رضوان عبدالرحمٰن عبداللہ
جانے قدرت کی کیا پوشیدہ مصلحت تھی کہ اس نے چند لمحوں میں ہی تین سالہ عیاد کو کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و ستم کی طویل داستان سے آگاہ کر دیا۔ معصومیت اور لطافت کے پیکر اس ننھے کی عمر تو نانا کے گرد بیٹھ کر ان سے کہانیاں سننے کی تھی مگر آج اس سے، اس کے نانا پر بیتی گئی بربریت کا ماجرا سنا جارہا ہے۔
عیاد جہانگیر کو معلوم ہے کہ اس کو بسکٹ اور چاکلیٹ سے پھسلانے والوں نے ہی ” ٹھک ٹھک گولیاں چلا کر اس کے بڑے پاپا کی جان لی“۔ وہ تو نانا کو خون میں لت پت کرنے والوں کی طرف بھی پتھر آٹھا کر لپکا تھا، پھر شاید اس کو دنیا کے تمام پتھر اس قتل کے شریک جرم سات ارب 70 کروڑ آبادی کی خاموشی توڑنے کے لئے ناکافی نظر آئے۔
عیاد کے نانا کے قاتل جو اپنی اس سفاکیت پر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے پرڈھول پیٹتے نظر آرہے ہیں، ان کا اصل امتحان تو یہ تھا کہ وہ انصاف کے ذریعے عیاد کے ذہن پر ثبت ان خونی ثبوت کو مٹا کر دکھاتے! پر یہاں پربھی قابضین اپنی ازلی بزدلی دکھا گئے۔
اب عیاد ضرور سوچے گا کہ اگر آزادی اتنی ہی بری شے ہے تو دنیا کے باقی ملکوں کے باسیوں کو اس سے محفوظ کیوں نہیں رکھا جاتا! جس کا جواب خوف، بے یقینی اور مایوسی کی اسی فضا میں پنہاں ہیں۔
پہلے تو عیاد اپنے نانا کے قتل میں 1947 میں قبائلی دستے بھیج کر پہل کرنے والوں کو شریک کرے گا جن کی وجہ سے مہاراجہ ہری سنگھ ریاست کشمیر کو آزاد رکھنے کے فیصلے کے بعد ہندوستان کے ساتھ فوری الحاق کرنے پر مجبور ہوا۔ آج یہی قوت کشمیرکے ایک تہائی علاقے کو بغل میں دبا کر بقیہ دو تہائی علاقوں کو نعروں کی مد میں اپنی ملکیت گردانتی ہے۔
معصوم عیاد تو کشمیری عوام کو حق خودارادیت دلانے والوں کی ان “چالوں” کو بھی مورد الزام ٹھہرائے گا، جن کا سرکاری موقف تو کشمیر کے مسئلہ کو اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کا ہوتا ہے مگر پس پردہ مذہبی حلقوں کو استعمال کر کے گاہے بگاہے ان کے لئے سامان خفت پیدا کرتے ہیں۔
اور تو اور عیاد کو ان کی سرزمین پر حق جتلاتی دونوں ممالک کی غیر مذہبی اور سیکولر سیاسی جماعتیں کی انسانی حقوق کی پالیساں بھی مہبوت کرسکتی ہیں جن کو جانے کیوں کھلی آنکھوں سے کشمیریوں کا خون، خون نہیں دکھتا۔
ننھا کشمیری تو امت مسلمہ کی خودغرضی کو بھی نانا کے قتل کا مجرم گردانے گا کیونکہ اسلامی ممالک کی سب سے بڑی تنظیم او آئی سی آج تک مقبوضہ کشمیر جیسے اہم ترین مسئلے پرایک اجلاس نہیں بلاسکی۔ مالدار خلیجی ممالک کے موقف میں تو معاشی مفادات کی وجہ سے اب علی الاعلان کشمیر کو امت مسلمہ کا مسئلہ بنا کرپیش کرنے کی ممانعت ہے۔
رہ گئی دنیا سے کشمیریوں کے لئے سفارتی اور اخلاقی امداد بٹورنے کا دعوی کرنے والوں کی تو ان کی “اوقات” بھی عیاد کی آنکھوں کے سامنے مزید نکھر کر آ گئی ہو گی کہ کس طرح وہ یو این ایچ آر سی کے اجلاس میں کشمیر کی قراردار کے لئے مطلوبہ حمایت حاصل نا کر کے منہ کی کھا گئے۔ ان کی کشمیر کاز سے سنجیدگی کا پیمانہ تو کوالالمپورسمٹ سے بھی تائب ہونے والی وجوہات سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔
ان منافقانہ رویوں نے نانا کی لاش کے اوپر بیٹھے عیاد کو یہ ضرور باور کرا دیا ہوگا کہ کشمیر کا حل کشمیریوں کے سوا کسی کے پاس نہیں ہو سکتا اور ان کی ایک طاقتورعوامی تحریک ہی کشمیر کو جہنم میں بدلنے والوں سے چھٹکارا دلا سکتی ہے۔
♦