مزاحمت کیوں ضروری ہے


مہرجان

میں حیران ہوں کہ فاشزم کے خلاف نیشنلسٹ برسرپیکار ہیں اور مارکسسٹ محض تماشائی “ یہ جملہ کسی نیشنلسٹ یا مزاحمت کار کی نہیں بلکہ نیو لنگوسٹ و مارکسسٹ اٹالین گرامشی کا ہے۔

آج ستر سال کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو اس جملے کی بازگشت اور سچائی تاریک راہوں میں سنائی و دکھائی دیتی ہے کہ ریاست کے لیے کبھی بھی کامریڈز خطرناک نہیں رہے لیکن جونہی کسی کامریڈ نے وطن کی بات کی، قوم کی بات کی، ریاستی جبر کی بات کی، مزاحمت کا عَلم بلند کیا، یا قومی سوال پہ دو ٹوک موقف اپنایا تو نہ صرف وہ بلکہ ان کے گھر میں پڑی ہوئی کتابیں بھی ریاست کے لیے خطرناک ترین ثابت ہوئیں۔

اس کی سب بڑی وجہ اپنی سرزمین سے وہ فطری و مربوط تعلق ہے جو کالونیل ازم کے خلاف سب سے موثر ہتھیار ثابت ہوا کالونیل ازم کی تاریخ بہت پرانی ہے کولمبس نے جونہی نئی دنیا دریافت کی، تین سال کے اندر اندر “کالونیل ازم” تلوار کے دستے پہ کراس کا نشان بنا کر اس سمت چل پڑی۔ یاد رہے یہ محاورہ

( The sign of the cross the hilt of the sword )

اس طرف اشارہ ہے کہ کیسے کراس کو تیر کمان (جبر)کی شکل دی گئی۔

اسی طرح آج نیو کالونیل ازم تلوار کی بندوق پہ ترقی پسندی ، روشن خیالی ، جمہوریت جیسے خوش نما نعرے کندہ کرکے ہر اس جگہ پہ قابض ہے، جہاں معدنیات کی بہتات ہو بارود کے ڈھیر پہ جمہوریت و ترقی پسندی کا راگ الاپنا بھی انہی کا شیوہ ہے۔ کل جہاں صرف تلوار پہ کراس اور ہاتھ میں بائبل پکڑ کر لوٹتے تھے (باہر بیٹھے ہوئے سنگتاں کے لئے یہ نکتہ قابل غور ہے جن کے ہاتھوں میں بائبل کا نسخہ تھما دیا گیا ہے) لیکن آج صرف بندوق نہیں بلکہ “علمیاتی تشدد” (ایپسٹیمک واہلنس)کو بھی بروئےکار لا رہے ہیں ۔

بقول گرامشی ذہنوں کو مسخر کرکے یعنی ادب و شاعری کو ڈھال بناکے ترقی پسندی و روشن خیالی کا درس دے کر نظر وسائل پہ لگا کر کالونیل ازم کی نئی شکل میں سامراج پنجے گاڑھ رہا ہوتا ہے بہت کم لوگ اس کھنچی ہوئی لکیر کو دیکھ پاتے ہیں جو کہ بقول لیوی ناس پہلے سے کھنچی گئی ہے یعنی تفریق (ڈیفرنس)پہلے کی ہے اس میں رنگ و گہرائی بعد میں ریاستی جبر ڈالتی ہے اور بلوچستان ستر سالہ تاریخ اس امر کا گواہ ہے کہ اپنے وسائل کی وجہ سے آج کالونائزر کی یہ آماجگاہ بنا ہوا ہے۔

اس تمہید کو باندھنے کا مقصد نہ صرف نوآباد کار کی نفسیات بیان کرنا تھا کہ وہ کیسے سویلائزیشن کے نام پہ نہ صرف لوٹ کھسوٹ میں مصروف عمل ہوتے ہیں بلکہ علمیاتی تشدد کو زیر بحث بھی لانا مقصود ہے کہ اس علمیاتی تشدد کے ذریعےکالونائزر کی اپنی شناخت ، روایات ، ثقافت و مزاحمت کو اس قدر پسپا کرنا کہ وہ ہر لحاظ سے دفاعی لائن اپنا کر اپنی مزاحمت تک کی بھی توجیح بیان کرتا رہے۔ مزاحمت کو شدت پسندی سے جوڑنا تو ہم سنتے آرہے تھے (یاد رہے عدم تشدد بھی اپنے اندر شدت پسندی کا عنصر رکھتا ہے)۔

لیکن آج کی دنیا مزاحمت کار کو دہشت گردی سے گر جوڑے تو یہ اچھنبے کی بات نہیں کیونکہ یہی علمیاتی تشدد ہے جو کالونائزر کے لیے تشدد ، مسخ شدہ لاشیں ، مِسنگ پرسنز ، قبضہ گیریت کے لیے جواز در جواز تراشتا رہتا ہے اور کالونائزر کا اکیڈیمیا، دانشور ، عام لکھاری بھی اس علمیاتی تشدد سے متاثر ہوکر متاثرین میں شامل حال ہوتے ہیں۔

