بیرسٹرحمید باشانی
ہمارے ہاں عام آدمی قدرت پربھروسہ کرتا ہے۔ یہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد کےایمان اورعقیدےکاحصہ ہےکہ دنیا میں جوکچھ ہوتا ہےقدرت کی مرضی سےہوتاہے۔ لہذااس کوہونے سے روکنا کارقدرت میں مداخلت ہے۔ کچھ لوگ ایسےبھی ہیں ، جوسیلابوں، طوفانی بارشوں، اورزلزلوں کوقدرت کی ناراضگی اورغیض وغضب کا اظہار قراردیتے ہیں، جوانسانی گناہوں کا نتیجہ ہوتا ہے۔ عام آدمی یا پھرگہرے قدامت پرست لوگوں کی حد تک تویہ بات سمجھ میں آتی ہے۔ مگراگرسرکاراورسرکاری محکمہ جات بھی اپناکام کاج چھوڑکرقدرت پرتکیہ کرکہ بیٹھ جائیں تو پھراس قوم یا ملک کا خدا ہی حافظ ہے۔
مگریہ حقیقت کے ہمارے سرکاری اہلکار، محکمے اوراداروں کا بھی ان معاملات پرطرزعمل کوئی بہت زیادہ مختلف یا سائنسی رویوں پر مبنی نہیں ہوتا ۔ کراچی کی حالیہ طوفانی بارشوں کوایک وزیرنےقدرت کا تحفہ قراردیا جونیک حکمرانوں پربرستا ہے۔ حکمران اچھےہوں توزیادہ بارش ہوتی ہے۔ ایک وزیر کا رویہ اگریہ ہےتوعام آدمی سےکیا توقع رکھی جاسکتی ہے۔ یااس وزیرکے زیرانتظام محکمے کےعام اہل کارکتنی ایک سائنسی سوچ رکھ سکتے ہیں۔
اس طرزعمل کی کئی چھوٹی بڑی جھلکیاں حالیہ بارشوں کےدوران سامنے آئی جب کراچی شہرپانی میں ڈوب گیا۔ ارباب اختیارکوبھی کہتےسناگیا کہ ہم کیا کریں بارش اب کی بارکوئی ضرورت سے زیادہ ہی ہوگئی۔یہ قدرت کا کام ہے، جس کےسامنے وہ بےبس ہیں۔ جن لوگوں کی ریاست یہ ذمہ داری لگائے کہ وہ عوام کوقدرتی آفات سےبچانے کا فریضہ سرانجام دیں، یاماحولیاتی تباہی کےاثرات سےعوام کی جان ومال کی حفاظت کریں۔ اوران کوان فرائض کی سر انجام دہی کی باقاعدہ تنخواہ ملتی ہووہ اگرطوفانی بارش کواللہ کی نعمت یا زحمت قراردےکراپنا دامن جھاڑ دیں تو یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے۔
تیزبارش، طوفانی بارش یا معمول سے زیادہ بارش ماحولیاتی تباہی کی کئی نشانیوں میں سےایک ہے۔ دنیا ایک سانئسی عمل سےبندھی ہوئی ہے۔ ہم ہرروزاس کا تجربہ کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی سےدرجہ حرارت بڑھتاہےتوگلیشیرپگھلتےہیں۔ گلیشیرپگھلیں گےتودریاؤں میں طغیانی آئےگی۔ دریاوں میں پانی چڑھنے سےسیلاب آئیں گے۔ یہ ایک سیدھا سادہ سائنسی عمل ہے، جس کوسمجھنااوراس کا سد باب یاتدارک کرنےکی ضرورت ہوتی ہے۔ طوفانی بارشیں، سیلاب اوردیگرقدرتی آفات قدرت کا غیض وغضب نہیں، بلکہ اس دھرتی کا رد عمل ہے، جس کو ہم صدیوں سےغلط استعمال کررہےہیں۔
اگرآپ اس دھرتی پرآبادی میں اس قدراضافہ کر دیں گے کہ انسانوں کوسرچھپانے کے لیے جگہ نہ رہے۔ درخت کاٹ دیں ۔ قدرتی چشمےاوردریا روک کرڈیم اورآبادیاں تعمیرکردیں ۔ ہرجگہ سیمنٹ اورسریا سے بے ڈھنگی عمارتیں تعمیرکردیں ۔ ماحولیاتی تباہی کی پرواہ کیےبغیرایسی ملیں، فیکٹریاں اورکارخانےلگا دیں، جوکسی ضابطے کی پرواہ کیےبغیرفضا میں آلودگی پھینکتے رہیں تو یہ دھرتی کےقدرتی عمل میں مداخلت ہے۔
