تاج جویو
“ سندھ کے نامور ادیب، محقق تنقید نگار تاج جویو صاحب کا، سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے سامنے اپنے بیٹے سارنگ اور دیگر مسنگ پرسنز کے سلسلے میں رکارڈ کرائے گئے بیان کا مکمل متن۔۔۔۔
گرامی قدر سینیٹر مصطفیٰ کھوکھر، چیئرمین سینیٹ فنکشنل کمیٹی فار ہیومن رائٹس، سینیٹر شیری الرحمٰن، سینیٹر کرشنا بائی، سینیٹر زیب جمالدینی، سینیٹر قرۃالعین مری، سینیٹر محمد طاہر بزنجو، سینیٹر عثمان کاکڑ اورجسٹس (ر) جاويد اقبال۔چیئرمن کمیشن آف مسنگ پرسنز
السلام علیکم ،حق موجود، جیئے انسانیت
جناب اعلی! میں آپ کا شکرگذار ہوں کہ آپ نے مجھے اس معزز ایوان میں اپنا موقف پیش کرنے کے لیے مدعو کیا تاکہ میں اپنے بیٹے سارنگ جویو کی جبراً گمشدگی کا کیس پیش کر سکوں، آپ سب کو بخوبی علم ہوگا کہ میرے موقف پیش کرنے سے پیشتر ان خوفزدہ، ان دیکھی قوتوں نے میرے بیٹے کو سخت ذہنی و جسمانی تشدد کے بعد کراچی کے ایک دور دراز علائقے میں چھوڑ دیا تھا۔
کمال کی بات یہ ہے کہ جبراً اٹھانے کے وقت میرے بیٹے کی جیب میں 1500روپے تھے اور ان قوتوں نے اس رقم کو دگنا کرکے میرے بیٹے کو آزاد کرتے وقت اس کو دے دیے۔ سندھ میں آجکل کچھ ٹھگ عورتیں گھروں میں جاکر سادہ لوح عورتوں کو جھوٹ موٹ بولتے کہتی ہیں کہ سونا اور پیسے دو تاکہ وہ ہم تمہیں دگنے کرکے دیں، تو ان معزز ان دیکھی قوتوں نے بھی یہ روایت قائم رکھتے پاکستان کی شان بڑھادی ہے۔
معزز صاحبان! میرا بیٹا جامعہ سندھ سے سندھی ادب میں ماسٹر کیے ہوئے ہے انہوں نے مٹھی (ڈسٹرکٹ تھرپارکر) جیسے دور دراز علاقے میں ماروی گرامر اسکول میں درس وتدریس سے کیرئیر کا آغاز کیا۔ بعدازاں محترمہ سلطانہ صدیقی اور سابق وائس چانسلر سندھ یونیورسٹی مظہرِ الحق صدیقی کی طرف سے ڈگھڑی (میرپور خاص) میں قائم شدہ ہائی اسکول میں ٹیچر رھے۔ وہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے نام سے منسوب ادارے زیبسٹ کراچی کے چیپٹر سندھ اسٹدیز اکیڈمی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
سارنگ سماجی سماجی کارکن رہا ہے، انہوں نے دورانِ تعلیم بے شمار سیمینار منعقد کرائے ہیں۔سندھ سجاگی فورم کے پلیٹ فارم سے، 2017 کی آدمشماري میں زبان کے کالم میں مادری زبان سندھی لکھنے، آنر کلنگ، مزدوروں کے حقوق، خاص طور پر مسنگ پرسنز کے اشو پر احتجاج میں حصہ لیا ہے۔
