ارشد بٹ
آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ پر سوچے سمجھے اورنپے تلے وار نے مزاحمتی سیاست کے سرخیل اور پختون قوم پرست راہنما ولی خان کی ایک تاریخی پیشگوئی یاد دلا دی۔ ولی خان مرحوم نے کئی دہائیوں قبل پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان میں ریاستی استبداد اور آمرانہ قوتوں کے خلاف فیصلہ کن جمہوری لڑائی پنجاب کے میدانوں میں لڑی جائے گی۔ ولی خان کا کہنا تھا جب تک پنجاب میں جمہور کی بالادستی اور ریاستی استبداد سے نجات کے لئے پاپولر آواز اور تحریک نہیں اٹھے گی ملک میں منتخب اداروں کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی، چھوٹی قومیتوں اور صوبوں کے حقوق کا حصول ایک خواب رہے گا۔
میاں نواز شریف کےمزاحمتی بیانیے کے بعد اہم سوال کہ کیا نواز بیانیہ پنجاب میں مزاحمتی جمہوری تحریک کا پیش خیمہ ثابت ہو سکے گا ۔ کیا پنجاب سے ابھرنے والی کوئی مزاحمتی تحریک دیگر صوبوں یعنی سندھ، پختون خواہ اور بلوچستان میں ارتعاش پیدا کرکے ملکی سطح پر عوامی ابھار پیدا کرنے میں کامیاب ہو سکے گی۔ کیا اس تحریک کے نتیجہ میں آمرانہ مزاج قوتیں پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہوں گی اور منتخب جمہوری ادارے ریاستی نظام میں مزید جگہ بنانے میں کامیاب ہو سکیں گئے۔ مسلم لیگ نواز اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل دیگر سیاسی جماعتوں کا روایتی مفاد اور موقعہ پرستانہ سیاسی کردار ،ریاستی اور حکومتی نظام میں دھنسی ہوئی اسٹبلشمنٹ کے مفادات اور طرز عمل کے پیش نظر متذکرہ سوالات کا تسلی بخش جواب تلاش کرنا مشکل ہو گا۔
نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف مزاحمتی بیانیے اور گیارہ جماعتی اتحاد کےاعلامیہ پر وزیر اعظم عمران خان اور حکومتی اہلکاروں کے گھبراہٹ زدہ مذمتی بیانات سے پی ٹی آئی حکومت کی پریشانی اور بوکھلاہٹ ظاہرہے۔ عقل و دانش سے محروم حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے اعلامیہ اور میاں نواز شریف کے بیانیے پر منطقی سیاسی رد عمل دینے کی بجائے انڈین بیانیہ، انڈین بیانیہ کی رٹ لگانی شروع کر دی۔
قیام پاکستان کے بعد انڈین ایجنٹ ہونے کا اعزاز محترمہ فاطمہ جناح، بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرستوں کے حصے میں آتا رہا۔ بنگالی، سندھی، پختون اور بلوچ قوم پرست راہنماوں کو بانٹے گئے غداری کے تمغوں میں اب پنجاب سے سیاسی راہنما نواز شریف کے نام کا اضافہ بھی ہو گیا ہے ۔ نواز بیانیے اور ڈیموکریٹک موومنٹ کے اعلامیہ پر بے تکے اورجارحانہ بیانات حکومت کی شکست خوردہ ذہنیت اور پسپائی کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ اپوزیشن کے احتجاجی جلسوں، جلوسوں اور ہڑتالوں کے بعد اگر ریاستی تشدد اور گرفتاریوں کا سلسلہ چل نکلا تو یہ عمران حکومت کے زوال کا آغاز بن سکتا ہے۔
اسٹبلشمنٹ کے ترجمان سمجھے جانے والے حضرات نے محتاط طرزعمل اختیار کرتے ہوئے بیان جاری کئے کہ اسٹبلشمنٹ کا سیاسی معاملات سے کوئی تعلق نہیں اور وہ صرف سول انتظامیہ کی طلبی پر انکی مدد کرتے ہیں۔ مگر سٹیٹ سے بالاسٹیٹ، قانونی حکومت کے متوازی حکومت، انتخابات سے قبل ہار جیت کا فیصلہ، عدلیہ کے متنازعہ کردار پر سوالات اور ان جیسے دوسرے الزامات کی صفائی کے لئے ایسابیان ناکافی ہے۔ پاکستان کے تین بار رہنے والے وزیر اعظم نواز شریف کےلگائے گئے انتہائی سنجیدہ الزامات کا اس قدر سطحی اور غیر سنجیدہ بیان کیسےقابل قبول سمجھا جا سکتا ہے۔ اب حالات جس نہج پر پہنچ چکے ہیں انکا کوئی وقتی جواب یاسطحی حل، حالات کی سنگینی اور گراوٹ میں کمی نہیں لا سکے گا۔ عوام کو نواز شریف کے اٹھائے گئے سوالات کا سنجیدہ اور مدلل جواب چاہئے۔
