ترک صدر رجب طیب ایردوآن سیاسی فائدےکے لیے ہایاصوفیا کو مسجد میں بدلنا چاہتے ہیں جب کہ کمال اتا ترک نے اس عمارت کو عجائب گھر بنا دیا تھا تاکہ یہ معاملہ مذہبی تنازعے کا باعث نہ بنے۔
ترک شہر استنبول میں واقع ہایا صوفیا کی عمارت دنیا کے قدیم ترین گرجا گھروں میں سے ایک تھی، جسے سلطنتِ عثمانیہ میں مسجد میں تبدیل کر دیا گیا۔ جدید ترکی کے بانی کمال اتا ترک نے تاہم اسے عجائب گھر میں تبدیل کر کے ایک طویل عرصے سے مسلمانوں اور مسیحیوں میں اس مقام سے متعلق تلخی کا خاتمہ کر دیا۔ اب ترک صدر رجب طیب ایردوآن ہایا صوفیا کو ایک مرتبہ پھر مسجد میں بدل کر سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تاہم انہیں اس سلسلے میں شدید سماجی مزاحمت کا سامنا ہے۔
ہایا صوفیا استنبول، بلکہ ترکی بھر میں سیاحوں کی آمد و رفت کے اعتبار سے اہم ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ ہر برس لاکھوں لوگ اس عظیم الشان عمارت کا رخ کرتے ہیں۔ یہ مقام عالمی ادارہ برائے ثقافت یونیسکو کی بین الاقوامی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے۔ تاہم یہ عمارت فقط فن تعمیر ہی کا شاہ کار نہیں بلکہ ایک سیاسی علامت بھی ہے۔ چھٹی صدی میں بازنطینی بادشاہ جسٹینین نے اسے تعمیر کیا جب کہ پندرہویں صدی میں عثمانیہ دور کے فاتح سلطان محمد ثانی نے قسطنطنیہ کی فتح کے بعد اس کیتھیڈرل کو مسجد میں تبدیل کر دیا۔
ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتا ترک نے جدید ترکی کے سیکولر تشخص کے لیے 1935 ء میں اس مقام کو میوزم کا درجہ دے دیا۔
اب لیکن موجودہ ترک صدر رجب طیب ایردوآن اسنتبول کے مرکز میں ضلع فتح میں قائم اس عمارت کو مسجد میں بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ ایردوآن چاہتے ہیں کہ اس طرح ترکی میں مسلم قوم پرست ووٹروں کی ہمدردیاں حاصل کریں۔ ہایا صوفیا کو عجائب گھر سے مسجد میں بدلنے کے درپردہ ایردوآن کا خیال یہ ہے کہ یہ مقام مسیحیوں کے زیرقبضہ قسطنطنیہ پر سلطنت عثمانیہ کی فتح اور مسلم دنیا کی برتری کا اشارہ دیتا ہے۔
مسجدکےخواب کی تعبیر
ایردوآن جسٹس اینڈ ڈیویلپمنٹ پارٹی کے سربراہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ کسی طرح مصطفیٰ کمال اتاترک کے فیصلے کو الٹ کر ہایا صوفیا کو میوزیم سے دوبارہ مسجد میں بدل دیا جائے۔ ترکی میں عوامی سطح پر یہ بحث کافی عرصے سے جاری تھی تاہم اب یوں لگتا ہے کہ جیسے اس مقام کی میوزیم سے مسجد میں تبدیلی کا منصوبہ واضح شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔
جمعرات کے روز ترکی کی اعلیٰ ترین انتظامی عدالت نے ہایا صوفیا کی میوزیم سے مسجد میں تبدیلی کے قانونی یا غیرقانونی ہونے سے متعلق ایک درخواست پر سماعت کی۔ یہ عدالت اب اپنا فیصلہ پندرہ روز بعد سنانے والی ہے۔
ایردوآن کی جماعت اے کے پی جماعت کے اس منصوبے کے لیے قوم پرست بیانیے کا سہارا لے رہی ہے۔ اس جماعت کے نائب چیئرمین نعمان کرتلومس نے اپنے ایک بیان میں کہا، “ہایا صوفیا ہماری جغرافیائی ملکیت ہے۔ وہ جو تلوار کے زور پر کسی علاقے کا قبضہ حاصل کرتے ہیں، ملکیتی حقوق کے حامل بھی ہوتے ہیں۔ ہایا صوفیا ہمارے ہاتھوں میں ہے۔“
حکمران جماعت کو امید ہے کہ وہ جلد ہی اپنے اس منصوبے پر عملدرآمد کی عدالتی منظوری حاصل کر لے گی۔ پیر کے روز قسطنطنیہ پر قبضے کی 567ویں سال گرہ کے موقعے پر اے کے پی جماعت نے ایک امام کو اجازت دی کہ وہ ہایا صوفیا میں قرآنی آیات کی تلاوت کریں۔ اس واقعے کے بعد عوامی سطح پر یہ افواہیں گردش کرنے لگیں کہ کیا اس سلسلے میں فیصلہ عدالتی حکم نامے کے اجرا سے پہلے ہی ہو چکا ہے؟
تفریق کاعلامتی عمل
ایردوآن کے اس اقدام کے درپردہ اے کے پی جماعت کے لیے سوئنگ ووٹروں کی حمایت کے حصول کی خواہش ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں ایردوآن کی جانب سے متعدد ایسے بیانات سامنے آئے ہیں، جس میں مسلم قوم پرستی کے جذبات غالب تھے۔ تاہم ایسا نہیں کہ ایردوآن کے سامنے مزاحمت موجود نہیں۔ مشرقی ارتھوڈاکس چرچ کے سربراہ پیٹریاخ برتھولومیو اول نے ہایا صوفیا کو مسجد میں تبدیل کرنے کے منصوبے کی شدید مخالفت کی ہے۔ اسنتبول میں ایک چرچ سروس کے دوران انہوں نے ہایا صوفیا کو انسانی تہذیب کی ایک نہایت اہم تاریخی عمارت قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ فقط ایک ملک کی ملکیتی عمارت نہیں ہے بلکہ انسانیت کی ملکیت ہے۔
استنبول میں یونانی نژاد ترک شہریوں کی فیڈریشن کے سربراہ نکولس اوزولو نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ہایا صوفیا کی عمارت اب ایک سیاسی معاملہ بن چکی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہایا صوفیا مذاہب اور تہذیبوں کے درمیان آزادی کا استعارہ ہے۔ “ایسے میں آپ ہایا صوفیا پر تلوار کے ذریعے قبضے کی بیانات سن رہے ہیں۔ یہ ہمارے معاشرے کے لیے نہایت تشویش کا باعث ہونا چاہیے۔“۔
DW.com