خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان اور ان کے اتحادی جنگجو قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر صف بندی کررہے ہیں اور یہ مسلح گروہ دوبارہ سرحدی علاقوں میں قدم جما سکتے ہیں۔
اس سال مارچ سے افغانستان میں موجود داعش اور القاعدہ سے منسلک پاکستانی طالبان کو خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ شاید وہاں جنگ بندی کی کوششیں کامیاب ہونے سے ان کا وہاں رہنا مشکل ہو جائے گا۔تحریک طالبان پاکستان، جو کافی حد تک کمزور ہو چکی تھی، نے بظاہر پاکستانی قبائلی علاقوں میں دوبارہ قدم جمانے شروع کر دیے ہیں۔
جولائی میں ٹی ٹی پی نے تقریبا چھ مقامی مسلح گروہوں کے ساتھ اتحاد کیا۔ اسلام آباد میں فاٹا ریسرچ سینٹر کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر منصور خان محسود کا کہنا ہے، ”اس گروپ کی صلاحیت، عسکری طاقت اور اس کے دائرہ کار میں وسعت پیدا ہوئی ہے”۔
ستمبر کے مہینے میں تقریبا ہر روز ہی کہیں نہ کہیں حملے ہوئے ہیں۔ کبھی سڑک کنارے بم نصب کیے گئے، کبھی سنائپر حملے ہوئے اور کبھی گھات لگا کر سکیورٹی فورسز اور حکومت کے قریب سمجھے جانے والے مقامی لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے اعداد و شمار کے مطابق ان علاقوں میں مارچ کے بعد سے کم از کم 40 پاکستانی فوجی مارے جا چکے ہیں۔
اسی طرح جنوری سے جولائی کے درمیان 67 حملے ہوئے اور ان میں 109 شہری بھی مارے گئے۔ فاٹا ریسرچ سینٹر کے مطابق 2019 کے مقابلے میں یہ تعداد دگنی ہے۔
واشنگٹن میں قائم سٹیمسن سینٹر کے پروگرام برائے جنوبی ایشیاء کی ڈپٹی ڈائریکٹر الزبتھ تھرکلیلڈ ماضی میں امریکی وزارت خارجہ سے منسلک رہ چکی ہیں اور پاکستان میں بھی کام کر چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ”ٹی ٹی پی کا دوبارہ قدم جمانا دو طرح سے پریشان کن ہے۔ ایک تو اس کی اپنی کارروائیاں باعث تشویش ہیں اور دوسرا اس کے القاعدہ جیسے گروہوں سے بھی روابط ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا ہے، ”اگر یہ گروپ دوبارہ علاقوں پر کنٹرول حاصل کرتا ہے تو یہ بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کو اہم مدد فراہم کر سکتا ہے۔‘‘
سیاسی ماہرین کی رائے میں افغانستان میں امن قائم کرنے کی کوششوں کا ایک غیر ارادی نتیجہ یہ نکل سکتا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بدامنی بڑھ جائے۔ امریکا کے ساتھ ہونے والے امن معاہدے کے تحت افغان طالبان نے یہ گارنٹی دی ہے کہ وہ غیرملکی شدت پسندوں کی پناہ گاہیں ختم کریں گے۔
اقوام متحدہ نے جولائی میں ایک رپورٹ جاری کی تھی، جس کے مطابق افغانستان میں تقریبا چھ ہزار پاکستانی جنگجو موجود ہیں اور ان میں سے زیادہ تر ٹی ٹی پی سے منسلک ہیں۔ اس رپورٹ میں خطرہ ظاہر کیا گیا تھا کہ افغانستان میں پناہ گاہیں ختم ہونے کی صورت میں وہ واپس پاکستان کا رخ کر سکتے ہیں۔
افغان سرحد سے متصل قبائلی علاقوں میں لوگوں کے لیے حالات پریشان کن ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹی ٹی پی نے رواں ہفتے ہی ایک بیان میں لوگوں کو متنبہ کیا کہ ”جب تک امن قائم نہیں ہو جاتا، وہ یہ علاقہ چھوڑ دیں۔ پاکستان کے خلاف ہماری جنگ جاری ہے اور آپ کو روزانہ ایسے حملے دیکھنے کو ملیں گے‘‘۔
گذشتہ روز پی ٹی ایم کے رہنما منظور پاشتین نے لائیو وڈیو میں مختلف موضوعات پر بات کی۔ جن میں قبائلی علاقاجات میں افواج پاکستان کی ایک نئے جنگ کی شروعات کیلیے نئی صف بندی،اجتماعی سزاؤں کا تسلسل، پی ٹی ایم کا انکے خلاف مزاحمتی ردِعمل وغیرہ شامل ہیں۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ قبائلی علاقاجات میں کوئی نئی جنگ شروع نہیں ہوئی بلکہ پرانی جنگ کا تسلسل ہے۔یہ کہ یہ جنگ افغانستان میں پاکستان کی طرف سے طالبان کے ذریعے جاری جنگ سے جدا نہیں کی جا سکتی بلکہ دونوں جنگیں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔
یہ کہ قبائلی علاقہ جات میں پرانی جنگ کی اس نئی لہر کا تعلق افغانستان میں جاری برائے نام امن مذاکرات کی یقینی ناکامی کی صورت میں طالبان کے پلان بی کا حصہ ہے۔ اور پی ٹی ایم کو قبائلی علاقہ جات میں جگہ جگہ ظلم کی آگ بجھانے کے ساتھ ساتھ خطے کی مجموعی صورت حال اور مستقبل قریب میں رونما ہونے والے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے کیا حکمت عملی بنانی چاہیے۔
dw.com/web desk