بیرسٹرحمید باشانی
پاکستان میں چندبرس قبل تبدیلی ایک معروف اورمقبول عام نعرہ بن گیا تھا۔ یہ ایک سیاسی نعرہ تھا، جوزبان زدعام ہوگیا تھا۔ عموماً ایسے نعرے اقتدارتک پہچنے کےلیے لگائے جاتے ہیں۔ لیکن اس کیس میں تبدیلی کا نعرہ برسراقتدارآنے کے بعد بھی لگتا رہا، اوراب بھی کسی نہ کسی شکل میں لگتا ہے۔
تبدیلی کی بات کرنے والے وہ ساری باتیں کہتے تھے، جو عوام سننا چاہتے تھے۔ اس ملک میں عوام کی ایک بڑی تعداد برسہابرس سےغربت کی چکی میں پس رہی ہے۔ مختلف ادوارمیں مختلف روپ دھارکراقتدارمیں آنے والی حکمران اشرافیہ نے اپنے اپنےاندازمیں ان کی غربت کا ذکر کیا ۔ اس کا اعتراف کیا۔ اوراس کو ختم کرنے کے وعدے کیے ۔ لیکن سب اپنی اپنی باری لگا کریہ پھراپنی باری با امرمجبوری بیچ میں ادھوری چھوڑکررخصت ہوتے رہے۔یہ سلسلہ طویل عرصے سے چل رہا ہے۔ عوام کی غربت بڑھ رہی ہے، ان کی تنگ دستی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
بے روزگاری عوام کاایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ یہ مسئلہ ہرسیاسی جہدوجہد اورہرانتخابی مہم میں نمایاں رہا ہے۔اس ملک میں عوام برسہابرس سے سماجی ومعاشی ناانصافیوں کا شکار رہے ہیں۔ ہرانتخاب میں عوام کو سماجی انصاف مہیا کرنے کے وعدے ہوتے رہے۔ سماجی انصاف کےساتھ ساتھ معاشی انصاف سیاست دانوں کا پسندیدہ موضوع رہا ہے۔ چنانچہ ہرمنشورمیں معاشی انصاف کے فارمولے پیش ہوتے رہے۔ ہرتقریرکا نقطہ ماسکہ ، سماجی ومعاشی انصاف اورروزگاررہا۔ مگرہردورمیں اس ملک میں سماجی ومعاشی ناانصافیاں بڑھتی گئی، اور لاکھوں لوگوں کے روزگارکا خواب شرمندہ تعبیرنہ ہوا۔
کرپشن تیسری دنیا کے پسماندہ ممالک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ ہرنیاحکمران کرپشن کے خلاف ایک پروگرام لےکرآتا ہے، اورہرنئے حکمران کے دورمیں کرپشن پہلے سے کئی گنا زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ رشوت وسفارش کےخاتمے سے لے کرسستےانصاف کی فراہمی تک کتنے ہی وعدے ہیں، جواقتدارکےخواہش مند نہیں کرتے، مگرشاید ہی کوئی وعدہ ایفاہوا ہو۔
تبدیلی لانے کا سادہ زبان میں مطلب کیا ہے ؟ زندگی کے مختلف شعبوں میں اس کا الگ الگ مفہوم ہے۔ تعلیم کے شعبے میں تبدیلی کا مطلب یہ ہے کہ سب سے پہلے اس شعبے میں موجود خرابیوں پراتفاق ہو۔ پاکستان میں گزشتہ سترسال سےجونظام تعلیم رائج ہے وہ مثبت نتائج دینے میں ناکام رہا ہے۔ دنیا کے بیشترممالک میں گزشتہ سات دہائیوں کے دوران معیارتعلیم کئی گنا بہترہوا ہے۔ اوردن بدن بہتر ہوتا جا رہا ہے۔پاکستان ان محدودے چند ممالک میں شامل ہے، جہاں معیارتعلیم بہترہونے کے بجائے گرا ہے،اور زوال کا شکار ہوا ہے۔اس کی وجوہات میں نصاب تعلیم، درس وتدریس کا طریقہ کار، امتحانات کا نظام، زبان اورذریعہ تعلیم ہے۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ اگرمعیارتعلیم میں اضافہ مقصود ہے توسب سے پہلے نصاب تعلیم میں بنیادی نوعیت کی تبدیلی لانی ہو گی۔ پڑھنے اورپڑھانے کے طریقہ کارمیں تبدیلی لانی ہوگی۔فرسودہ امتحانی نظام کو بدلنا ہوگا۔ ذریعہ تعلیم پرنظرثانی کرنی ہوگی تاکہ بچے اپنی مادری ، علاقائی اورعالمی زبانوں کو ان کی عملی اہمیت اورافادیت کےمطابق سیکھ سکیں۔ یہ بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں ہیں، جن کے بغیرمثبت نتائج کی توقع فضول ہے۔
نظام تعلیم میں تبدیلی کا مطلب صرف معیار تعلیم میں ہی تبدیلی نہیں ہے۔ اس نظام کو اس طریقے سےاستوار کرنے کی ضرورت ہے کہ عام آدمی کے لیے تعلیم حاصل کرنے کے برابرمواقع مہیا ہوں۔ اسی طرح صحت کے شعبے میں تبدیلی کے اپنے تقاضے ہیں۔ اس میں صحت کے شعبے میں مطلوب افراد کی تعلیم و تربیت سے لیکر وسیع پیمانے پرآلات، جدید مشینری اورعمارتوں کی ضرورت ہے۔ یہ ضروریات پوری کرنے کے لیے مادی وسائل کی ضرورت ہے۔ وسائل کے لیے حکومتی پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ایسی پالیسی کی ضرورت ہے جس میں تعلیم و صحت کو ترجیح دی جائے۔یہ ترجیح اس بات کا تعین کرے گی کہ حکومت کس مد میں کتنے پیسے خرچ کرتی ہے۔اس فارمولے کا اطلاق زندگی کے ہرشعبے پرہوتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں کسی قسم کی سنجیدہ تبدیلی کے لیے وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔
یہ کوئی رازکی بات یا کوئی راکٹ سائنس نہیں ہے۔ پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی سیاسی پارٹی یا شخصیت اقتدار میں آنے کا خواب دیکھتی ہے تواسے علم ہوتا ہے، اورعلم ہونا چاہیے کہ اس ملک کے پاس وسائل کیا کیا ہیں، اوروسائل کہاں کہاں اورکیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہم اقتدارمیں آکراپنے وسائل میں کیسےاضافہ کریں گے، اوران وسائل کوکس طرح اپنے پیشروحکمرانوں سے مختلف اورمنصافانہ اندازمیں استعمال کریں گے۔ یہ سیاست کی اےبی سی ہے۔
بیشترکامیاب معاشروں اورملکوں میں سیاست دانوں اوراقتدار کے خواب دیکھنے والوں کواس کا علم ہوتا ہے۔ اس لیے وہ عوام سے کوئی وعدہ کرتے ہیں، تواعداد وشمارکی روشنی میں کرتے ہیں۔ وسائل کو سامنے رکھ کر اپنے منصوبے پیش کرتے ہیں۔ حقائق کو سامنے رکھ کر وعدے کرتے ہیں۔ اور عوام کو جان بوجھ کر سبز باغ نہیں دکھاتے، وہ عوام کو واضح طورپربتاتے ہیں کہ وہ کس طرح کا بجٹ پیش کریں گے، وسائل کہاں سے لائیں گےاور کس مد میں کیا خرچ کریں گے۔ اس طرح نہ تو عوام کو کوئی غلط فہمی یا جھوٹی آس پیدا ہوتی ہے اورنہ ہی سیاست دان وعدہ شکن قرارپاتے ہیں۔
