ارشد بٹ
ایک پیج کی صداوں سے پیچھا چھوٹنے کی چیخیں سنائی دے رہی ہیں۔ یہاں تک کہ وزیر اعظم عمران خان کوبھی مائنس ون فارمولے کا ذکر کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ پس پردہ سر گرم قوتیں اپنے اورنیازی سرکار کےکردہ یا نا کردہ گناہوں کا بوجھ کیونکر اٹھائیں۔ اس لئے بد بو پھیلاتےپیج سے آہستہ آہستہ کھسک جانے میں ہی عافیت جانی۔ مگر عوام اتنے بھی نادان نہیں کہ گذشتہ بیس ماہ سے حکمرانی کی بساط پر کھیلنےوالے کھیلاڑیوں اور کھیل سے بے خبر ہوں۔
عوام کیسے تسلیم کر لیں گے کہ مقتدرہ قوتیں ملک کے دگرگوں معاشی حالات، سی پیک کے پہلے سے جاری منصوبوں میں سست روی اور نئے منصوبے شروع کرنے میں رکاوٹوں، مہنگائی اور بے روزگاری کے سیلاب،غربت میں اضافہ اور کرونا وائرس وبا کے خلاف موثر اقدامات اٹھانے سے گریز کی پالیسی میں حکمرانوں کی ساجھے دار نہیں رہی۔ انتقامی سیاست کو پروان چڑھاکر سیاسی عدم استحکام اور انتشار پیدا کرکے ملکی حالات خراب سے خراب تر کرنے میں کس کس کا ہاتھ ہے، سب ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی کی پشت پناہ قوتیں اپنا دامن جھٹک کر معاشی اور سیاسی بحران کو بڑھانے کے عمل سے بری ذمہ قرار پائیں۔ موجودہ بحرانی حالات کے ذمہ دار ہر کردار کا رول عوام کے ذہنوں میں منقش ہے اور ابھی مٹا نہیں۔
پی ٹی آئی حکومت کے دو سال مکمل ہونے پر سب سے اہم سوال یہ کہ اس عرصہ میں حکومت نے کیا ڈلیور کیا۔ ابھی تک حکومت کی کوئی سمت اورحکمت عملی دکھائی نہیں دیتی۔ ماسوائے کرپشن کے نام پر سیاسی مخالفین کو ختم کر کے آمرانہ طرز حکمرانی کی بنیاد ڈالی جائے،یا پھر آئین میں طے شدہ صوبائی خودمختاری کو متنازعہ بنا کر نئےسیاسی انتشار کے در کھولنے کی حماقت۔ بری گورننس اور صفر کارکردگی کے علاوہ حکمرانوں کی نا اہلی اور قابلیت کا فقدان جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ حکمرانوں میں فہم و فراست نام کی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
عوام بڑھتی ہوئی غربت، معاشی پسماندگی، مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں پریشان حال اور حکومت سے نالاں ہیں ۔ تبدیلی سرکار کے جھوٹے نعروں کی قلعی کھل چکی اور عوامی خوشحالی کے خواب بکھر تے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ بجٹ میں غریب عوام کے لئے معاشی ریلیف فراہم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں ہے۔ اب تو کپتان کے پر زور حامی اینکر اور صحافی بھی چیخ چیخ کر کپتان اور حکومت کی نااہلی اور کارکردگی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ لگتا ہے اشارہ پاتے ہی کپتان کے حامی اینکروں اور صحافیوں نے حکومت اور وزیر اعظم عمران خان کی کارکردگی پر شدید تنقید شروع کر کے حکومت کی گرتی دیوار کو دھکے دینے شروع کر دئے ہیں۔
ہوا کے رخ کو بھانپتے ہوئے حکمران جماعت کے متعد اراکین پارلیمنٹ بھی حکومت کی کارکردگی پر کھل کر تنقید کرنے لگے۔ حکمران اتحادی جماعتوں کی صفوں میں کھلبلی دیدنی ہے۔ باخبر صحافیوں کا کہنا ہے کہ مفاد پرستوں کا بھان متی کا حکومتی اتحاد کسی وقت بھی پارہ پارہ ہونے کے حالات پیدا ہونے شروع ہو چکے ہیں۔ اس میں شک کی گنجائش نہیں کہ انجانے سگنل پر چلنے والے حکومتی اتحادی پانی کے بہاو کے ساتھ ہی بہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ فضا میں تبدیلی کا ارتعاش محسوس کرتے ہوئے پارلیمنٹ میں اپوزیشن جماعتیں بھی سگنل موصول کرنے لگی ہیں۔ پی پی پی اور ن لیگ کا حکومت کے خلاف تیز ترار سیاسی بیانیہ اور انکی سیاسی سرگرمیاں بھی ہواوں کے بدلتے رخ کی نشاندہی کرتی ہیں۔
وزیر اعظم عمران خان کی پارلیمنٹیرینز کو دیے گئے عشائیہ اور پارلیمنٹ میں تقاریر اور انکا اکھڑا اکھڑا لہجہ بھی بدلتی رتوں کی جانب اشارہ ہے ۔ وزیر اعظم کی ذہنی پریشانی اور انتشار قابل غور، میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں کہنے کے ایک دن بعد اپنی طرف اشارہ کر کے مائنس ون کا ذکر کرنا اور یہ کہنا کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ میری کرسی بہت مضبوط ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عدم تحفظ کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہیں شائد یہ احساس ہوچکا ہے کہ مانگے تانگے کے پارلیمانی لوٹے اپنے اصل کی طرف لوٹنے کے لئے پر تولنے لگےہیں۔
وزیر اعظم کی نینداڑانے کے لئے کیا یہ ہی کافی نہیں کہ وفاقی کابینہ اور اراکین پارلیمنٹ پر انکی گرفت دن بدن کمزور پڑتی جا رہی ہے اور اتحادی جماعتیں آنکھیں چرانے لگی ہیں۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کی مذکورہ تقریریں ایک جانے والے وزیر اعظم کی ذہنی کیفیت کی ترجمانی کرتی ہیں۔
حالات بڑی تیزی سے تغیر پذیر ہیں ۔ یہ کہنا قبل از وقت کہ حالات کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ مگر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ عمران حکومت جس ڈھنگ سے چلا ئی جاتی رہی ہے اب ویسے نہیں چل سکتی۔ حکومت مزید کتنا عرصہ نکالے گی جب کہ عوام نالاں، کابینہ بے قابو، اراکین پارلیمنٹ ناراض، حکومتی اتحادی جماعتیں نئی راہوں کی متلاشی ، اپوزیشن ٹف ٹائم دینے کو تیار، اورایک پیج فرسودہ اور سرانڈ زدہ ہو چکا۔ حالات کا رخ تو یہ ہی بتا رہا ہے کہ عمران حکومت کے زوال کی گنتی شروع ہو چکی ہے۔
♦