انسان صدیوں سےشہرتعمیرکرتاآیا ہے۔ اوراس نے صدیوں کےاس تجربے سے بہت کچھ سیکھا ہے۔اس میں ایک سبق یہ ہے کہ شہرایک منصوبے کے تحت بنائےجانےچاہیے۔ بستیاں بساتے وقت قدرتی ماحول، دریاوں، نالوں اور چشموں کو اپنی جگہ رہنا دینا چاہیے۔شہرمیں جس کوجہاں جی چاہےعمارت بنا دے، دوکان کھڑی کردے، گھرتعمیرکردے توایک وقت ایسا آتا ہےکہ ان بستیوں کوانسانی بستیوں کی شکل میں برقراررکھنا اورچلانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ موہنجو ڈارواورہڑپہ سےدیگراسباق کےعلاوہ یہ دوسبق بھی سیکھنے چاہیے کہ شہرکیسے بنائےجاتےہیں۔ اورشہرکیسےاجڑتےہیں۔
بارشوں ، سیلابوں، اوردیگر قدرتی آفات کا صرف ہمیں ہی سامنا نہیں۔ دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جسے سیلاب، طوفانی بارشوں، ہری کینزوغیرہ کاسامنا نہ ہو۔ دنیا کے بیشترقدیم اورتاریخی شہرسمندروں، دریاوں اورجھیلوں کےکنارے ہی آباد ہیں۔ اوران میں سے بیشتر شہروں کو بارشوں، سمندری طوفانوں اورسیلابوں سے بچانےکا با قاعدہ نظام موجود ہے۔اس سلسلے میں ہرملک کا کوئی نہ کوئی تلخ تجربہ ہے، جس سےانہوں نےسیکھا۔ اوران کےتجربات سےاستفادہ کیا جا سکتا ہے۔
جیسے جاپان زلزلوں کا ملک ہے۔ اس نے زلزلوں کے ہاتھوں بہت تباہی دیکھی۔ اس سےسبق سیکھا۔ اورزلزلہ پروف طرزتعمیراختیارکیا۔ جاپان زلزلوں کوروک نہیں سکتا، مگر اس نے زلزلوں کےساتھ بغیرکوئی جانی اور مالی نقصان اٹھائےجینا سیکھ لیا۔ اب بھی وہاں کثرت سے زلزلے آتے ہیں، لوگ رات کو سوتے ہوئے اپنے بستروں سے گرجاتے ہیں۔ مگران زلزلوں سےکسی جانی یا مالی نقصان کے بغیرزندگی رواں دواں ہے۔ بات طوفانی بارش اوراس کی تباہی سے بچنےکی ہورہی تھی توجس تیزیاطوفانی بارش کوہم قدرت کا غضب یا زحمت سمجھتے ہیں، دوسرےملکوں کےتجربات سےفائدہ اٹھاکرہم اسےاپنے لیےرحمت بناسکتےہیں۔
سنہ 1923 کے موسم خزاں میں جاپان کے ایک شہرسومیدہ میں بہت سخت زلزلہ آیا۔ اس شہرکےچالیس ہزارلوگ زندہ جل گئے۔ اس زلزلے کی وجہ سےاس شہرکاواٹرسپائی سسٹم تباہ ہوگیا۔ اس کےجواب میں” رین واٹرہاروسٹنگ پروجیکٹ” یعنی بارش کے پانی کوذخیرہ کرکہ استعمال کرنے کا عمل شروع کیاگیا۔ اس منصوبے کے تحت شہرمیں تیزبارش کےپانی سے جو تباہی و بربادی ہوتی تھی اس بچنے کے لیے یہ پانی ذخیرہ کرنے کا آغازکیا گیا۔ اوراس ذخیرہ شدہ پانی کو شہرکی پانی کی ضروریات پوری کرنے کےلیےاستعمال کیا جانےلگا۔ عمارتوں کے چھتوں سے بارش کے پانی کو پائپوں کے ذریعے ٹینکوں میں جمع کیا جانےلگا۔ شہر میں ہر عمارت کے ساتھ ٹینک بنائے گے ، جس کی وجہ سے شہر میں ایک ہزارٹن سے زائدپانی ذخیرہ ہونے لگا۔ اس پانی کوٹائیلٹ فلش کرنے، شہرکےکولنگ سسٹم اورایریگیشن کے لیےاستعمال کیاجانےلگا۔ اس نظام کےتحت بارش کو زحمت سےایک نعمت میں بدل کرشہرمیں پانی کا مسئلہ ہمیشہ کےلیےختم کردیا گیا۔
اس کی ایک اورمثال کوریا کا شہرسیوئل ہے۔ سیوئل چھ سو سال پراناشہرہے، جس میں بارہ ملین سےزیادہ لوگ رہتے ہیں۔ یہاں پرتیزبارشوں کی وجہ سے ہمیشہ سیلاب اورپانی کا مسئلہ رہتا تھا۔ شہر کے حکام نے اس مسئلے کے حل کے لیے شہرمیں تمام بڑی عمارتوں میں واٹرہاروسٹنگ سسٹم لازم قرار دےدیا گیا ہے، جس کےتحت ہرعمارت میں پانی کے زخیرے کے لیے ٹینک بنائے جاتے ہیں۔ ان ٹینکوں سے پانی کی نکاسی کا انتظام ہے، جوشہرکےسیورج سسٹم سےمنسلک ہے۔ پورانظام انٹرنیٹ سےجڑاہے۔ موسمی پیشین گوئی کےمطابق پیشگی ٹینک خالی کردیےجاتےہیں، جس سے تیز بارش کے پانی کو محفوظ طریقے سے ذخیرہ کرنے کی گنجائش پیدا ہو جاتی ہے۔یہ سارانظام جدیدائیرل سسٹم پرچلتا ہے۔
