حسن مجتبیٰ
ایک دبلا پتلا لیکن پھرتیلا قبول صورت نوجوان 125 ہنڈا موٹر سائیکل پر چاکیواڑہ لیاری سے شاہ یقیق (ٹھٹھہ) کو جانے والی بس سے ریسنگ کررہا ہے۔ اور کبھی اس بس کی کھڑکی پر “لیڈیز سیٹ” پر بیٹھی لڑکی کی سائیڈ پر موٹر سائیکل کو ٗغلط سائیڈ سے کاٹتے ہاتھ ہلا رہا ہے، کبھی اسے ایک پہیے پر چلانے کاکرتب نیشنل ہائی وے پر کررہا ہے۔ انڈین فلمی گانے “یہ دوستی ہم نہیں چھوڑیں گے” جیسے سین کا منظر لگتا ہے۔ لیکن یہ منظر فلم یا فلمی گانے کا نہیں۔ یہ ون125 موٹر سائیکل پر “ہیرو” نوجوان لیاری کی گلیوں کا رومیو عزیر بلوچ ہے اور بس میں شاہ یقیق کی زائر لڑکی اسکی مبینہ محبوبہ جسے وہ اپنی “ڈیٹ” بتاتا۔ اور اس “ڈیٹ” سے ملنے وہ اسی طرح موٹر سائیکل پر کرتب دکھاتا شاہ یقیق تک جاتا۔
نہ لیاری کی افشانی گلی سنگھو لین کے ساتھ والے سربازی محلے کے اس لڑکے اور نہ ہی لیاری والوں نے کبھی سوچا ہوگا اور نہ ہی کبھی تمام لیاری نے کہ انکی ایک گلی سے یہ لڑکا سردار عزیز بلوچ کہلا کر ملک گیر سطح کا ڈان بن کر “اتنی بڑی فلم” بن جائے گا کہ جو ملک کے کسی بھی بڑے کے گلے میں پڑ سکتی ہے یا ڈالی جاسکتی ہے۔
مگر یہ ملک کے بڑے تھے جنہوں نے یہ فلمیں لیاری والوں کے گلے میں ڈالی ہیں ایوب خان اور ہارونوں سے لیکر زرداری اور اب عمران خان تک۔ کس نے سوچا تھا کہ ۱۲۵ موٹر سائیکلوں کا جنون کی حد تک شوقین نوجوان فیض محمد یا “ماما فیضو” کا یہ بیٹا جس کا پتہ صرف لیاری کے ایک موٹر سائیکلوں کے ورکشاپ پر ملتا تھا جہاں وہ ون ٹوئنٹی فائیو موٹر سائیکل کی خوبیوں خرابیوں پر موٹر سائکل مستریوں سے زیادہ وذوق سے گھنٹوں بول سکتا تھا۔
عزیر سربازی ایک یار باش نوجوان جس کی ہر ایک کے ساتھ علیک سلیک ہوا کرتی۔ اسکا چھوٹا موٹا گلی کا دادا بننا تو بہت بعد کی بات ہے۔ وہ کہ جسکے باپ کو کبھی فیضو چرسی کہا جاتا تھا۔ کہ وہ چرس کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناکر علاقے میں بیچا کرتا۔ افشانی گلی والی مین سڑک پار غریب شاہ کا مزار ہے۔ جہاں یہ لوگ چرس کا وزن کرتے۔ افشانی گلی جہاں کبھی لیاری میں نوجوانوں کو منشیات کا عادی بنانے اور منشیات بیچنے والوں کیخلاف لیاری کے سیاسی اور سماجی کارکنوں نے لیاری نوجوان محاذ تنظیم کے پلیٹ فارم سے ایک زبردست تحریک چلائی تھی اور جس میں اس تحریک کا دبنگ رہنما واحد بلوچ قتل ہوگیا تھا۔
لیاری کے سنگھو لین میں اس کی یہ تاریک گلی “افشانی گلی” مجھے ایرانی بلوچستان کے قصبے افشان لے جاتی ہے جہاں سے بلوچ نسل کے لوگ نقل مکانی کر کر کرا چی کی لیاری کی اس گلی میں بھی آکر آباد ہوئے اور تبھی انکے آبائی علاقے کے پیچھے اس گلی کا نام افشانی گلی ہے۔ افشان ایرانی بلوچستان کے سیوستان میں ایک گاؤں ہے۔ افشان سے آنیوالے لوگوں میں دادل عرف داد محمد اور شیرک نام کے دو بچوں کا خاندان بھی تھا۔ یہ دو نوجوان شیرک اور دادل کسرتی ڈیل ڈول کے محنتی اور باکسر ٹائپ لوگ تھے ۔محنت مزدوری والے دیاڑی دار لوگ جو نئپیر روڈ پر برف فروخت کیا کرتے تھے۔
سندھ کے فاتح چار لیس نیپیئر کے نام کے پیچھے کراچی کے تاریخی چکلے کا نام رکھا گیا تھا۔ میرے خیال میں یہ ارباب نشاط والی خواتین یا جنسی ورکرز کی توہین تھی کہ سندھ پر قبضہ گیر کے نام پر یہ علاقہ کہلائے جو انگریز حکمرانوں نے کراچی بندرگاہ اور چھاؤنیوں کے قریبی محل وقوع کو نظر میں رکھتے ہوئے اپنے فوجیوں کی تفریح و تعیش کے خیال سے قائم کیا تھا۔ یہ نیپیئر بیرک بھی کہلاتیں تھیں۔ میں سوچ رہا ہوں اگر تمام اسٹیک ہولڈرز کو خوشی مہیا کرنا مقصود ہو تو اب چارلس نیپئر کے نام کی جگہ اس علاقے کا نام جام صادق علی روڈ رکھ اسکی اوائلی رونقیں بحال کی جائیں۔ لیکن سندہ اور ملک کے حکمرانوں میں اتنا اعلی ظرف کہاں۔