ہمارے ہاں اس کےالٹ ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران ہمارے سیاست دان یوں ظاہرکرتے ہیں کہ گویا وہ ساری دنیا کے خزانوں کے اوپربیٹھے ہوئے ہیں۔ وہ پورے یقین اور اعتماد سے بتاتے ہیں کہ ان کے برسراقتدار آتے ہی عوام کے تمام مسائل جادوئی انداز میں حل ہونا شروع ہوجائیں گے۔ وہ عوام کی بے صبری کی نفسیات سے فائد ہ اٹھانے کے لیے ان کو مختصرمدت کی تاریخیں اور“ڈیڈلائین“بھی دیتے ہیں۔ اوریہاں تک کہہ دیتے ہیں کہ وہ کتنے مکانات تعمیر کریں گے، اور کتنی تعداد میں روزگار پیدا کریں گے۔اورجب وہ جیت کرآتےہیں، اورحقائق کا سامنا کرتے ہیں توعذر تراشی کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
ان کے پاس سب سے بڑاعذریہ ہوتا ہے کہ ہم مقروض اورغریب ہیں، اورہمارے پاس مطلوبہ وسائل ہی نہیں ہیں ، ملک دیوالیہ ہونے کے قریب ہے، ہمیں تو خالی خزانے ملے ہیں۔ ہمارے ہاتھ میں تو کچھ بھی نہیں، ہم مجبوراوربے بس ہیں،اس لیے ہم اپنے وعدے پورے کرنے سے قاصرہیں۔ جس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ انتخابات جیتنے سے پہلے حکمران طبقات ملکی وسائل کے بارے میں مکمل طورپرلاعلم تھے، یا وہ جان بوجھ کراقتدار کی خاطرعوام کو جھوٹے خواب دکھا رہے تھے۔
کس ملک کے اوپر کتنے قرضے ہیں۔ اس کے پاس کتنے وسائل ہیں۔وہ کس مد میں کیا خرچ کرتا ہے ؟ اس میں کوئی چیزرازیا خفیہ نہیں ہوتی۔یہ پبلک ریکارڈ کی معلومات ہیں، جن تک ہرخاص ورعام کورسائی ہوتی ہے۔اب یہ بات ماننے کی تونہیں کہ ایک سیاسی پارٹی اقتدار کے حصول کی جنگ میں فرنٹ لائن پرہے، اوراس کے لیڈروں کو یہ نہیں پتہ کہ ملک کے وسائل کیا کیا ہیں، اور اس وسائل سے ملک میں کیا کیا تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔
یہ جو کچھ عوام کے ساتھ گزشتہ سترسال سے ہو رہا ہے یہ ناگزیر نہیں ہے، یا عوام کا مقدر نہیں ہے۔ یہ ایک غلط عمل ہے، جس سے نکلنے کے کئی طریقے ہیں۔ اس سے نکلنے کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ بعض ترقی یافتہ ممالک کی طرزپرمختلف امیدواروں کے درمیان باقاعدہ انتخابی مباحثوں کا آغازکیا جائے۔ ان مباحثوں میں ان سے وسائل اورمسائل کے حوالے سےاعداد وشمارکی روشنی میں سوالات کیےجائیں۔ اس عمل کے دوران عوام یہ جان سکیں کہ ان کے رہنما کوئی دعوی یا وعدہ کس بنیاد پرکررہے ہیں، اوروہ ان کی خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کہاں سے لائیں گے۔
اس باب میں عوامی اخلاقیات اوراخلاقی معیار میں بہتری کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہماری اخلاقیات مسلسل روبہ زوال ہے۔ ہم جھوٹ بولنااوروعدہ خلافی کرناکوئی بری بات نہیں سمجھتے۔اگر ہم اپنے اخلاقی معیاراوراخلاقی تعلیم میں اتنی بہتری لا سکیں کہ عوامی سطح پر جھوٹ بولنا، وعدہ خلافی اوربے بنیاد دعوے کواخلاقی طورپراگرسنگین جرم تصورکیا جائے توعوام برسہا برس سے جس دھوکے کا شکار ہیں، اس سے ان کو چھٹکارہ مل سکتا ہے۔دوسری طرف ارباب اختیار کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ بقول شخصے ٹوٹے ہوئے وعدے کانچ کے ٹکڑوں کی طرح ہوتے ہیں، جووعدہ توڑنے والے کے ہاتھ زخمی اوراس کا امیج تباہ کردیتے ہیں۔
♦