بیرون ملک پاکستانی اور سلطان راہی کے دو روپ

فرقان مجید

آج سوشل میڈیا پر گردش کرتی ہوئی ایک پوسٹ پر نظر پڑی جس میں سلطان راہی کی پیار بھری مسکراہٹ والی تصویر تھی اور ساتھ ہی غصے اور قہر سے بھرپور ایکسپریشنز والی تصویر جو وہ نوری نت یعنی ولن کو دیکھ کر دیا کرتے تھے۔ پیار والی تصویر پر لکھا تھا مسلمان بیرون ملکاور دوسری تصویر (قہر والی) پر درج تھا مسلمان اپنے ملک میں۔

میں پاکستان میں پلا بڑھا، کالج، یونیورسٹی گیا اور ایک بڑے ادارے میں نوکری بھی کی، اس لئے میں یہ دعوی کر سکتا ہوں کہ میں پاکستانی معاشرے کو اچھی طرح تجربہ کرکے امریکا شفٹ ہوا تھا۔اپنے کام کی وجہ سے تقریبا سارا امریکا گھوما اور امریکہ میں مختلف جگہوں پر لمبا قیام رہا اور وہاں کی پاکستانی کمیونٹی کے کے ساتھ میل جول کا موقع بھی ملا۔

بدقسمتی سے سوشل میڈیا کی مذکورہ پوسٹ میں کم و بیش 80 فیصد حقیقت نظر آئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیرون ملک بسنے والے پاکستانی پاکستان کی معیشت میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں خواہ وہ پاکستان میں سرمایہ کاری ہو یا اپنے پیاروں کوڈالرز ، ریال اور پاؤنڈز کی شکل میں پیسہ بھیجنا ہوان سب کی حب الوطنی بھی مثالی ہے۔

امریکہ میں بسنے والے پاکستانیوں کی مختلف اقسام ہیں۔ ان اقسام میں فرق کی بنیاد تعلیم، سماجی و معاشی پس منظر اور نظریات ہیں۔ایک طبقہ بڑے کاروباری اور بہترین کیرئیروالے کامیاب افراد پر مشتمل ہے جن میں سے اکثر نے اپنے آپ کو بخوشی اس معاشرے کا حصہ بنا کر امریکی سیاست اور معاشرت میں کسی نہ کسی انداز میں مثبت کردار ادا کیا ہے۔

لیکن ایک بڑی تعداد پاکستان سے آئے ہوئے لوئر مڈل کلاس کے لوگ ہیں جو معاشی مجبوریوں کے تحت یہاں آباد ہوئے ہیں ان کو کنفیوزڈ دیسی امریکیبھی کہا جاتا ہے جو یہاں کے سسٹم کا فائدہ بھی اٹھاتے ہیں لیکن محفلوں میں اس نظام اور امریکی معاشرے کی (مذہبی بنیادوں پر) برائیاں گنواتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ امریکہ میں داخل ہوتے ہی ان میں سے بہت سے لوگ یہ عہد کرتے ہیں کہ کچھ سالوں کے بعد ہم پاکستان واپس لوٹ جائیں گے لیکن ایسا بولتے اور سوچتے دہائیاں گزر جاتی ہیں اور زندگی کوہلو کے بیل کی طرح گزرتی چلی جاتی ہے۔

کچھ حضرات ایسے بھی ہیں جو یہ کوشش کر چکنے کے بعد پاکستان میں موجود اپنے بے ایمان اور لالچی رشتے داروں کو برا بھلا کہتے ہوئے پائے جاتے ہیں ان کا پاکستان میں واپس جا کر آباد ہونے کی خواہش دم توڑ چکی ہوتی ہے۔

پاکستان کی مسجدوں میں دن رات کفار کو گالیاں اور قتال کا شور سننے کے بعد جب آپ امریکہ کی کسی مسجد میں گھستے ہیں تو مولوی صاحب امن سے شروع ہوکر چندے کی اپیل پر ختم ہوتے ہیں۔ ایک مسجد میں رمضان کے دنوں میں مولوی صاحب زیادہ جذباتی ہوگئے اور دعا میں اقرار کر گئے کہ ہم کفر کے نظام میں رہ رہے ہیں ہمیں اس سے محفوظ رکھ، شاید کسی ڈونر نے اس دعا کی درخواست کی ہو۔

امریکہ میں پاکستانی چینلز کی رسائی اور سوشل میڈیا آنے کے بعد ان لوگوں کی پاکستانی سیاست میں دلچسپی ضرورت سے زیادہ بڑھ گئی ہے کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ان کی یہ واحد تفریح ہے کوئی پاکستانی سکالر یا سیاستدان مذہبی رواداری یا کسی اقلیتی فرقے کے حقوق میں ہلکی سی مثبت بات کر دے تو ان کا ری ایکشن وہی ہوتا ہے جو سلطان راہی کا نوری نت کو دیکھ کر ہوتا تھا۔ وہ اپنے گنڈاسے تان کر سوشل میڈیا پر صرف پاکستانی دوستوں کی پورے جوش کے ساتھ گالیوں اور اسلامی حوالوں سے بھرپور پوسٹس کی ایسی بارش کرتے ہیں کہ بچنا محال ہو جاتا ہے جبکہ یہی لوگ یہاں امریکیوں کو پیار بھری مسکراہٹ چہرے پر سجائے اور نرم لہجے میں امن، رواداری، محبت اور نسل پرستی کے موضوع پر کچھ مذہبی واقعات کا حوالہ دے کرایسا بھاشن دیتے ہیں کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے۔

Comments are closed.