منیر سامی
اب سے چند ہفتہ پہلے پاکستان میں پنجاب کی ایک اہم ہائی وے پر ہونے والے زنا بالجبر کی خبر چشم زدن میں دنیا بھر میں پھیل گئی۔ آپ تک بھی پہنچی ہوگی۔ شاید آپ کو دکھ ہوا ہوگا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ نے بھی دوسروں کی طرح اس خبر کو سن کر اڑا دیا ہو، یا لکھے ہوئے کو مٹانے کی کوشش کی ہو۔ ہر دم ایسی ہی خبریں آنے سے یہ ہوتا ہے کی سارا ہی سماج بے حس ہو جاتا ہے۔ یا فوراً ہی ایسی خبر کا موازنہ بھارت یا دیگر ملکوں میں ایسے معاملات سے کیا جاتا ہے۔ پھر اصل خبر سے زیادہ افواہیں یا بے بنیاد خبریں پھیل جاتی ہیں۔ جن میں سوشل میڈیا پر ہم اور آپ بھی شامل ہو جاتے ہیں۔ ہمارا ذریعہ یا معلومات کا منبع پاکستان کا غیر صحافتی بے مہار میڈیا بھی ہوتا ہے۔
خبر یہ تھی کہ فرانس سے آئی ہوئی ایک خاتون گئی شام لاہور سے گجرانوالہ گاڑی میں اپنے دوکم عمر بچوں کے ساتھ جارہی تھیں۔ راستے میں یا تو پٹرول ختم ہوگیا یا گاڑی خراب ہو گئی۔ انہوں نے اپنے گھر والوں کو اطلاع دی جنہوں نے اس سے کہا کہ پولیس کو فون کرو، ہم بھی آتے ہیں۔ پولیس کا پہلا جواب یہ تھا کہ یہ علاقہ ہماری حدود میں نہیں ہے۔ اور آپ کسی اور نمبر پر فون کریں۔
اس اثنا میں چند افراد ان کی گاڑی پر پہنچ گئے۔ انہوں نے شیشے توڑ کر خاتون اور بچوں کو گاڑی سے زبردستی اتارا اور بچوں سمیت کھیتوں میں یا ویران علاقہ میں لے گئے۔ اور پھر باری باری ان کے ساتھ جنسی زیادتی اور زنا بالجبر کیا۔ اور شاید بچوں پر بھی تشدد کیا۔ جب تک پولیس اور رشتہ دار پہنچے ، ملزم گولی مارنے کی دھمکیاں دیتے ہوئے فرار ہو گئے۔
پاکستان میں خواتین کے ساتھ ایسی زیادتیاں عام ہیں ۔ جن میں اکثر کو انصاف نہیں ملتا۔ شہادتوں اور قانون کا نظام ایسا ہے کہ، اکثر خواتین بدنامی اور دیگر خوف کی بنا پر شکایت ہی نہیں کرتیں۔ اور اگر کریں بھی مقدمہ بھگتتے بھگتت تھک جاتی ہیں۔ ایسا ہی ان خاتون کے ساتھ بھی ہوا۔
پنجاب کے اعلیٰ پولیس افسر نے جو پہلا دیا وہ یہ تھا کہ، ’’ خاتون رات کو تنہا کیوں نکلیں۔ انہوں نے کوئی دوسرا راستہ کیوں اختیا ر نہیں کیا۔ گاڑی میں چلنے سے پہلے پٹرول کیوں نہیں ڈالا‘‘۔ غرض یہ کہ ہر ذمہ داری حسبِ معمول ، خاتون پر ڈالی اور اس پر اڑ گئے۔ان پولیس افسر کی بات ابھی کرتے ہیں۔ اب تک پولیس نے کئی مشتبہ افراد کو بھی مرکزی ملزم کا ساتھی ہونے کے الزام میں گرفتار بھی کیا اور ان سے جرم کی معاونت کا اقرار بھی کر والیا۔کیا سچ ہے یہ خدا جانے۔لیکن تین ہفتے ہو چکنے کے بعد آج تک مرکزی ملزم مفرور ہے۔ یہ اس نظا م کا حال ہے جس میں ہر شہری پولیس یا سیکیورٹی نظام کے شکنجے میں رہتا ہے۔
جرم پر عمران خان نے دعویٰ کیا کہ ملزمان کو کیفرِ کردار تک پہنچایا جایا گا۔ اور یہ کہ ایسے مجرموں کو سرِ عام پھانسی دی جانی چاہیئے اور انہیں خصی کر دینا چاہیئے۔ جب کہ پاکستان میں ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ سرِ عام پھانسی دینے کا قانون بن نہیں سکا۔ کیونکہ اس میں پاکستان کے وہ بین الاقوامی معاہدے آڑے آتے ہیں، جن کے سائے میں پاکستان خود کو مہذب ملکوں کی صف میں شامل ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔
