حسین حقانی
پاکستان کو بنے دس سال ہو چکے تھےجب جیمز ایم لینگلی ، نیو ہیمپ شائر میں “کنکورڈ مانیٹر” کے مالک اور ایڈیٹر، امریکہ کے نے سفیر بن کر کراچی آئے۔ لینگلی 1952 میں ری پبلکن صدارتی امیدوار کے طور پر آئزن ہاور کی نامزدگی کی حمایت کرنے والے اولین لوگوں میں سے تھے اور آئزن ہاور نے بطور صدر اپنی معیاد کے شروع ہوتے ہی ان کی حمایت اور وفاداری کا انعام سفارتی تعیناتی سے دیا تھا۔لینگلی ابھرتے ہوئے قومی سلامتی کے نظام کا حصہ نہیں تھے لہذا وہ اس قابل تھے کہ پاکستان کو غیر جانبداری سے دیکھ سکیں۔
اپنی تعیناتی کے چھ ماہ میں ہی نئے سفیر نے اندازہ لگا لیا کہ امریکی امداد وہ واحد شے ہے جس پر پاکستان چل رہا ہے۔ امریکی وزارت خارجہ کو بھیجی جانے والی اپنی تفصیلی رپورٹوں اور خطوط میں لینگلی نے پاکستان کے بارے میں اپنے تاثرات اور تجزیے کا اظہارکیا۔ انھوں نے اس معاملے کی معاشی، عسکری اور نفسیاتی جہتوں پر بات کی جسے وہ “مسئلہ پاکستان” کہتے تھے۔
لینگلی کے مطابق فوج کے افسروں کے گروہ سمیت ایک “چھوٹی سی سوچ بچار کرنے والی اشرافیہ” ملک کو چلا رہی ہے جبکہ عوام کو اپنی “ناقص جنوب ایشیائی معیارزندگی”تک محدود رکھا گیاہے۔انھوں نے کہا کہ فوج اپنے بلند عزم اور عمدہ سازو سامان کے ساتھ “ملک کو بچانے والا بادبان” بن گئی ہے۔ لیکن “ریاست پاکستان کے ڈھانچے” کی حیثیت سے بنیادی طور پر فوج پر انحصار کرنا”سیاست دانی پر سوال اٹھاتا ہے”۔
لینگلی کی رائے میں پاکستان میں مجموعی صورتحال بگڑ رہی تھی۔ ملک ناکارہ ہو چکا ہے اور امریکہ ایک عسکریائے ہوئے پاکستان کی مدد کرکے نادانستہ طور پر اس ناکارگردگی کو بڑھا رہا ہے۔ انھوں نے نشاندہی کی کہ “مضبوط معاشی اور سیاسی بنیاد کے بغیر فوجی قوت جنوبی ایشیا میں یا کہیں بھی حقیقی قوت تشکیل نہیں دے سکتی”۔ اخبار کے ایڈیٹر سے سفیر بننے والے لینگلی چاہتے تھے کہ امریکی اس اتحادی کے بارے میں اپنے نقطہنظر پر دوبارہ غور کریں۔
وہ مسئلہ جس کی لینگلی نے بات کی تھی پاکستان میں اندرونی یک جہتی کے فقدان اور نہ ختم ہونے والی ذاتی اور گروہی رقابتوں سے جڑا ہوا تھا اور اسی نے ملک کی سیاست کو دق کردیا تھا۔ بہت بحث و مباحثے کے بعد بالاخر پاکستانی قیادت نے 1956 میں ایک آئین بنا لیا۔ اس دستاویز میں برطانوی انداز کی پارلیمانی جمہوریت کو اسلامی شعائر کے ساتھ ملا دیا گیا تھا لیکن جہاں بھارت آزادی کے بعد سے دو قومی انتخابات کروا چکا تھا پاکستان میں ابھی ایک بار بھی ایسا نہی ہوا تھا۔