مجھے یہاں پرویز ہود بھائی کا ایک انٹرویو یاد آرہا ہے جس میں جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ بلوچستان میں جو ظلم و ستم ہورہا ہے اس پہ آپ کی کیا رائے ہے تو بجائے بلوچستان پہ جاری ظلم و ستم کی بات کرتے وہ انڈیا کی مداخلت پہ بات شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح بےشمار درد مند دل رکھنے والے ادیب بلوچستان میں جبر کی بدترین صورت حال پر بات کرنا نا مناسب سمجھتے ہیں جیسا کہ یہاں جبر جائز ہے اور اسے نظرانداز کرنا پلک جھپکنے جیسا غیر شعوری عمل ہے۔

ایک بہت بڑا نام ترقی پسند شاعر فیض احمد فیض کا ہے جو فلسطین پر نظمیں کہتے رہے ایرانی طلبا کے نام شاعری کی اور انہیں لینن پیس ایوارڈ بھی دیا گیا لیکن بنگلہ دیش کے حوالے سے انکی خاموشی اور ستر کی دہائی میں بلوچستان پر جاری فوج کشی کے وقت انکی چپ اسی علمیاتی تشدد کا پیش خیمہ ہے۔ علمیاتی تشدد کا سب سے پہلا کام کچھ اصطلاحات کی اختراع ہے اور ان اصطلاحات ( روشن خیالی ، ترقی پسندی ) کا ان افراد کے لیے مختص کرنا ہے، جن کا کام ہمیشہ سے ہر جگہ مزاحمت کو اور مزاحمت کار کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرنا ہے، اس کی مزاحمت کو دہشت گردی سے جوڑنا ، ان کی جہد کو نسل پرستی سے جوڑنا اور خود کو اور اپنے ہم خیالوں کو روشن خیالی و ترقی پسندی کے مناصب پہ فائز کرنا، ان سب کا وتیرہ ٹھہرتا ہے۔

کالونائزڈ کا ادیب بقول فرانز فینن تین درجوں سے گذر کر ڈی کالونائز ہوتا ہے اس لیے کالونائزڈ کا لکھاری بہت حد تک کالونائزر کی نظروں میں اپنے آپ کو اس روشن خیالی و ترقی پسندی کے رنگ میں رنگنے کے لیے مزاحمت کو دہشت گردی یا نسل پرستی جیسے الفاظ سے یاد کرتا رہتا ہے تاکہ وقت آنے پہ یہ کہہ سکیں ان سے بڑا ترقی پسند و روشن خیال شاید ہی کوئی واقع ہوا ہو۔ علمیاتی تشدد کی سب سے بھیانک صورت حال اس وقت سامنے آتی ہے جب کالونایزڈ کے کامن سینس کو بقول گرامشی اس قدر مینوفیکچر کیا جائے کہ انہیں اپنا استحصال بالکل عام سی بات لگنے لگے۔

بس یہی وہ صورتحال ہے جہاں مزاحمت اس کامن سینس میں دڑاریں پیدا کرتی ہے انہیں مِسنگ پرسنز، اجتماعی قبرستان ، مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں یہ باور ہوجاتا ہے کہ وہ نوآبادیات ہے، اب اس کا کامن سینس وہ کامن سینس نہیں رہتا، اب وہ مزاحمت کی راہیں تلاش کرتا ہے اور مزاحمت میں اپنی بقاء کا خواہش مند ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ مزاحمت ہی وہ تضادات اُبھار کر سامنے لاتی ہے جو جمہوریت ، ترقی پسندی ، روشن خیالی کے لیبلز اور لبادوں کو تار تار کر دیتی ہے۔

ہمیں یہ بات سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کالونائزیشن کا عمل صرف ذہنوں کو تسخیر کرنے کا عمل نہیں تھا، جس پہ “ڈی کالوناہزیشن آف فلاسفی” تک کتابیں لکھی گئی بلکہ کالونائزیشن کا عمل کالونائزڈ لوگوں کی نیچر تک کو بھی جھنجھوڑنا اور اسے اپنے یعنی(کالونائزر)کےنیچر کے مطابق ہم آہنگ بنانا بھی شامل حال تھا ۔

اس لیے ڈی کالونائزیشن کی پوری تاریخ میں مزاحمت کا عَلم (پرچم)زیادہ تر قوم پرستوں کے ہاتھوں میں رہا جن کی آپس کی فطرت میں ہم آہنگی یا تطابق زیادہ تھی اسی مزاحمت کے پیش نظر کالوناہزر انہیں “تنگ خیال و نسل پرست” جیسے القابات سے نوازتے رہے اور انسان دوست اور ترقی پسند دانشوار یہی کالونائزر کا راگ اپنے قلم کے ذریعے الا پتے رہے۔ پچھلے ستر سال تو اس امر کے گوا ہ ہیں۔

دی بلوچستان پوسٹ

Comments are closed.