمری پھیلے تو پھیلے، فکر کاہے کی۔ بس یوں سمجھیے کہ ہندوستان پر آنے والے وقت میں موت اور بھوک کا منحوس سایہ جو برقرار رہے گا۔ ادھر بے حس حکومت کو کوئی فکر نہیں، ہندوستانی مرے یا جیے۔
روزنامہ قومی آواز، نئی دہلی