ماہرین تعلیم اور سول سوسائٹی نے پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بُک بورڈ کے طرف سے 100 نصابی کتابوں پر پابندی کے فیصلے کو منفی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان عمران خان کے دور حکومت میں فاشزم کے راستے کی طرف بڑھ رہا ہے۔
واضح رہے کہ بورڈ کا استدلال ہے کہ قابل اعتراض مواد کے پائے جانے پر ان کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ بورڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر رائے منظور حسین ناصر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”اٹھارویں ترمیم کے بعد جب تعلیم ونصاب کا شعبہ مکمل طور پر صوبے کے ماتحت آیا تو 2015ء میں حکومت پنجاب نے ایک قانون بنایا جس کے تحت اگر کسی کتاب میں غیر اخلاقی، پاکستان مخالف، مذہب مخالف یا نظم ونسق کے خلاف مواد ہو تو اس پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔
ان سو کتابوں میں توہین صحابہ کے حوالے سے مواد ہے جب کہ علامہ اقبال اور قائد اعظم کی تواریخ پیدائش غلط ہیں۔ تین جون کے پلان کے بارے میں کہا گیا کہ یہ انگریزوں نے دیا تھا جب کہ مردم شماری کے حوالے سے لکھا گیا کہ وہ دسمبر دو ہزار چھ میں ہوئی تھی۔ اقوال زریں میں گاندھی کا قول لکھ دیا گیا۔ کیا مسلمانوں میں کوئی اچھا رہنما نہیں تھا۔ کیا اقوال علامہ اقبال اور قائد اعظم کے نہیں لیے جا سکتے تھے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کچھ کتابوں میں اخلاقیات سے گرے ہوئے اسباق بھی ہیں، جیسا کہ ایک لڑکی باپ کو خط لکھتی ہے کہ میرا بوائے فرینڈ ہے تو تم روک نہیں سکتے۔ ہم نے 31 ناشروں کی 100 کتابوں پرپابندی لگائی ہے، جس میں آکسفورڈ، کیمبرج اور ٹاپ پبلسٹی بھی شامل ہیں۔
کیا مزید کتابوں پر بھی پابندی لگ سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب پر بورڈ کے سربراہ نے کہا، ”کم از کم 30 کمیٹیاں 10 ہزار کتابوں کا جائزہ لے رہی ہیں۔ ان کتابوں میں تاریخ، اردو، انگریزی، سوشل سائنسز اور دوسری کتب شامل ہیں، اگر ان کتابوں میں بھی قابل اعتراض مواد ہوا تو ایکشن لیا جائے گا‘‘۔
انہوں نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ کچھ کتابیں نظام تولید کے مضمون کی وجہ سے پابندی کی زد میں آئی ہیں: ”ہم نے متنازعہ امور کو نہیں چھیڑا ہے بلکہ ان کتب پر پابندی لگائی ہے، جنہوں نے قانون میں دیے گئے پانچ شرائط کی پابندی نہیں کی‘‘۔
ناقدین اس فیصلے کو تنقیدی سوچ کا گلہ گھونٹنے کا ایک حربہ قرار دے رہے ہیں اور حکومت پر الزام لگا رہے ہیں کہ وہ اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لیے فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کر رہی ہے۔سعادت حسن منٹو نے شاید اسی موقع پر لکھا تھا کہ “یہ لوگ جو اپنے گھروں میں نظام درست نہیں کر سکتے، یہ لوگ جن کا کریکٹر بے حد پست ہوتا ہے، سیاست کے میدان میں اپنے وطن کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا سبق دینے کے لیے نکلتے ہیں۔۔۔ کس قدر مضحکہ خیز چیز ہے۔۔۔”۔سوشل میڈیا پر مطالبہ کیا جارہا ہے کہ حکومت کو فی الفور سعادت حسن منٹو کے فحش افسانوں کا نوٹس لینا چاہیے اور ان پر پابندی لگانے کا اعلان کرے