میں سارنگ کے تحقیقی کام کی تفصیلات یہاں پیش کرنے کے لیے لے آیا ہوں۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں ایم اے کے تھیسز سندھی شاعری کی صنف ترائیل پر تیار کی تھی۔ لوک ورثہ کی طرف سے کلہوڑا حکمران کے مقبروں پر انہوں نے کتاب لکھی تھی۔ یونیورسٹی کے دور میں وہ “ادبی منظر” رسالے کے ایڈیٹر تھے، سندھ اسٹڈیز اکیڈمی کے رسالے کے بھی وہ ایڈیٹر تھے۔ وہ سندھی لینگويج کورس لیول ون کے کورس انسٹرکٹر رھے اور سندھ اسٹڈیز اکیڈمی میں وہ سندھی پڑھاتے تھے، اس نے سندھ کی تاریخ پر کئی مقالات لکھے تھے شاہ لطیف کی شاعری پر وہ عبور رکھتے ہیں ۔
آج میرے بیٹے کو رات کے وقت آزاد کیا گیا ہے جس کے لیے سینیٹ آف پاکستان کی اس کمیٹی، جناب بلاول زرداری، محترمہ شیری الرحمٰن، محترم شہباز شریف، سید شاہ محمد شاہ، عبدالمجيد کانجو، مختلف چئنلز، ملک کے ادیبوں اور سول سوسائٹی کے حضرات کا احسان مند ہوں کہ جن کی جدوجہد، آواز اور احتجاج سے ڈرتے ان دیکھی قوتوں نے رات کے اندھیرے میں سارنگ کو آزاد کردیاہے۔ میں سارنگ کے سارے دستاویزات، ہائی کورٹ میں پٹیشن وغیرہ کے کاغذات یہاں لے آیا ہوں اگر آپ چاہیں گے تو میں یہاں جمع کرا دوں گا۔
لیکن معزز حضرات! یہ مسئلہ صرف میرے بیٹے سارنگ جویو کی جبراً گمشدگی (اور آزادی) کا نہیں ہے۔ میرے پاس سندھ سے جبراً اٹھا کر گم کیے گئے معلوم شہریوں کی لسٹ ہے جن کی تعداد 228 ہے، جن کو 2010 سے لے کر آج تک غائب کیا گیا ھے۔ ان میں سے 128 شہریوں کو آزاد کیا گیا ہے یا جیلوں میں ہیں یا مار دیئے گئے ہیں۔ اور اس وقت 80 افراد غائب ہیں جن کی جان کے تحفظ کا کوئی یقین نہیں ہے۔
یہ لسٹ میں آپ اور جسٹس (ر) جاويد اقبال کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ ان افراد کا جرم فقط یہ ہے کہ وہ سارے سندھ کے بیٹے ہیں، سندھ کے حقوقِ کی بات کرتے ہیں، سندھ میں بیرونی آبادکاری نہیں چاہتے اور پرامن سیاسی و سماجی جدوجہد کرتے ہیں۔اگر یہ ہی ان کا جرم ہے تو نہ فقط وہ بلکہ سندھ کے ہم سارے شہری یہ جرم کرتے رہیں گے
حق گوئي اگر جرم ہے اس دور اے دوست
اس جرم کا اقرار سرِ عام کریں گے
سر! مجھے ابھی ابھی رات کو بتایا گیا ہے کہ گذشتہ رات ایس یو پی کراچی کے سینئر کارکن عبدالرزاق شر کے 14اور 16 سالہ دو بیٹوں – بشیر شر اور غلام رسول شر کو بھی جبراً اٹھا کر گم کردیا گیا ہے۔ ان کا جرم یہ تھا کہ وہ میرے ساتھ کراچی پریس کلب کے سامنے چودہ تاریخ کو احتجاج میں شامل ہوا تھا۔ ان کی تصویریں ہیں۔
معزز چیئرمین! میں آپ کی خدمت میں سارے گمشدہ افراد کی تفصیل تو پیش نہیں کرسکتا لیکن پانچ معصوم بچوں اور بندوں کا مختصر ذکر کرتا ہوں۔