یورپ میں کئی ممالک سطح سمندرسےنیچےہیں۔ اس لیے یہاں سیلاب سےبچاو کے لیےجدید ٹیکنالوجی استعمال ہورہی ہے۔ نیدرلینڈدنیامیں سیلاب سےبچاو اور بارش کے پانی کے محفوظ انتظام کی ٹیکنالوجی اورتجربےمیں دنیا کا لیڈرہے۔ امریکہ کی ریاست نیوآرلین میں کترینہ کی تباہی کے بعد یہاں کےسیاست دانوں کا ایک وفد نیدرلینڈ روانہ کیا گیا تھا، تاکہ وہ نیدرلینڈ کےحفاظتی نظام کے بارے میں جان سکے۔ نیدرلینڈمیں طوفانی بارشوں اورسیلاب کی صورت میں زیرزمین اوربڑے بڑے پارکنگ لاٹس میں پانی سٹورکرنےاورکھیل کےمیدانوں کوجھیلوں میں تبدیل کرنےجیسے پروجیکٹ کا تجربہ کیاہے۔ راٹرڈیم میں ایک سوبیس ایکٹرپرپانی میں تیرنے والے گھروں کا منصوبہ ہے، جوسطح سمندربلند ہونے، سیلاب یا طوفانی بارشوں کی صورت میں تباہی سےمحفوظ رہ سکتے ہیں۔
پانی اور بارش کے باب میں یہ ہے دنیا کی کہانی۔ پاکستان کی داستان یہ ہے کہ سترسال سے ہم بارش کےساتھ آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ کبھی تیزبارش کی وجہ سے ہم پانی میں ڈوب رہےہوتےہیں، اورکبھی بارش نہ ہونے کی وجہ سے ہم خشک سالی کا شکار ہوکرپانی کی بوند بوندکوترس رہےہوتےہیں۔ ہم کبھی بارش سے بچاوکی دعائیں مانگتے ہوئےدکھائی دیتےہیں، اورکبھی بارش کے لیےاجتماعی طور پر گڑ گڑا رہے ہوتے ہیں۔گویا اس باب میں ہمارے خیالات اورحرکات وسکنات ہزاروں سال پرانی ہیں۔ جب تک ہم بارش سےایک فصل جیساسلوک نہیں کریں گے۔ اوربارش کوفصل سمجھ کراس کی ہاروسٹنگ نہیں کریں گے، اس وقت تک ہم یوں ہی بے بسی اورلاچارگی کی تصویربنے رہیں گے۔
بارش کوایک قیمتی فصل سمجھ کرسنبھالنا ضروری ہے۔ اب ہمارے کچھ وزیریامشیرباتدبیریہ فرمائیں گے واٹرہاروسٹنگ کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں، توعرض یہ ہے کہ اس مقصد کے لیے کوئی وسائل کی ضرورت نہیں۔ سرکارسے یہ صرف یہ قانون سازی کردے کہ شہرکی ہرچھوٹی بڑی عمارت کے لیے پانی کے ذخیرے کے لیےٹینک بنانا عمارت کے مالک پرلازم ہے۔ اورآئیندہ ملک میں کوئی گھرکوئی عمارت واٹرسٹوریج ٹینک کےبغیربنانے کی اجازت نہیں ہوگی۔ یہ ٹینک شہرکےسیورج سسٹم سےمنسلک ہوں اوربارش کی پیشن گوئی کے بعد پہلےہی ان ٹینکوں کوخالی کردیاجائے۔
یہ قانون سازی کرنے اوراس پرسختی سےعمل کرنےسے طوفانی بارش اور اس کے نتیجےمیں ہونے والی تباہی وبربادی کو اگربالکل ختم نہیں توبہت حد تک کم ضرورکیاجا سکتا ہے۔ اس کےساتھ ساتھ دیگرایسےطویل مدتی اقدامات کی ضرورت ہے، جوماحولیاتی تباہی کی روک تھام کے لیےضروری ہیں۔ ماحولیاتی تباہی کےخوفناک عمل کوصرف درخت لگانے سے نہیں روکا جا سکتا۔درخت لگانا بہت ہی اہم اورقابل تعریف قدم ہے، مگراس کےساتھ ساتھ ماحول کو بچانے کے لیےجدید دورکےتقاضوں کےمطابق قانون سازی اوراس قانون پرسختی سےعملدرآمد کی بھی ضرورت ہے۔
♦