یہ علاقہ جو نیپئر بیرکس کہلاتا تھا۔ یہ بھی مرکزی کراچی یا کراچی سٹی میں نیپئر روڈ کا علاقہ ہی تھا جب جی ایم سید اور عبداللہ ہارون ،محمد علی جناح کا جلسہ کرتے ہوئے اسے یہاں لائے تھے۔ مجھے بلوچ تاریخ دان یوسف نسقندی نے بتایا تھا کہ و گرنہ اس سے پہلے جناح کو کراچی میں کوئی نہیں جاتا تھا۔ ہاں البتہ جی ایم سید اس زمانے میں اتنا مشہور تھا کہ اگر اسکے نام پر انتخابات میں کھمبا بھی کھڑا کیا جاتا تو وہ بھی جیت جاتا۔
لیاری سے لیکر نیپئر روڈ اور کراچی کے مرکزی علاقوں تک ہارون خاندان کا انتہائی اثر ورسوخ بلکہ کنٹرول تھا۔ عبداللہ ہارون کا تعلق لیاری کے علاقے کھڈے سے تھا۔ اور اسکے بیٹے محمود ہارون، یوسف ہارون، سعید ہارون ( جن کو فلمیں بنانے اور انکی تقسیم کا زیادہ شوق تھا اور یہ لیفٹ کے لوگوں اور فنکاروں اور فلم لائین کے لوگوں سے اسکی کافی دوستی تھی، سعید ہارون ،حمید ہارون اور عبداللہ ہارون کا والد تھا اور عبداللہ ہارون کا چھوٹا بیٹا تھا) چھائے ہوئے تھے۔
جب یہ لیاری کے دونوں تنومند بھائی شیرک اور دادل نیپئر روڈ پر برف بیچتے تھے تو ان دنوں پر چکلے پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک غنڈے اور دلال کی بڑی دہشت بیٹھی ہوئی تھی۔ پھر اسکا ٹاکرا شیرک اور دادل ان دونوں بھائیوں کے ساتھ ہوگیا۔ بس پھر ان دونوں بھائیوں نے اس دلال اور غنڈے کی بڑی پٹائی لگائی۔ اور لیاری کے ان دو بلوچ بھائیوں کے ہاتھوں بری طرح پٹنے کے بعد اس کی دہشت اور نیپئر کے علاقے پر داداگیری کا خاتمہ کردیا اور پھر شیرک اور دادل کی داداگیری شروع ہوئی۔
یہ 1960 کی دہائی کے اوائل کی بات ہے جب ہارون خاندان نے لیاری کے ان دو دادا بھائیوں شیرک اور دادل پر ہاتھ رکھا۔ انکے سیاسی مخالفین کے جلسے تتر کرنے یہاں تک کہ جلسہ گاہوں میں بھرے مجمعوں میں سانپ چھوڑے جانے جیسے ان کے طریقہ ہائے واردات نے شیرک اور دادل کی علاقے میں دہشت بٹھا دی ۔ ان دنوں کراچی سمیت ملک پر فلموں کا راج تھا اور کراچی کے سینماؤں پر لیاری کے داداؤں کا سکہ چلتا تھا۔ دادل اور شیرک نے ا پنا گینگ بنالی اور اس میں کراچی کے سینماؤں کے نامی گرامی دادا بھی اپنے ساتھ ملا لئے۔
سنہ 1962 میں آمر ایوب خان نے صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا تو فاطمہ جناح اس کے خلاف انتخابات لڑنے کو ڈٹ گئیں۔ ہارون ایوب خان کی حمایت میں تھے۔ کراچی کے اکثریتی عوام اور خاص طور اردو بولنے والی آبادی نے فاطمہ جناح کا ساتھ دیا۔ ان انتخابات میں کراچی سے گوہر ایوب کھڑا ہوا تھا جو کہ خود باپ کے بل بوتے پر ایک غنڈہ تھا۔۔ تو ہارونوں نے دادل اور شیرک کو گوہر ایوب سے سے متعارف کروایا۔
ملک میں فاطمہ جناح کے خلاف ہر جگہ دھاندلی کی طرح کراچی میں بھی دھاندلی ہوئی اور گوہر ایوب کے نام فتح کے جلوس نے لالوکھیت سمیت مہاجر آبادیوں پر حملے کئے اور اس میں شیرک اور دادل اور ان کے گینگ کو گوہر ایو ب کو “خدمات” حاصل تھیں۔ اب یہ شیرک و دادل فلمی بدمعاشوں کی طرح برآمد ہوئے۔ کھلی جیپ تین ہندسوں کی نمبر پلیٹ والی یا ایرانی بلوچستان کا مہرستان کی نام کی پلیٹ اور اسٹین گن ۔ اور یہ لوگ لیاری سے لیکر صدر تک، بندرگاہ تک بھتہ وصول کرنے لگے۔ کیا جہانگیر روڈ کیا چاکیواڑہ ہر جگہ انکی دہشت بیٹھی ہوئی تھی۔
(جاری ہے)
Pingback: لیاری کے ڈان : شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک۔قسط سوم – Niazamana