پائندخان خروٹی
براعظم يورپ کی تاریخ میں تحریک نشاۃ ثانیہ کی بدولت اہل یورپ دیومالائی قصوں وکہانیوں اور خرافات وتوہمات سے چھٹکارا پاکر جدید انداز میں پہلی مرتبہ انسانی عقل کی بالادستی، انسانیت کو اپنی معراج تک پہنچانے اور فطرت کی عبادت کرنے کی بجائے فطرت پر حکومت کرنے کی راہ پر گامزن ہوگئے۔ گویا سائنٹفک سوچ واپروچ اختیار کرنے سے وہ ایجادات اور انکشافات کی تخلیقی ڈگر پر چلے نکلے۔ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی ترقی نے ان کی اجتماعی زندگی کو آرام دہ، آسان تر اور تیز تر بنانے میں بھرپور مدد فراہم کی۔
یورپ کی مفید اور کارآمد ایجادات میں سے ایک پرنٹنگ مشین کی ایجاد ہے۔ جرمن سائنس دان گٹن برگ نے 1445 میں پرنٹنگ پریس ایجاد کر کے علم وشعور کو مضبوط اور مستحکم بنیادیں فراہم کیں۔ یورپ میں عوام کو علم وکتاب تک رسائی ملنے سے بادشاہت اور پاپائیت کو خطرات لاحق ہوئے۔ جب شعوروآگاہی کی ابھرتی ہوئی لہریں مسلم دنیا میں سلطنت عثمانیہ اور مغل بادشاہوں تک پہنچیں تو مسلمان واکداروں اور علمائے ہند نے جدید ٹیکنالوجی کو اپنانے کی بجائے ان کے خلاف اقدامات کئے گئے۔
عوامی بیداری کی یہی لہر مسلمان حکمرانوں اور انکے حامی مذہبی پیشواؤں کیلئے دم گھٹنے کا باعث بنی۔ سلطنت عثمانیہ کے سلطان بایزید ثانی نے پرنٹنگ پریس پرپابندی عائد کر دی اور ان کے ہمنوا مذہبی حلقوں نے خلیفہ کے حکم کو بجا لاتے ہوئے پرنٹنگ پریس کو فرنگیوں کی ایجاد کہہ کر حرام قرار دیا اور پرنٹنگ مشین سے کتاب چھپوانے والوں کیلئے موت کی سزا مقرر کی۔ اس زمانے کے ہزاروں کاتبین بھی ترک حکمرانوں کی جانب سے عاید کی گئیں پابندیوں اور شیخ الاسلام کے فتوے سے بہت خوش تھے۔
ذہن نشین رہے کہ پابندیاں اور فتوے عوامی فلاح و بہبود کی بجائے محض حکمران طبقہ کیلئے مددگار ثابت ہوئے۔ حالانکہ دوسری طرف سلاطین ترک اور مذہبی پیشواء کو اس وقت کے یورپ کے کافروں کے بنائے گئے ادویات، عیش وعشرت کے سامان، ٹیکسٹائل، گاڑیوں، توپوں اور بندوقوں جیسے دیگر جنگی ہتھیاروں وغیرہ پر کوئی پابندی نہیں لگائی اور نہ ہی کوئی اعتراض آج ہیں ۔
جب میں نے یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ صرف پرنٹنگ پریس اور گھڑیال فتووں اور فتنوں کے زد میں کیوں آئے؟ تو اس کے جواب میں ڈاکٹر ساجد علی لکھتے ہیں کہ “پرنٹنگ پریس کے خلاف ان کی دلیل یہ ہے کہ مقدس متون طباعت کے بعد اپنا تقدس کھو بیٹھیں گے، اور گھڑیال نصب کرنا موذن کے کام میں مداخلت ہوگی“۔ ڈاکٹر ساجد علی آگے جاکر ہندوستان کے مغل بادشاہ اکبر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ “مغل بادشاہ اکبر نے پرنٹنگ پریس لگانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ظاہر ہے اس وقت جو ٹائپ استعمال کیا جا رہا تھا وہ کتابت کے مقابلے میں دیدہ زیب نہیں تھا۔ شہنشاہ اکبر کا دوسرا اعتراض یہی تھا کہ اس سے کاتب بےروزگار ہو جائیں گے۔“(1) ۔
مسلم دنیا میں پرنٹنگ کی نئی ٹیکنالوجی پر یہ پابندی تقریباً ڈھائی سو سال تک برقرار رہی۔ اس طویل عرصہ میں دنیا بہت ہی آگے نکل گئی جبکہ سلطنت عثمانیہ میں تعلیم کی شرح صرف تین فیصد تک محدود رہی۔ سائنسی علوم وفنون پر مبنی تخلیق اور تحقیق کو دنیا کے بڑے مذاہب مثلاً ہندومت، عیسائیت اور اسلام کے مورخین اور لکھاریوں نے کس طرح بغیر اعتراف اور حوالہ کے مستعار لیے۔
