پاکستان کے پولیس سسٹم میں کیسے تبدیلی لائی جائے؟

بیرسٹرحمیدباشانی

پولیس میں سیاسی مداخلت عام ہوچکی ہے۔پنجاب پولیس میں ہونےوالےتبادلےاس بات کی علامت ہیں کہ پولیس کےمحکمےمیں کس قدرسیاسی مداخلت ہے، جس کے نتیجے میں عوا م کی جان ومال محفوظ نہیں ہے۔

 موٹروے پرخاتون سے زیادتی کا واقعہ انتہائی شرمناک ہے۔ ہائی وے پرشہریوں کی حفاظت کا موثرنظام ہی موجود نہیں ہے۔ معصوم مسافروں کوسنگین جرائم کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ حکومت ہوش کےناخن لے، اورمحکمہ پولیس کی ساکھ بحال کرے۔  پولیس میں کسی بھی شخص کی مداخلت کا راستہ روکے۔  حکومت کوجاگنےکی ضرورت ہے۔ امن وامان حکومت کی بنیادی زمہ داری ہے، پولیس کا شفاف نظام وقت کی اہم ضرورت ہے۔  پولیس کی کمان نااہل اورغیرپیشہ ورانہ افرادکےہاتھوں میں ہے۔پولیس فورس نظام وضبط کےبغیرکام نہیں کر سکتی۔ اس وقت تک عوام کے جان ومال کےتحفظ کویقینی نہیں بنایاجا سکتا، جب تک پولیس فورس میں پیشہ ورانہ مہارت نہ ہو۔

مذکورہ بالاخیالات حزب اختلاف کےکسی رہنما کےنہیں، بلکہ پاکستان کےچیف جسٹس کےخیالات ہیں، جن کااظہارانہوں نے گشتہ ہفتے جوڈیشل اکیڈمی میں کیا ہے۔  چیف جسٹس کی اس تقریرکا خلاصہ اگراپنےالفاظ میں پیش کیا جائےتوانہوں نےجن مسائل کا ذکرکیا ہے، ان میں پہلےنمبرپرپولیس میں سیاسی مداخلت ہے۔  دوسرے نمبرپرپولیس فورس میں تربیت اورنظام وضبط کی کمی ہے۔  تیسرابڑا مسئلہ شفافیت کی کمی ہے، اورچوتھا مسئلہ نااہلیت ہے۔

چیف جسٹس کا یہ فرمان دیکھ کر2016 کی ایک رپورٹ یادآتی ہے۔  اس رپورٹ کوورلڈ انٹرنل سیکورٹی اینڈپولیس انڈکس 2016″ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ انڈکس انٹرنیشنل سائنس ایسوسی ایشن، اورانسٹیٹیوٹ فاراکنامکس اینڈپیس نےمشترکہ طورپرتیارکی ہے۔  اس رپورٹ میں دنیا کے ایک سوستائیس ممالک میں اندرونی سیکورٹی کی صورت حال اورپولیس فورس کی ساکھ کا جائزہ لیا گیا ہے۔  اس جائزے کے دوران جن سوالات پرتوجہ مرکوزکی گئی ہےان میں پہلایہ ہےکہ کوئی ملک اپنی اندرونی سیکورٹی یعنی عوام کی جان ومال کےتحفظ، اورجرائم کی روک تھام کے لیے کتنے وسائل مختص کرتاہے۔  سالانہ بجٹ میں پولیس فورس اورداخلی سیکورٹی کے لیےکتنی رقم رکھی جاتی ہے۔

دوسرا سوال یہ ہےکہ کیا ان وسائل کوموثراورمناسب اندازمیں استعمال کیاجاتا ہے۔ اورتیسرا سوال یہ ہےکہ کیا اس ملک کاعام آدمی اپنی پولیس کوپسندیدگی کی نظرسےدیکھتا ہے، اوراسےپولیس پراعتماد ہے۔  چوتھاسوال یہ ہےکہ کسی ملک کی اندرونی سیکورٹی کی کیاکیفیت ہےاوراس کوکس قسم کےخطرات لاحق ہیں۔

داخلی سیکورٹی کےلحاظ سےشمالی امریکہ اوریورپ کےممالک پہلےدس بہترین ممالک میں شمارہوتے ہیں۔ جب کہ افریکہ کےسب صحاران ممالک اس انڈکس میں سب سے نیچےآتےہیں۔  دنیا میں بدترین پولیس کےاعتبارسےپہلے پانچ ممالک میں نائجیریا، کانگو، کینیا، یوگنڈا اورپاکستان شامل ہیں۔ اس فہرست میں نائجیریاسب سےنیچےہے۔  سب سےنیچےہونےکی وجہ اس ملک میں دہشت گردی ، بغاوتوں کاعنصربھی ہے، لیکن اصل اوربڑی وجہ پولیس میں سیاسی مداخلت اوروسائل کی کمی یاوسائل کاناجائزاستعمال ہے۔  نائجیریا میں ہرایک لاکھ شہری کے لیے کے لیےصرف دوسوانیس پولیس والےہیں۔ 