نہرو بھارت کی تنوع کا احساس کرتے ہوئے اسے متحد کررہے تھے۔ برطانیہ کے بنائے ہوئے صوبوں کو توڑ کر بھارتی یونین کے اندر ہی نسل اور زبان کی بنیاد پر ریاستوں کی شکل دے دی گئی تھی۔ ایسی ہی ایک ریاست کیرالہ میں ایک منتخب کمیونسٹ حکومت نے اقتدا سنبھالا تھا۔ اس کے برعکس پاکستان نے منظم اتحاد نافذ کرنے کی کوشش کی۔ برطانیہ کے بنائے ہوئے صوبے توڑ کر مغربی پاکستان کو ایک اکائی بنا دیا گا اور مشرقی پاکستان کو دوسری۔
ابتدائی طور پر اردو کے واحد قومی زبان ہونے پر اصرار کرنے کے بعد بادل نخواستہ بنگالی کو قبول کر لیا گیا۔ لیکن سکولوں اور دفاتر سے دوسری زبانوں کو ختم کر دیا گیا۔ بعض قومیتوں سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کو ریاست کا دشمن قراردیا گیا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان میں تعلقات بتدریج ختم ہورہے تھے۔ قوم کو مذہبی بنیاد پر متحد کرنے کے امکان کو 1953 میں لاہور میں مسلکی شورش کے دوران پہلے چیلنج کا سامنا کرنا پڑا۔ مرکزی مسلم مسالک نے احمد یوں کو غیر قانونی طور پر غیر مسلم قراردینے کے مطالبے کے لیے احتجاج کیا۔ کون مسلمان ہے اور کون نہیں، اس کی وضاحت کرنے سے پینڈورا باکس کھل جاتا۔
اسلامی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی نظریاتی بحثوں اور پرشکوہ خطاب کے درمیان پاکستان کے رہنما بنیادی معاشی حقائق کو نظرانداز کرتے دکھائی دے رہے تھے۔ ملک کی آمدنی کا 65 فیصد عسکری اخراجات کے لیے خرچ ہورہا تھا لیکن پاکستان کو مہنگی سازو سامان کی ادائیگی کے لیے پھر بھی امداد کی ضرورت تھی۔ زرعی اصلاحات اور زراعت کی جدت سے ہم آہنگ کرنے کو یکسر نظر انداز کیا گیا۔ امداد کو مستقبل کے لیے ایک موثر اور خود کفیل معیشت بنانے کے لیے ذریعے کے طور پر استعمال کرنے کی بجائے پاکستان کی حکومت نے اسے آمدنی کا متبادل سمجھ لیا۔
پہلی ہی دہائی میں ملک کے چھ وزرائے اعظم بدل چکے تھے اور لینگلی کے واشنگٹن کو “مسئلہ پاکستان” کے بارے میں بھیجے گئے مراسلے کے چند ہفتے کے اندر ہی ایک اور وزیر اعظم آنے والا تھا۔حالانکہ تیزی سےبدلتی ہوئی کابینہ میں ایوب اور سکندر مرزا مسلسل شامل رہےلیکن بالاخر وہ بھی ایک دوسرے سے جھگڑ پڑے ۔ آئین کے نفاذ کے دوسال کے اندر ہی سکندر مرزا نے اسے منسوخ کیا اور پھر 1958میں مارشل لا لگا دیا۔
لگتا ہے کہ لینگلی نے اپنی آمد کے چھ مہینے میں ہی پاکستان کے پرخطر راستے کی علامات دیکھ لی تھیں انھوں نے تجویز دی تھی کہ امریکہ پاکستان کی فوج کو کمیونسٹ بلاک کے خلاف استعمال کرنے کی امید پر تیار کرنے کی بجائے “پاکستان کو ایک مضبوط اور ترقی کے قابل اتحادی بنانے” کو بہت زیادہ اہمیت دے۔ انھوں نے کہا کہ “ پاکستان میں ہم نے ایک سرکش گھوڑے کو دم سے پکڑا ہوا ہے اور اسے بحفاظت چھوڑنے سے پہلے ہمیں اس الجھن کا سامنا ہےکہ اسے سدھانے کی کوشش کیسے کی جائے”۔ لینگلی کو اس بات کا احساس ہوچکا تھا کہ ” وہ گھوڑا جسے ہم دوست سمجھتے تھے حال ہی میں زیادہ سرکش ہوگیا ہے”۔ اور امریکہ کی ترغیبیں پاکستانی رہنماؤں کو اپنا طریقہ کار بدلنے پر آمادہ کرنے کے لیے ناکافی رہی ہیں۔