علامہ سید علی عباس جلالپوری نے اپنی کتاب “اقبال کا علم کلام” میں مسلمانوں کے علاوہ ہندو مذہب اور عیسائیت کے ماننے والوں کو بھی موردِ الزام ٹھہراتے ہوئے لکھا ہے کہ “جدید علوم کو مسلمان کرنے کی یہ کوشش متکلمین اسلام تک محدود نہیں ہے۔ کلیسائے روم کے اہل علم انھیں بپتسمہ دینے کی فکر میں ہیں اور ہندو انھیں شدھ کرنا چاہتے ہیں۔ آردوندوگھوش نے گیتا کی ترجمانی جدید نظریہ ارتقاء کی روشنی میں کی ہے اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ویدانت سے ماخوذ ہے۔” (2)۔
آپ سب گواہ ہیں اور زیادہ عرصہ نہیں ہوا ہے کہ کہ شریعت اور طریقت کے وہ سرکردہ جنھوں نے ایک انسان کا عطیہ کردہ خون دوسرے انسان پر حرام قرار دیا تھا، ہر قسم کی کیمرا فوٹو کھینچنے کو منبرومحراب کے ذریعے لوگوں کو منع کرتے رہے، لاوڈ اسپیکر میں اذان دینے والے موذن کی آواز کو شیطانی آواز کے مترادف گردانے کی آواز کسی دیہات سے نہیں بلکہ پہلی بار متحدہ ہندوستان کے پایہ تخت دہلی سے اٹھی تھی۔
خواتین کا حکمران بننے اور ان کے ووٹ کو اسلام کے خلاف کفری عمل ٹھہرانا تو اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی، یہاں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلانے والے مولویوں کا منہ، جدہ انٹر نيشنل ایرپورٹ پر، کھول کر پولیو کے قطرے ڈالنے کے بعد داخلہ کی اجازت دی جاتی ہے۔
کراچی کے ایک بہت بڑے دینی عالم میمن صاحب نے اسلامی تاریخ میں پہلی دفعہ قرآن مجید میں جتنے حیوانات، پرندوں اور کیڑے مکوڑوں کا ذکر آیا ہے سب جانداروں کا رنگین البم یعنی “قرآن پاک کا تصویری البم” بنانے کا دعویٰ کیا ہے جس کی قیمت تقریباً گیارہ سو روپے رکھی ہے مگر شروعات میں مذکورہ مولانا باقاعدہ حوالہ دیکر لکھا ہے کہ تصویر کھینچنا اسلام میں منع ہے۔ پھر اپنی کتاب میں ہر جانور اور پرندے کی سر کو کمپیوٹر کے ذریعے مروڑ دیا ہے تاکہ حلال ہو جاہیں۔ البم میں شرم وحیاء کی پاسداری کرتے ہوئے خال خال جگہوں پر بلیک سلوشن ٹیپ سے بھی کام لیا گیا ہے۔
موجودہ کروناوائرس کے معاملے میں تو زندہ دلوں کے شہر تخت لاہور کے کئی جید علماء کرام پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہونے کے بعد ایک دن کے اندر اندر اپنے الفاظ واپس لینے کی ویڈیوز انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہیں۔ رہ گئی تاریخ میں مسلم تاریخ دانوں اور سائنسدانوں پر کفر کے فتوے، ڈھائے گئے مظالم، ملک بدری اور ذہنی اذیتیں دینے پر تو اب تک کئی کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں ہے، انقلاب ایران کے پاسداران نے صرف ایک سال پہلے عالمی فٹبال ورلڈ کپ کیلئے ایران ہی کی خواتین پر فٹبال گراونڈ میں جانے پر پیشگی پابندی لگا دی اور بعدازاں انٹرنیشنل اداروں کی جانب سے معاشی پابندیاں لگانے کے خوف وڈر سے جلدی ردبدل کرنا پڑا۔ اس سے کچھ عرصہ قبل سعودی عرب کی مرکزی حکومت نے پورے ملک میں خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی عائد کی۔