پاکستانی معاشرے پر گہری نظر رکھنے والے معروف دانشور ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کا کہنا ہے کہ عمران خان کی حکومت نے دقیانوسی سوچ میں جنرل ضیاء کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ انہوں نے اس فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”یہ پابندی اس بات کی عکاس ہے کہ ملک پی ٹی آئی کے دور حکومت میں فاشزم کے راستے پر چل پڑا ہے۔ یہ حکومت گڈ گورننس نہیں دکھا سکی تو اب یہ اندھا دھند طریقے سے ہر اس چیز کو نشانہ بنارہی ہے، جو ان کے ریاست مدینہ والے بیانیے کی راہ میں رکاوٹ ہے‘‘۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ او لیول اور اے لیول کا نصاب ملک میں واحد نصاب ہے، جس میں کسی حد تک تنقیدی سوچ اور حقیقی تعلیم دینے کی صلاحیت ہے: ”اب یہ دیکھنا ہے کہ ان کو بھی وہ ہی نصاب، کتب اور طریقہ امتحان دیا جاتا ہے، جو مدرسے میں چل رہا ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو حکومت پر منافقت کا الزام لگے گا اور اگر درحقیقت ایسا ہوتا ہے تو پھر ہمارا نظام تعلیم مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا‘‘۔
گفٹ یونیورسٹی گوجرانوالہ سے وابستہ ممتاز ماہر تعلیم ڈاکٹر آثر اجمل کا کہنا ہے کہ اس اقدام کو ملک کی مجموعی صورت حال کے بغیر سمجھنا مشکل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان علمی اعتبار سے ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ ملک میں اس وقت ایسی قوتیں ہیں، جو ہر طرح کی تنقیدی، فکری اور تخلیقی سوچ کا گلہ گھونٹنا چاہتی ہیں اور ہر اس نظریے کو رد کرتی ہیں جو ان کے بیانیے کے مطابق نہیں ہے۔ جب کہ ایسی بھی قوتیں ہیں جو اس کے برعکس سوچتی ہیں اور وہ روشن خیالی اور رواداری کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت میں دونوں طرح کے عناصر موجود ہیں تو ایک طرف یہ حکومت مندر بنانے کی بات کرتی ہے، جس سے اس کا دنیا میں اچھا تاثر جاتا ہے۔ دوسری طرف یہ کسی بیورکریٹ کو یہ اجازت دے دیتی ہے کہ وہ کتابوں پر پابندیاں لگائے۔ تو پی ٹی آئی دونوں طرف کے عناصر کو خوش رکھنا چاہتی ہے‘‘۔
کتابوں پر پابندی کے حوالے سے تاریخ دان اور مصنف ڈاکٹر مبارک علی کا کہنا تھا کہ ‘لوگوں کو خود سے اس بات کا فیصلہ کرنے کا حق ہونا چاہیے کہ وہ کسی کتاب کو پڑھیں یا نہ پڑھیں یا مسترد کر دیں۔ کسی کتاب پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ قانون میں استعمال ہونے والی مختلف اصطلاحات ایسی ہیں جن کی تعریف نہیں کی گئی اور نہ ہی کی جا سکتی ہے۔ اس طرح ان کا استعمال اپنے من پسند نتائج حاصل کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے۔
ڈاکٹر مبارک کا کہنا تھا کہ کتابوں پر پابندی سے پاکستان میں تخلیق کا عمل رک جائے گا جو پہلے ہی مسائل کا شکار تھا اور لوگ کتابیں نہیں لکھ رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ ’یہ بنیادی طور پر نوجوان نسل کو جدید اور ترقی پسند نوعیت کا لٹریچر پڑھنے سے روکنے کی کوشش ہے۔ کیا یہ چاہتے ہیں کہ وہ صرف افسانوی کتابیں پڑھیں۔‘
مصنفہ اور ڈرامہ نگار آمنہ مفتی کا بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی نیا لٹریچر تو ویسے بھی تخلیق نہیں ہو رہا۔ ’تو یہ کس کو ڈرانا چاہتے ہیں؟ یہ بنیادی طور پر ڈیجیٹل سپیس سے خوفزدہ ہیں اور اس کو قابو میں کرنا چاہتے ہیں‘۔
DW/BBC/web desk