وزارت خارجہ کو بھیجے گئے ایک دوٹوک مراسلے میں امریکی سفیر نے سوال کیا کہ”مجھے حیرت ہے کہ اگر ہم نے مجموعی طور پر پاکستان کے بارے میں کچھ عمومی اصول وضع نہیں کیے اور پھر انہیں وقفے وقفے سے کی گئی چھان بین کے بغیر آفاقی سچائی کے طور پر مان لیا ہے”۔ انھوں نے پاکستان کے بارے میں اکثر دہرائے جانے والے بیانات کا حوالہ دیا “کہ پاکستان دنیا کے اس حصے میں امریکی پالیسی کی بنیاد ہے کہ پاکستان میثاق بغداد، اور سیٹو کے لیے بادبان ہے کہ پاکستانی مضبوط ، صاف گو،، دوستدار اور قوی ہیں اور کہ پاکستان اس خطے میں طاقت کی فصیل ہے”۔ انہوں نے تحفظات کا اظہار کیا کہ “ پاکستان کی زندگی میں کئی پہلووں سے آنے والے بگاڑ” کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات کے مثبت خدوخال ختم ہوجائیں گے۔
بہت سے مسائل جن کا لینگلی نے 1957میں ذکر کیا تھا آئندہ برسوں میں خوفناک باقاعدگی کے ساتھ آمنے سامنے آئے۔ انھوں نے “غیر پیداواری اخراجات (عسکری اور حکومتی) میں اضافے اور بجٹ کے تعمیری حصے میں کمی” کی بات کی تھی۔ جس کی وجہ سے غیر ملکی امداد کے فوائد ختم ہوگئے۔ لینگلی نے پیش بینی پر مبنی ایک خصوصی پیراگراف میں لکھا تھا کہ “بدقسمتی سے ماضی میں اپنے دوستوں کی مدد کرنے میں ہم نے جس سخاوت کو مظاہرہ کیا اس نےا کثر انہیں مشکل حالات کا جرات سے مقابلہ کرنے اور اپنے مسائل کا مطلوبہ فوری ضرورت اور استقلال کے جذبے کے ساتھ سامنا کرنے سے روکا”۔ انھوں نے پاکستانیوں کے امریکہ اور مغرب کے حامی ہونے کے نظریے کو “خیالی پلاؤ” قرار دیا۔
لینگلی نےیہ نتیجہ نکالاتھاکہ پاکستان کی فوج میں “نمایاں طور پر کمی لانے” کی ضرورت ہے۔ عسکری اخراجات معیشت پر اتنا بڑا بوجھ ہیں کہ امریکی امداد صرف “سابقہ معیار زندگی کو برقرار رکھنے”کے کام آرہی ہے۔ انھوں نے دلیل دی کہ عام آدمی تک چونکہ اس امداد کے ثمرات پہنچ ہی نہیں رہے لہذا اس سے یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ وہ ان کا اندازہ لگا سکے۔ سفیر کے مطابق پاکستان میں امریکی عسکری پروگرام بہرحال “ایک جھانسے پر مبنی” تھا جھانسہ یہ تھا کہ اسے سوویت یونین سے خطرہ ہے۔۔۔
Magnificent Delusions
Pakistan, The United Sates and an Epic History of Misunderstanding
by Husain Haqqani
اردو ترجمہ:۔
عالیشان واہمے، پاکستان ، امریکہ غلط فہمیوں کی تاریخ، از حسین حقانی
وین گارڈ بکس، گلبرک لاہور