 فہرست میں سب سے نیچےآنے والےان پانچ ملکوں کی پولیس میں قدرمشترک یہ ہےکہ پولیس میں سیاسی مداخلت ہے۔  پولیس میں کرپشن اوررشوت عام ہے، اورڈسپلن اورتربیت ناقص ہے۔ ان ملکوں کےسروےکےمطابق اسی فیصد شہریوں نےتسلیم کیا کہ وہ گزشتہ ایک سال کےدوران پولیس کومختلف وجوہات کی بناپررشوت دینےپرمجبورہوئےہیں۔  یا ان کےسامنےپولیس نےاپنےذاتی مفاد کےلیےاپنی سرکاری حیثیت کاغلط استعمال کیا ہے۔انڈکس میں پولیس سروس کےاعتبار سےجن ممالک کوسب سےبہترین قراردیا گیا ہے، ان میں فن لینڈ، ڈنمارک، آسٹریا، اورجرمنی وغیرہ شامل ہیں۔

 بد ترین پولیس سروس کےباب میں پاکستان کوچارافریکی ممالک کےساتھ پانچویں نمبرپردکھانے پرپاکستان میں کچھ لوگوں نےحیرت اورکچھ نےغصےکا اظہارکیا تھا۔  حالاں کہ انڈکس بنانے والوں نےاپنی رپورٹ میں بڑی تفصیل سےاعداوشمارپیش کیےہیں، اوروہ وجوہات بیان کی ہیں،  جن کی بنیاد پریہ درجہ بندی کی جاتی ہے۔یہ رپورٹ چارسال پہلےآئی تھی۔ اگراس پرناک بھوں چڑانےیا اسے نظر انداز کرنے کے بجائےمثبت سوچ کےتحت اس سےاستفادہ کیاجاتا، اپنےگریبان میں جھانکنے کی زحمت گواراکی جاتی اوراصلاح احوال کی کوئی سبیل نکالی جاتی توآج صورتحال شایدمختلف ہوتی۔

چیف جسٹس صاحب  نےگزشتہ ہفتےجوڈیشل اکیڈمی میں تقریرکرتےہوئےپولیس کی حالت زارکےبارے میں جوفرمایا ہے وہ وہی حقائق ہیں جوانڈکس رپورٹ میں اعدادوشمار کےساتھ چاربرس قبل پیش کیےگئےتھے۔ چیف جسٹس کی اس تصدیق کےبعدارباب اختیار کے ذہنوں میں شک وشبےکی گنجائش نہیں ہونی چا ہیے۔  اگرافق تھوڑاساوسیع کیاجائے، اوردنیا کےان بیس ممالک کاجائزہ لیاجائے، جن کی پولیس سروس کودنیا کی بہترین سروس سمجھاجاتا ہے توبہت سارے واضح سبق ملتےہیں۔

ان ممالک میں کنیڈا، برطانیہ، آسٹریلیا وغیرہ کوشامل کیاجاسکتا ہے۔ ان ممالک کی پولیس تھوڑے فرق کےساتھ برطانوی ماڈل پرچلتی ہے۔ ان میں قدرمشترک یہ ہےکہ پولیس میں سیاسی مداخلت نہیں ہے۔ جس کامطلب یہ ہےکہ پولیس کےمعاملات میں سیاست دان، حکومتی وزرا، سرکاری اہل کاریا بیورکریٹ کوئی مداخلت نہیں کرسکتے۔

دوسری چیز یہ ہےکہ ان ممالک میں پولیس خودمختارہے۔  پولیس کےنظم نسق کےلیےپولیس بورڈز، پولیس کمیشنز، ٹریبونلزاور سولین پولیس کمیشنزہوتےہیں۔ شہریوں کی شکایات کی فوری سماعت اورازالےکےلیےمیکانزم موجود ہیں۔ ان ملکوں کےکامیاب پولیسنگ نظام سےدوسرےممالک فائدہ اٹھارہے ہیں۔ امریکہ کا لاس انجلس پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنےافسروں کی تربیت کےلیےکینیڈاکےپولیس آفیسرزکی خدمات لیتا ہے۔

