بیرسٹرحمیدباشانی
ایران آج کل عالمی خبروں میں ہے۔ امریکی اوراسرائیلی حلقوں کا کہنا ہےکہ امریکہ کےساتھ معاہدہ ختم ہونےکےبعدایران بڑی مقدارمیں یورینیم بنارہا، جس سےوہ نیوکلئیربم بناسکتا ہے۔ اس وجہ سے عالمی میڈیا اورانٹیلیجنس ایجنسیوں کی ایران پرگہری نظر ہے۔
دوسری طرف پاکستان اوربھارت کی ایران میں دلچسبی بڑھ گئی ہے۔ حال ہی میں چاردن کے وقفےسے دوبھارتی وزراء یکےبعد دیگرے تہران گئےہیں۔ پاکستان اوربھارت کی دلچسبی کی وجہ ایران کی خطےکی سیاست کےحوالے سےسوچ میں تبدیلی ہے، جس کا اظہاراس نےچاہ بہارمنصوبےمیں کیاہے۔ ایران کاچین کی طرف جھکاو، ترکی، ایران، پاکستان، چین اورروس کےدرمیان بڑھتے ہوئےتعلقات اس تبدیلی کا اظہارہیں۔ اس وقت مختلف ممالک کی خارجہ پالیسیوں میں تبدیلی اوردنیا میں نئی صف بندیوں کےساتھ ساتھ ملکوں کےاندرونی نظام بھی بدل رہےہیں۔ پرانےاتحادوں کی طرح پرانےنظام بھی ٹوٹ رہےہیں۔یہ بات ایران پربھی صادق آتی ہے، جہاں نظام کولیکرسخت گیرقدامت پرستوں اوراصلاح پسندوں کےدرمیان رسہ کشی جاری ہے۔
ایران میں انقلاب کےبعد طاقت دوقسم کےلوگوں کےہاتھ میں رہی ہے۔ ایک وہ جوپگڑی پہنتےہیں، اوردوسرے وہ جوبڑے بوٹ پہنتےہیں۔ مگراب ایران میں یہ چہ موگائیاں ہو رہی ہیں کہ طاقت سرسے پیرکی طرف جارہی ہے۔ یعنی پگڑی والوں کے ہاتھوں سےنکل کربوٹ والوں کی طرف منتقل ہورہی ہے۔ اس کاایک ثبوت ایران کی نئی پارلیمنٹ ہے۔ اس پارلیمنٹ کا نیاسپیکرسپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کاسابق بریگیڈئیرجنرل ہے۔
پارلیمنٹ کےبورڈ میں بیٹھے ہوئےتین چوتھائی لوگ یاتوپاسداران انقلاب کےسابقہ رکن ہیں، یاپھرسپاہ پاسداران انقلاب میں حاضرسروس ہیں۔ ایران میں کئی دانشورباربارسپاہ پاسداران انقلاب کی طرف سےایرانی حکومت کا براہ راست کنٹرول حاصل کرنے کےامکانات پربات کرچکےہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس سمت میں اگلاقدم 2021 کےانتخابات میں ایسےصدرکاانتخاب ہوسکتاہے، جس کا تعلق پاسداران انقلاب سےہو۔
امریکہ اوریورپ میں بائیں بازوں کےدانشوروں کا خیال ہے کہ ایران میں پاورسٹرگل زورپکڑرہی ہے۔ اورایران کے ساتھ تعلقات نارمل کرنےکاطریقہ یہ ہےکہ ایران میں معتدل مزاج لوگوں کی مدد کی جائےتاکہ ایران خوداندر سےاپنی اصلاح کرسکے۔ 2015 میں صدراوبامہ نےایران کے ساتھ نیوکلئیرڈیل کرتے وقت اسی دلیل کاسہارالیا تھا۔ ان کاخیال تھا کہ یہ ڈیل اعتدال پسندلوگوں کےہاتھ مضبوط کرے گی۔ صدرروحانی کااس وقت بیانیہ یہ تھا کہ ایران میں معتدل مزاج لوگ تاریک قوتوں کےساتھ حالت جنگ میں ہیں۔ وہ ملک کی روح اورمستقبل بچانےکی لڑائی لڑرہے ہیں۔ ڈیل سےان لوگوں کے ہاتھ میں ایک کارڈ آجاتا ہے۔ اگراعتدال پسند یہ کارڈ استعمال کرنے میں کامیاب ہوگئے تواس کاپوری انسانیت کوفائدہ ہوگا۔ مگربدقسمتی سےایساہوانہیں، بلکہ نتائج اس کےبرعکس نکلے۔