یہ سن کر آپ کو حیرانی ہوگی کہ آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی کئی مسلکوں اور فرقوں کی جانب سے مارکیٹ میں آنے والی کتابوں میں مذکورہ بالا فتووں کو شریعت اور جدید سائنس کے مطابق ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتے رہتے ہیں۔ گویا بیک وقت اپنے اسلاف کے سائنس مخالف فتوے اور ان کے صادر کئے گئے فتووں کے بالکل برعکس اپنے اعمال وافعال دونوں کو درست قرار دیا جاتا ہے۔ آپ دیکھ لیجیے دو متضاد چیزیں کیسے شریعت اور جدید سائنس کے مطابق ہوسکتی ہیں؟
ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے مدارس اور خانقاہوں سے بڑھ کر اسلام آباد کی یونیورسٹی میں بھی اسی ذہنیت کی نشاندہی کی ہے۔ ڈان انٹرنیشنل اخبار میں شائع ہونے والے اپنے ایک آرٹیکل میں ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے لکھا ہے کہ “سائنس دشمنی صرف ہماری کتابوں میں ہی نہیں ہے، بلکہ پاکستان کے کئی سائنس اور میتھس کے اساتذہ اپنے اپنے مضامین پر یقین نہیں رکھتے۔ چاہے اسکول کے اساتذہ ہوں یا یونیورسٹی کے، انہیں بس مطلوبہ ڈگریاں ہونے کی وجہ سے نوکری مل جاتی ہے، مگر تمام اساتذہ اس چیز سے متفق نہیں ہوتے جو پڑھانے کے انہیں پیسے دیے جاتے ہیں، یہاں تک کئی اساتذہ ان مضامین کو سمجھتے بھی نہیں۔ لہٰذا یہ حیران کن نہیں کہ بائیولوجی کے زیادہ تر پاکستانی اساتذہ یا تو جان کر انسانی ارتقاء کے موضوع پر بات نہیں کرتے، یا بات کرنے کی ہمت نہیں کر پاتے۔” (3) ۔
مسلمانوں کی سیاسی تاریخ کے افق پر تقریباً تیرہ سو برس تک صرف تین خاندان براجمان تھے۔ ان تینوں کے زوال کے اسباب اور حکمرانوں کے ڈھائے گئے مظالم پر بہت سے مسلم اور غیرمسلم اہل فکروقلم کی درجنوں مستند کتابیں موجود ہیں۔ مسلمانوں کے بیسیوں فرقوں کے درمیان بہت سے اختلافات پائے جاتے ہیں۔ اپنے فرقے کو ہر حوالے سے سچا اور دوسرے کو جھوٹا ثابت کرنے کی فرقہ وارانہ کاوشیں اب بھی جاری ساری ہیں۔ نئے مورخین اور محققین کیلئے کافی مواد اور ظلم کے قصے ایک دوسرے کے خلاف لکھنے سے ہی منظر عام پر آچکے ہیں۔
مگر مجھے یہ بات سمجھ نہیں آتی ہے کہ تمام مخالف فرقوں میں عباسی سلطنت کے سلاطين ہارون رشید اور المامون رشید کے دور میں اٹھنے والی فکری تحریک “معتزلہ” کی مخالفت پر سب میں مکمل اتفاق پایا جاتا ہے۔ حکمران اور مذہبی اکابرین تو معاشرے کے بالادست طبقہ کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس ضمن میں سوال یہ ہے کہ مذہب نے سیاست کو اپنے قابو میں رکھا ہے یا خود مذہب سیاست کے تابع ہو کر رہ گیا ہے؟۔
ڈاکٹر مبارک علی نے اس کا جواب یوں دیا ہے کہ” جب مذہب، سیاسی مفادات کو اخلاقی اور قانونی بنیادیں فراہم کر دیتا ہے تو پھر سیاسی مخالفوں کو اذیتیں دینا، قیدوبند میں رکھنا، اور قتل کرانا ثواب بن جاتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ ابتدائی عباسی دور میں روشن خیال دانشوروں کو زندیق اور صائی ومزدک کے پیروکار کہہ کر راستہ سے ہٹایا گیا۔ اسی صورت میں مذہب مکمل طور پر سیاست کے تابع رہا اور اس کی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالتا رہا۔ ” (4)۔