 پولیس کی کارکردگی کےلیےتربیت کےطریقہ کاراورماڈل کابہت اہم کردارہوتا ہے۔ اس سلسلےمیں جرمنی کےماڈل سےاستفادہ کیاجا سکتا ہے، جہاں پولیس آفیسرزکوتربیت کے لیےچارسال تک عرصہ لگ سکتا ہے، اس طویل تربیت کےدوران پولیسنگ میں ماسٹرڈگری کا آپشن بھی موجود ہوتاہے۔

پاکستان میں کسی بھی شعبے میں جب اصلاح کی بات ہوتوارباب اختیاروسائل کی کمی کارونا شروع کردیتےہیں۔  لیکن حقیقت یہ ہےکہ موجودہ وسائل کےاندررہ کرمناسب قانون سازی سے بہت سارے معاملات درست کیےجاسکتے ہیں۔  ہر مسئلہ مالی وسائل سےحل نہیں ہوتا۔ اس کےلیےبسا اوقات عقل ودانش اورمناسب منصوبہ بندی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔ امریکہ کے پاس فن لینڈ سےکئی زیادہ مالی وسائل ہیں۔ اورامریکہ اپنی پولیسنگ پرفن لینڈ سےکئی زیادہ خرچ بھی کررہا ہے۔ مگرامریکہ کےمقابلےمیں فن لینڈ کی پولیس کئی زیادہ بہترہے۔

مثال کےطور پرامریکہ میں آئےدن پولیس کی طرف سےعام شہری کوگولی مارنےکی خبریں آتی رہتی ہیں، جس سےعوام میں پولیس کی ساکھ اور اعتماد میں کمی آتی ہے۔  فن لینڈ میں برسوں ایسی کوئی خبرنہیں آتی۔  اس کی وجہ وہاں پولیس کی تربیت کاماڈل  ہے، جس کےتحت پولیس آفیسرزکومشکل صورت حال سے گولی چلائےبغیرنمٹنےکی تربیت دی جاتی ہے۔  یہ اس تربیت کا اعجازہےکہ گزشتہ بیس سالوں کےدوران پولیس کی طرف سےگولی چلانےکےصرف سات واقعات ہوئے ہیں۔

 پاکستان میں پولیس فورسز میں اصلاح احوال کےکئی طریقےموجود ہیں۔لیکن اس باب میں کئی دفعہ ایسی صورت بھی درپیش ہوسکتی ہے، جب اصلاح احوال کی کوئی گجائش ہی نہیں ہوتی۔ اس صورت میں کسی ادارےیا محکمےکوجڑسےاکھاڑکرازسرنوتعمیرکرنےکا آپشن سب سےاچھاآپشن ہوتا ہے۔یعنی جہاں آوے کا آوہ ہی بگڑاہووہاں کبھی کبھارانقلابی اقدامات کرنےپڑتےہیں۔ یہ کام روس کی ایک پڑوسی ریاست جارجیامیں ہواتھا۔

بیس سال پہلےجارجیا کی پولیس کودنیا کی کرپٹ اورنااہل ترین پولیس سمجھاجاتا تھا۔ دوہزار چارمیں وہاں نئی حکومت آئی تواس نےفیصلہ کیا کہ پولیس اس قدربدعنوان ہوچکی ہےکہ اس میں اصلاح ایک ناممکن کام ہے؛ چنانچہ انہوں نےپوری پولیس فورس کوہی ختم کرکےازسرنوبنانےکا فیصلہ کیا ۔

نئی بھرتی کےتین سالہ پروگرام کےتحت تیس ہزارآفیسرزکوبرخواست کرکہ ان کی جگہ نئی بھرتی کا عمل شروع کیاگیا، اورنسبتاچھوٹی، اعلی تعلیم یافتہ ، بہترتربیت یافتہ، اورکرپشن سےپاک فورس تیارکی گئی۔  کئی سال بعد یہ طریقہ ریاست نیوجرسی کے شہرکیمڈن میں اپنایا گیا،  جہاں پورے پولیس ڈیپارٹمنٹ کو فارغ کرکہ نئی اعلی تعلیم اورتربیت یافتہ لوگوں کوبھرتی کیاگیا ، جس کےبعدیہاں جرائم کی شرح میں بیالس فیصد کمی آئی۔

  پولیس میں مکمل اصلاح کےدس سال منصوبے کےتحت تین اقدامات کرکہ اس کودنیا کی بہترین پولیس میں تبدیل کیاجاسکتا ہے۔ پانچ سال بعدپولیس میں کسی بھی سطح پربھرتی کے لیےقانون، کریمنالوجی یا پولیسنگ میں ڈگری لازم قراردی جائے۔  پولیس کالجزمیں تربیت کاماڈل تبدیل کیاجائے۔  پولیس آفیسرزکودوسرے بیوروکریٹس کے برابردرجہ، مراعات، ٹرانسپورٹ اوردیگرسہولیات دی جائیں۔

Comments are closed.