اس سال موسم سرماکےانتخابات میں سخت گیرعناصراکثریت سےمنتخب ہوئے۔قدامت پسندوں نےتہران سویپ کیا، جبکہ شہرکی تیرہ ملین کی آبادی سے معتدل مزاج ایک لاکھ ووٹ بھی نہ لےسکے۔ یہ اس بات کی دلیل ہےکہ اصلاح پسند اوراعتدال پسندوں نےعوام کی حمایت کھودی۔ تجزیہ کاراس کا زمہ دارصدرٹرمپ کو قراردے رہے ہیں۔ ان کی طرف سےمعائدہ ختم کرکہ دوبارہ پابندیوں نےسخت گیر عناصرکوایران کی ڈرا ئیونگ سیٹ پربٹھادیا۔ اس عمل سےمذہبی اورعدالتی اشرافیہ کےعلاوہ پاسبان انقلاب کےقدم بھی مضبوط ہوئے۔
ایران کی سیاسی اشرافیہ کےاندراصلاح پسندلوگ دوعشروں سے منتخب اداروں کومتوازی ریاست کےمقابلےمیں مستحکم کرنےکی کوشش کررہےتھے۔ بڑی مدت بعد وہ اپنی ناکامی کا اعتراف کرنےپرتیارہوئےہیں۔وہ اب متوازی ریاست کے رہنماوں کی طاقت پرقبضے کےخدشے میں مبتلاہیں۔کچھ دانشوروں کوخدشہ ہےکہ طاقت کی کشمکش میں جلد ہی عسکری قوتوں کاپلہ بھاری ہوجائےگا۔
ایرانی عوام گروہی کشمکش اورمرکب بحران سےتنگ ہیں۔امریکی پابندیوں سے ملک کی معیشت سےلہونچوڑاجاچکا ہے۔ عوام کی قوت خریداس سےبہت کم ہوچکی ہے، جوایک عشرہ پہلےہواکرتی تھی۔ ان کا فخرگھائل ہوچکا ہے۔ انا زخمی ہے۔ وہ اس بات پرناراض ہیں کہ ایران کوعالمی سٹیج پراپنےکردارسےمحروم کردیا گیا، جوان کاحق تھا۔ اوراس سےایک نئےقسم کی قوم پرستی جنم لے رہی ہے۔ صدرروحانی اپنے وعدے پورے کرنےمیں ناکام رہےہیں۔ خواہ یہ خارجی محازپرہوں یا داخلی ۔ کورونابحران کے دوران ان کی ناکامی کھل کرسامنےآئی ہے۔
دوسری طرف ان اعتدال پسندوں کےمقابلےمیں عسکری حلقوں کے ہاتھ مضبوط ہوئے ہیں، اوردن بدن مضبوط ترہوتےجا رہے ہیں۔ ان کی یہ پوزیشن ریاست کواپنی تحویل میں لینےکاموجب بن سکتی ہے۔
سپاہ پاسداران انقلاب 1990سے ہی قومی اورعالمی توجہ کا مرکزرہی ہے، جب سیاسی اصلاح پسندوں نے اقتداراپنےہاتھ میں لیاتھا۔ نیوزمیڈیا کا ایک بڑاگروپ کھلےعام پاسداران انقلاب کوہدف تنقید بناتارہاہے۔ اس کے جواب میں پاسداران نے اپنامیڈیا کھڑاکیا، جوان کے بیانیےکی تشہیراوران کےمحاسن کی تصویرکوبڑھاچڑھاکر پیش کرتارہا ہے۔ یہ میڈیا سپاہ پاسداران انقلاب کو ایران کی ہرمرض کی دعابناکرپیش کررہا ہے۔
معاشی میدان میں امریکی پابندیوں کی وجہ سےپاسداران نےاپنی ایک زیرزمین معیشت بنالی، جس میں سمگلنگ میں ملوث بدعنوان اشرافیہ بھی شامل ہوگئی۔ ملک کی معیشت سے بھی انہوں نے اپنابڑاحصہ وصول کیا۔ملک کی بڑی بڑی کمپنیاں ان کےاثرورسوخ کی وجہ سے ان کواعلی ترین عہدے پیش کرتے رہے۔ ملک کےتعمیراتی منصوبوں میں یہ سب سے بڑے ٹھیکےداربن کرابھرے۔انتظامی معاملات میں ان کی مداخلت کھلےعام ہوتی رہی ۔انہوں نے بارہاحکومت کی پالیسیوں اورمنصوبوں کوبھی پٹری سےاتارنےکی کوشش کی۔
