شرافت رانا
پاکستان میں دو طاقتیں یا گروہ ، اینکرز، ٹی وی چینلز اور اخبارات پر پر انویسٹمنٹ کرتی ہیں اور انہیں اپنے قابو میں رکھتی ہیں۔ پہلے نمبر پر قومی ادارہ ہے۔ دوسرے نمبر پر شریف خاندان ہے ۔ شریف خاندان آجکل چونکہ اس قدر طاقت میں نہیں ہے لہذا فی الوقت اسے نظر انداز کردیں۔
گزشتہ کم از کم 12 سال میں یہ بات بارہا واضح ہو چکی ہے کہ میڈیا کے وجود کا جواز صرف اور صرف پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر جمہوریت پسندوں کی کردار کشی ہے۔ ہمیں میڈیا میں اپنے مخالف مہم چلتی تکلیف نہیں دیتی ۔ البتہ جھوٹ کی تکرار تکلیف دیتی ہے۔ کہانیاں لکھی جاتی ہیں ، تصوراتی الزامات گھڑے جاتے ہیں ان کی تکرار کر کے لوگوں سے منوایا جاتا ہے کہ یہی اکلوتا سچ ہے۔
پریشانی کی یہ بات ہوتی ہے کہ بہت سے لوگ جو اپنے آپ کو جمہوریت پسند منوانا چاہتے ہیں اور جمہوری اقدار پر قائم رہنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ پہلی بات کہ وہ اس میڈیا مہم کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم کیوں ہیں۔ دوسری بات کے وہ وہ پی پی پی لیڈر شپ کی کردار کشی سے متعلق نتائج اس قدر جلد اخذ کیوں کرتے ہیں۔
جتنا وقت آصف علی زرداری کو بدکردار اور اسٹیبلشمنٹ کا ایجنٹ منوانے کے لئے کامران خان ۔ کامران شاہد ۔ شاہ زیب خانزادہ اور دیگر تمام اینکرز لیتے ہیں ۔ ہمارے یہ دوست بھی اس سے کہیں کم وقت میں یہ بات ماننے اور منوانے کے لیے ہر وقت آمادہ اور تیار رہتے ہیں کہ آصف علی زرداری بزدل انسان ہے ۔اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ میں آ جاتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جو چاہے اس سے کروا لیتی ہے۔
ہمیں اس بات پر بھی اعتراض نہیں ہے کہ آپ یہ بات مان لیں۔ لیکن جب آپ دوسروں کو اس امر کی تبلیغ کرنا شروع کرتے ہیں تو پھر آپ کے پاس اس کی گواہی میں کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی دلیل ہونی چاہیے۔ اگر کوئی بھی شخص اس بات کی نشاندہی کر دے کہ آپ کی بات دلیل سے محروم ہے اور محض میڈیائی دانش کی جگالی ہے تو دوست غصہ کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ان کا اظہار آزادی رائے غصب کرنے پر تلے ہیں ۔
ہم خود اظہار آزادی رائے کے سب سے بڑے حامی اور مدعی ہیں ہم کیوں آپ کا یہ حق چھین لیں گے۔ مختصر بات یہ ہے کہ جو بات میڈیا پر کہیں جا رہی ہو وہ تاریخ کا سبق ہے کہ کبھی سچی نہیں ہوتی۔
کہتے ہیں کہ “میڈیا کی سرخی کبھی تاریخ کا بڑا سچ نہیں بنتی ” ۔اس کی وجہ محض یہ ہے کہ سرخی لگانے والا سچ بیان نہیں کر رہا ہوتا ۔ تازہ ترین قانون سازی پر تمام لوگ جو پی پی پی کی قیادت کو برا بھلا کہہ رہے ہیں یہ سب وہی لوگ ہیں ۔جو افتخار چوہدری کے ساتھ کھڑے ہوئے پی پی پی کی قیادت کے گریبان میں ہاتھ ڈالا کرتے تھے۔
یہ سب دانشمند آصف علی زرداری کے خلاف جتھہ بنا کر حملہ آور ہوئے تھے ۔ان سب کو افتخار محمد چودھری کی ذات میں ایک مسیحا نظر آتا تھا۔ ہم اس وقت بھی کہا کرتے تھے کہ کردار یکسر یا اچانک تبدیل نہیں ہوا کرتے ۔ افتخار محمد چودھری ایک دن میں جمہوریت کا رکھوالا کیسے بن گیا۔ ہم یہ سوال پوچھا کرتے تھے کہ برطرفی سے قبل افتخار محمد چودھری کا کوئی ایک اچھا فیصلہ جمہوریت اور سیاست یا سیاسی جماعتوں کے قائدین کی بابت دکھا دیں تو ہم آپ کی بات ماننے کو تیار ہیں۔
لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ میٹرک ، ایف اے پاس میڈیائی نوٹنکیوں نے انہیں اس وقت بھی بیوقوف بنایا۔ اور آج بھی میڈیائی دانش یہی سیاپہ کر رہی ہے کہ قانون سازی اپوزیشن نے کروائی ہے ۔ بھائی اگر حکومت اجلاس نہ بلاتی تو اپوزیشن کیسے قانون سازی کروا لیتی۔
کیا یہ مشترکہ پارلیمانی اجلاس اپوزیشن کی ریکوزیشن پر بلایا گیا تھا۔ جو قوانین منظور کیے گئے ہیں کیا یہ اپوزیشن کی جانب سے نجی بل کی حیثیت میں بھجوائے گئے تھے ۔ یہ سرکار کے بچے تھے یہ حکومت کی ترجیحات ہیں اور حکومتی وکلاء اور وزیر قانون ان کی اہمیت پر لیکچر بازی کر رہے ہیں۔ وقت گزر جائے گا جب انہی قوانین کے تحت پی ٹی آئی کی موجودہ نصف کابینہ جیل کے اندر ہوگی تو ہم پوچھیں گے کہ یہ قانون سازی کس نے کروائی تھی۔ میڈیائی ا ینکر معاملہ کا رخ بدلنے کا کام کرتے ہیں ۔ ان کی ڈیوٹی لگائی جاتی ہے کہ وہ سیاسی قیادت کی کردار کشی کرے ان پر جھوٹے سچے الزامات لگائیں۔
بلاشبہ مسلم لیگ نواز کا ماضی دھوکہ دہی اور غلط فیصلوں پر مشتمل ہے ۔ بطور مخالف کے میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ وہ مستقبل میں بھی دھوکا دیں گے ۔
لیکن وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ۔ مسلم لیگ نواز کی قیادت یا دیگر سیاستدان جو بھی غلط کام کرتے ہیں وہ دباؤ میں کرتے ہیں ۔ یہ دباؤ پیدا کون کرتا ہے ۔ جمہوریت کی خدمت یہ ہوگی کہ اس دباؤ کے پیدا کرنے والے کے خلاف یکجان ہو جائیں ۔ مسلم لیگ نواز سے لڑائی ہم مستقبل میں بھی جاری رکھیں گے۔ لیکن جمہوریت محض اور محض عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل کرنے کو کہتے ہیں ۔
پی پی پی لیڈر شپ کو جمہوریت کی سربلندی کے لیے اگر کوئی قانون سازی کرنی ہے ۔ تو اس کے لیے مسلم لیگ نواز اور دیگر سیاسی جماعتوں اور قائدین کی مدد کی ضرورت ہے۔دیگر سیاسی جماعتیں خدا واسطے یا اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کے لئے آپ کی قانون سازی میں مدد نہیں کرتی ہیں ۔ اس کے لئے آپ کو اپنی اچھائی پر کمپرومائز کرنا ہوتا ہے۔ اگر آصف علی زرداری اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے وقت میثاق جمہوریت پر سختی سے اڑ جاتے تو کیا اٹھارویں ترمیم منظور ہو سکتی تھی ؟آصف علی زرداری نے اٹھارویں ترمیم کی منظوری کے وقت بہت زیادہ کمپرومائزز کیے تھے ۔ نواز شریف کے غیر جمہوری مطالبات کو منظور کر کے کم از کم جو ملتا ہے وہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ۔
وقت نے بتایا ، آصف علی زرداری یا پی پی پی کی قیادت نے کبھی اٹھارویں ترمیم پر فخر کا اظہار نہیں کیا تھا جب میاں محمد نواز شریف پر برا وقت آیا تو اس نے اٹھارویں ترمیم اور سی پیک کے پیچھے چھپنے کا فیصلہ کیا تھا جس سے عوام کو پتہ چلا کہ یہ دونوں بہت بڑے کام تھے۔
وقت گزر جائے گا۔ چھ مہینے سے بھی کم نہیں سب کچھ واضح ہو جائے گا لیکن اگر آپ کو اسی وقت سمجھ آنی ہے ہے تو آپ سیاسی کارکن کیوں بنتے ہیں۔ سیدھے سیدھے یوتھیا بن جائیں۔
♥