عوام کے ذہنوں سے بھٹو کا عدالتی قتل، بے نظیر بھٹو کا سر عام بے ہیمانہ قتل اور نواز شریف کی ملک بدری کے نقش محو نہیں ہوئے۔ عوام جنرل ایوب، جنرل یحیٰ، جنرل ضیا اور جنرل مشرف کی طالع آزمائی اور بزور طاقت ملک پر ناجائز قبضوں کو بھی نہیں بھولے۔ نوے کی دہائی میں ڈکٹیٹر ضیا کی آئینی ترامیم کے تحت صدارتی حکم پر بے نظیر بھٹو اور نواز شریف حکومتوں کی برطرفی کے قصے بھی عوامی یاداشتوں کا حصہ ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فوجی ڈکٹیٹروں کے بار بار اقتدار پر غیر آئینی قبضوں کو آئینی لبادہ پہنانے والے سیاہ فیصلے بھی اس ملک کی تاریخ کا حصہ ہیں ۔ اب نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے نے اسٹبلشمنٹ کو عوام کے کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے۔ عوام کی نظروں سے کچھ ڈھکا چھپا نہیں مگر متعلقہ حلقے یہ سب تسلیم کرنے پر آمادہ نظر نہیں آتے، جبکہ تاریخ کے صفحات پر لکھا سب کچھ پڑھا جا سکتا ہے۔
کیا نواز شریف کے اسٹبلشمنٹ مخالف مزاحمتی بیانیے اور اسٹبلشمنٹ کو چیلنج کرنے کے بعد ولی خان کی پیشن گوئی پوری ہونے کا وقت قریب آنے والا ہے۔ نواز شریف کا ماضی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ آنکھ مچولی، جھگڑوں اور غیر اصولی سرنڈر سے عبارت ہے۔ اس بات میں بھی شک نہیں کہ آج نواز شریف پنجاب میں سب سے زیادہ مقبول اور طاقتور سیاسی راہنما بن چکے ہیں۔ جیل میں مقید یا بیرون ملک رہ کر نواز شریف کا ملکی سیاست میں کردار سب سے اہم ہو چکا ہے۔
نواز کے اسٹبلشمنٹ کے خلاف احتجاجی بیانیے نے انکی مقبولیت میں رات دگنا دن چگنا اضافہ کر دیا ہے۔ جابرانہ ریاستی ہتھکنڈوں کے استعمال میں اضافے کے ساتھ ساتھ لندن میں بولتا نواز شریف ،عمران حکومت کے لئے ایک ڈراونا خواب بنتا جا رہا ہے اور سات سمندر پار بیٹھا نواز شریف اسٹبلشمنٹ کے لئے سر درد سے کم نہیں۔ قرائن بتاتے ہیں کہ مجوزہ تحریک کا مرکز پنجاب بننے جا رہا ہے۔ مزاحمتی بیانیے کے بعد اگر نواز شریف اپنے چھوٹے بھائی شہباز کی پالیسی پر چلتے ہوئے ایک بار پھر اسٹبلشمنٹ کے سامنے سر نگوں ہو گئے تو وہ نہ صرف اپنی عوامی مقبولیت اورسیاسی وقارو احترام کھو بیٹھیں گے، بلکہ تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دئے جائیں گے۔
مزاحمتی بیانیے کے بعد پاکستان اور خصوصا پنجاب نواز شریف سے تاریخی مزاحمتی کردار کی توقع لگا بیٹھے ہیں۔ نواز شریف کی مزاحمتی سیاست پنجاب میں جمہوری قوتوں کی فیصلہ کن لڑائی کی طرف ایک بڑی جست ہو گی۔ حالات کے رخ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی مجوزہ تحریک کا مرکز پنجاب بننے جا رہا ہے جبکہ پختون خواہ بھی اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہو گا۔
اس وقت نواز شریف تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہیں کہ وہ کہاں تک عوام کا ساتھ دیتے ہیں۔ اگر نواز شریف اور ڈیموکریٹک موومنٹ میں شامل جماعتوں نے ماضی کی طرح اپنے مفادات کے تابع عوامی جمہوری حقوق اور اصولوں پر سودہ بازی کی، تو یہ جمہوری تحریک اور عوامی حقوق کے لئے زہر قاتل ثابت ہو گی۔ اپنے اعلان کردہ پروگرام کے مطابق اگر ڈیموکریٹک موومنٹ احتجاجی تحریک منظم کرنے میں کامیاب ہو گئی تو سڑکوں پر احتجاجی عوامی لہرکو کچلنا ممکن نہ ہو گا۔
اب جمہوری قوتوں کے پاس ریاستی چیرہ دستیوں کے سامنے کھونے کے لئے کچھ نہیں بچا۔ نام نہاد منتخب سول ادارے بے بس اور زیر دست ہو چکے ہیں، آئین و قانون کی بالادستی خواب بن چکا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی اور آزاد میڈیا اپنی وقعت کھوتے جا رہے ہیں۔ اب جمہوری قوتوں کے لئے کھونے کو کچھ نہیں صرف پانے کو ہے۔ حالات کیا رخ اختیار کریں گے، براہ راست ٹیک اوور یا سیاسی قیادت کے لئے مناسب مقام۔ آج حالات تاریخ کے ساتھ ہیں کہ مقتدرہ کو پیچھے ہٹ کر جمہوری قوتوں کو مناسب جگہ دینا ہوگی۔
♦