پاسداران کا میڈیا سیاست دانوں اورنوکرشاہی کےخلاف سخت پروپیگنڈے میں مصروف رہا۔اس میڈیا میں صدرروحانی کی انتظامیہ کوکرپٹ اورنااہل بنا کرپیش کیا جاتارہا۔ ان پرمغرب پرستی کاا لزام بھی لگایاجاتارہا۔اب ان کی تنقید کا نشانہ تمام سیاسی قوتیں ہیں۔ گزشتہ ایک عشرے کےدوران یہ لوگ ایسی فلمیں، ڈاکومنٹریزاورٹی وی ڈرامےبناتے رہے، جواصلاح پسندی اوراعتدال پسندی کے خلاف ان کا بیانیہ پیش کررہے ہیں ، اوران کا نشانہ زیادہ ترنوجوان لوگ رہے،جن کو1979 کےانقلاب اوراس کےفورابعد کے واقعات کازیادہ علم نہیں ۔ وہ نوجوانوں کویہ بتاتے رہےکہ انہوں نےانقلاب لانےاوراسےبچانے کے لیےکام کیا، جب کہ سیاست دان ایک دوسرے سے دست وگریبان رہے، یاپھرکرپشن میں مصروف رہے، اورذاتی وگروہی مفادات پرقومی مفادات کو قربان کرتے رہے۔
اپنےمیڈیا میں یہ لوگ اپنےآپ کوایران کے واحداوراصلی وارث بنا کرپیش کررہےہیں۔ وہ اپنےآپ کویہ کریڈٹ بھی دے رہے ہیں کہ یہ وہی تھے، جنہوں نے دہشت گردوں کےخلاف کامیاب جنگ لڑی، اورایران کوان کےاثرسےپاک رکھا۔پاسداران کی پالیسی سےلگتا ہےکہ وہ ایک ہی وقت میں خوف بھی پھیلاناچاہتےہیں،اورعوام سےمحبت پانےکے خواستگاربھی ہیں۔
کورونا بحران کے دوران انہوں نے تین اعشاریہ پانچ ملین گھرانوں کی مدد کا دعوی کیا، ۔ انسانی ہمدردی کےکاموں میں بڑھ چڑھ کرحصہ لیا۔ دوسری طرف خوف پھیلانےکے لیےانہوں نےعوام کے خلاف جابرانہ ہتھکنڈوں کااستعمال بھی جاری رکھا۔ تہران کے آزادخیال حلقوں کوابھی تک 2009کی سبزتحریک کے دوران ان کےمظالم یادہیں۔ گزشتہ سال کا کریک ڈاوان کے زخم بھی ابھی تازہ ہیں، جس کےغریب نچلےطبقےکےلوگوں پرسخت اثرات مرتب ہوئے۔ جہاں تک عوام کا تعلق ہے تو نہ ان کی ہمدردی اورنہ ہی بے رحمی ان کا اعتماد حاصل کرسکی۔
اس وقت ان کی سب سے بڑی طاقت یہ ہے کہ ان کےمخالفین کمزورہیں۔روحانی نے2013 اور2017 کے انتخابات اس وعدے پرجیتے تھےکہ وہ ایرانیوں کی امیدیں بحال کریں گے۔ اب وہ جب اپنی مدت ختم کرنے والےہیں توملک میں گہری مایوسی ہے۔ ایران کےآئندہ انتخابات میں سخت گیروں کی فتح کےامکانات واضح ہیں۔ لیکن اس پرایران کی سیاست ختم نہیں ہوتی۔ ایرانی اشرافیہ کےدرمیان سیاسی تصادم جاری رہے گا۔ پاسداران انقلاب ہوسکتا ہے براہ راست اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیں، لیکن شاید وہ اس کےنتائج سےخوش نہ ہوں۔
ایران میں1979کےانقلاب کےبعد مسلسل انتخابات ہو رہے ہیں، لیکن ایرانی سماج جمہوریت اوراس کی برکات سے اتنا ہی دور ہے، جتنا نصف صدی پہلےتھا۔ اس تجربے میں سبق یہ ہےکہ جمہوریت محض انتخابات کا نام نہیں۔یہ ایک طرززندگی ہے، جس کوفروغ دینے کے لیے انسانی حقوق اورشہری آزادیوں کااحترام بنیادی شرط ہے۔ ان شرائط کوپوراکیےبغیرجمہوریت محض مراعات یافتہ طاقتورطبقات کاگٹھ جوڑبن جاتا ہے ، جس کے ذریعے وہ عوام کومل کر لوٹتےہیں۔
♦