اعلیٰ پولیس افسر عمر شیخ کا رویہ، اسی دقیانوسی ذہنیت کا نتیجہ ہے جو ہمارے رگ و پے میں بسی ہے۔ حیران کُن بات یہ ہے کہ اس کے شکاروں میں ہمارے عمران خان آج کل پیش پیش ہیں جنہیں لوگ ایک جدید شخص سمجھتے تھے۔ یہی حال ان کے حواریوں اور حمایتیوں کا بھی ہے۔ دوسری طرف بے مہار میڈیا کے وہ صحافی یا دیگر افراد ہیں جن میں، انصار عباسی، زاہدحامد، اور ٹیلی ویژن ڈرامہ نویس اور ہدایت کار خلیل الرحمان قمر جیسے لوگ شامل ہیں، جن کی صفوں میں وقتاً فوقتاً میں حامد میر اور ایسے ہی صحافی اپنی اصلا ً قدامت پرستی کی بنیاد پر آتے جاتے رہتے ہیں۔
پولیس افسر عمر شیخ کی کہانی یہ ہے کہ وہ اس وقت عمران خان اور پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ عثمان بزدار کے منظورِ نظر جانے جاتے ہیں۔ انہیں ان کے اعلیٰ افسروں کے اعتراضات کے بعد بھی عمران خان کی منظوری سے پولیس چیف بنایا گیا۔ ان کے بارے میں خفیہ شعبہ جاتی رپورٹیں دل خوش کن نہیں ہیں۔ انہوں نے نہ صرف خاتون پر زیادتی کی اوٹ پٹانگ توجیہ کی بلکہ یہ افواہ بھی اڑاد ی کہ خاتون اپنے شہر اور سسرال کی پابندیوں کے باوجود میکے گئی تھیں، اور سسرال واپس جانے کی جلدی میں رات کو سفر پر نکلیں۔ پولیس افس کو اس غلط بیانی اور ذاتی رائے پر پہلے قومی اسمبلی میں ڈانٹ کاکھانا پڑی ، اور معافی مانگنا پڑی۔ لیکن پھر سینیٹ کی سامنے یہی لن ترانی کر کے سینیٹ کے اراکین کو برگشتہ کیا اور پھر بیان سے مکر گئے۔
ان پولیس افسر کا، عمران خان کا، اور بے مہار صحافیوں کایہ رویئے ہمارے اوپر سے نیچے تک ان دقیانوسی روایت کی غمازی کرتے ہیں ، جونہ صرف خواتین پر زیادتیوں کی بنیاد ہے بلکہ جس نے ہمارے نظامِ انصاف کو بھی ناکارہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ہم آج بھی اپنے مائی باپ سعودی عرب جیسوں کی شدید قدامت پرستی میں رہنا چاہتے ہیں، جن کا جُوَا خود سعودی عرب اتارنے کی کوشش کر رہا ہے۔
یہی وہ روایات ہیں جن کا شکار ہمارے معاشرہ کی ہر خاتون ہے۔ اس کی تازہ مثال پاکستان کی معرووف فنکا ر میشا شفیع کی اور فنکار علی ظفر کے خلاف جنسی زیادتی کا شکایت ہے۔ یہ معاملہ گزشتہ دوسال سے لٹکا ہوا ہے۔ اور آج خود میشا شفیع اور ان کے گواہوں پر پولس نے الٹا مقدمہ کر دیاہے۔ اس میں بھی ہمارے معاشرے کی پدرانہ روایات کا ارتعاش ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ میشاا ور ان کے گواہوں نے پولیس سے تعاون نہیں کیا اس لیے انہیں گرفتار کرکے تفتیش میں شامل کیا جانا ضروری ہے۔ ناطقہ سر بگریباں ہے۔۔۔ ہمیں ان روایات سے نجات اور خواتین اور مظلوموں کو انصاف ملنے کے لیئے ضروری ہے کہ ہر شہری اس ضمن میں دامِے، درمے، سخنے، اپنا کردار ادا کرے۔
♥
One Comment