انٹرنیٹ پر موجود انٹرنیشنل لٹریچر کے علاوہ خطے کی سطح پر علامہ نیازفتح پوری، سرسید احمدخان، سید سبط حسن، علامہ سید علی عباس جلالپوری، ڈاکٹر مبارک علی، ارشد محمود بالخصوص بلوچی اور پشتو خلقی لٹریچر میں تو ایسی سینکڑوں مثالیں محققین اور مورخین کیلئے کتابی صورت میں دستیاب ہیں۔ ارتقاء دنیا میں ترقی اور تبدیلی کا ایک مسلسل عمل ہے اور ارتقائی مراحل کا درست تعین سائنٹفک طریقہ اختیار کرنے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔
ارتقاء کا کاروان تقریباً گیارہ ہزار سال کے عرصے پر محیط سفر طے کرنے کے بعد زراعت سے صنعت تک پہنچا اور سینکڑوں برس کے بعد اب ٹیکنالوجی سے ارٹیفیشل انٹیلیجنس اینڈ روبوٹیک تیکنالوجی کی جانب رواں دواں ہے۔ بدبختانہ مسلم ممالک میں سوائے ایک دو ممالک کے دنیا کے دنیا کے تین بڑے انقلابات یعنی زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب سے آج تک بھرپور استفادہ نہ کر سکے۔ مسلم ممالک میں ماضی کے حکمرانوں اور موجودہ حکمرانوں میں مجھے تو کوئی خاص فرق نظر نہیں آتا۔ معاشی اور سیاسی حوالے سے آج بھی دوسرے ترقی یافتہ ممالک کے دست نگر ہیں۔
مسلم ممالک بالخصوص عرب ممالک میں عرصہ دراز سے بیٹھا ہوا اونٹ مجھے کسی کروٹ اٹھتا ہوا نظر نہیں آتا۔ عوامی سطح پر بغاوت اور خونی انقلاب کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔ غربت، جنونیت، دہشت گردی، بیروزگاری اور ناخواندگی کی وجہ مسلم ممالک میں زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ بہرحال ماضی کے مسلمان حکمرانوں اور مذہبی پیشواؤں کی سائنس دشمنی کو بیان کرنے سے بہتر ہے کہ موجودہ حکمرانوں، پالیسی سازوں اور ماہرین کے فکری رہنمائی کریں۔ ماضی کو برا بھلا کہنے بہتر ہے اپنے لمحہ موجود یعنی حال کی نئی عقلی اور سائنسی بنیادیں رکھنے کی شعوری کوششیں کریں، بالادست طبقہ اور ان کے خوشامدی حامیوں کی حقیر اقلیت کی بجائے معاشرے کی عظیم اکثریت کے مفاد میں انسان دوست پالیسیاں وضع کریں۔
مسلم دنیا میں صدیوں سے جاری “دائروں کے سفر” کا فوری طور پر خاتمہ کر کے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کی پل پل بدلتی دنیا کے تقاضوں سے ہم دم اور ہم قدم رہنے کا نیا گُر آزمائیں۔ جی ہاں اندھی تقلید وتکرار کے بھنور سے زیردست طبقہ کو نکالنے کیلئے معتزلہ کے چند معتبر افکاروخيالات سے فکری رہنمائی بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ عقلمندی نہیں ہے کہ مسلمان ہمسایہ ممالک اور ساتھ رہنے والے فرقوں کی تباہی و بربادی کی خاطر اپنے عوام کو بھی کئی سیاسی اور معاشی مشکلات سے دوچار کر ڈالیں۔
سردست زندگی میں علم وشعور کی تازگی کو برقرار رکھنا تو اجتہاد، تحقیق، نیا سوال اٹھانے کی جرات اور تنقیدی شعور کا دریچہ کھولا رکھنے سے مشروط ہے۔ اب بھی اجتماعی تبدیلی کا وقت ہے ورنہ قیمتی وقت اور توانائی ہاتھ سے نکلنے کے بعد پھر آپ بھی محسن بھوپالی کی طرح یہی کہیں گے کہ “محسن ہمارے ساتھ عجب حادثہ ہوا، ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا“۔
حوالہ جات:۔
۔1۔ ڈاکٹر ساجد علی مقالہ بعنوان کیا سلاطین عثمانیہ نے پرنٹنگ پریس پر پابندی لگائی؟ ہم سب 2020
۔2۔علامہ سید علی عباس جلالپوری نے، اقبال کا علم کلام، ناشر تخلیقات لاہور، 2013، ص 14
۔3۔ڈاکٹر پرویز ہود بھائی، آرٹیکل بعنوان سائنس کی کتابوں میں سائنس دشمنی، ڈان انٹرنیشنل 2016
۔4۔ ڈاکٹر مبارک علی، تاريخ اور مذہبی تحریکیں، ناشر تاریخ پبلیکیشنز 2013،ص 110