۔1۔ غلام هادي عرف عاقب چانڈیو لاڑکانہ کے رہائشی، طالب علم ہیں۔ انہیں سترہ سال کی عمر میں جبراً اٹھا کر غائب کیا گیا تھا، انیس سال کی عمر میں ذہنی معذور بنا کر ستمبر 2019 کو اسے آزاد کیا گیا۔ ان کی ماں نے نومبر2019 میں بیٹے کی شادی کرائی اور کچھ ہی عرصہ ہوا کہ وہ کراچی میں اپنے ماموں کے ہاں علاج کے لیے اپنی دو بہنوں اور بیوی کے ساتھ ایک فلیٹ میں رہائش پذیر تھے کہ اسے دوبارہ سات جون 2020 کو جبراً اٹھا لیا گیا اس کی ماں، بہنیں اور بیوی روزانہ روڈوں پر احتجاج کر رہی ہیں۔ مجھے خدشہ ہے کہ کہیں انہیں مار ڈالا نہ گیا ہو۔ کیونکہ ان میں تشدد برداشت کرنے کی قوت نہیں ان کی عمر بیس برس ہے۔
۔2۔ محفوظ نوتکانی، تعلقہ گولاڑچی، ڈسٹرکٹ بدین کے اکیس سال کے نوجوان شاگرد ہیں اس کو چوبیس جون 2020 کو زبردستی اٹھایا گیا وہ ہائی بلڈ پریشر کے ساتھ، دونوں گڑدوں میں پتھری کے مریض ہیں۔ مسلسل بخار میں مبتلا رہتے ہیں۔ اس کی جان کو خطرہ ہے اور آزاد کرنے کے لیے نوٹس جاری کیا جائے۔
۔3۔ شاهد جونیجو تیس سالہ نوجوان ہے۔ جسے تیس اگست 2017 کو جبراً اٹھا کر غائب کیا گیا ہے وہ اینگرو فوڈ کے ملازم ہیں دس ہزار ماہوار تنخواہ لیتے تھے ان کی بیوی خون کی کمی کی بیماری میں مبتلا ہیں۔۔ ان کی بیٹی اندرا جو والد کی گمشدگی کے وقت ابھی آٹھ سال کی ہوگئی ھے۔ ہر احتجاج میں نعرے لگاتی روتی رہتی ہے کہ میرے ابو شاہد جونیجو کو آزاد کرو۔
۔4۔ مرتضيٰ سولنگی انشورنس کمپنی کے ملازم تھے۔ جنہیں لاڑکانہ سے اٹھایا گیا۔ تین سال سے غائب ہیں ان کی والدہ کی بیٹے کے غم میں بینائی ختم ہوچکی ہے اور ان کی جدائی میں نیم پاگل ہو چکی ہیں۔
۔5۔ انصاف علی دایو نظر محلہ لاڑکانہ میں درزی ہیں انہیں ستائیس سال کی عمر میں اٹھایا گیا تھا، اب وہ تیس سال کے ہیں، ان کی ماں کو دو بار دل کا دورہ پڑا ہے۔ ان کے پاس بائی پاس کرانے کے لیے رقم نہیں، ٹینشن میں وہ بلڈ پریشر اور شگر کے مرض میں مبتلا ہو گئی ہیں اور ان گڑدوں میں زخم ہیں اگر وہ آزاد نہیں ہوئے تو ان کی ماں کی کچھ دنوں میں موت واقع ہو سکتی ھے۔
ان کے علاوہ ڈاکٹر فتح محمد کھوسو کندھکوٹ سے فروری 2016 سے، حیدر کھوسو 2011 سے، ایوب کاندھڑو خیرپور کے رہائشی– تین سالوں سے گم ہیں، صابر چانڈیو کو اے ٹی سی کورٹ نے آزاد ہونے کے بعد مقدمہ چلا کر کیس ختم کردیا تھا لیکن کچھ دنوں بعد کراچی سے اپنے عزیزوں کے گھر سے اٹھا لیا گیا ہے۔ ان کے علاوه 80 افراد گم ہیں، جن کے گھر کا چولہا نہیں جلتا آپ کو اپیل ہے کہ انہیں آزاد کرایا جائے۔
اگر حکومت، ایم آئی، آئی ایس آئی رینجرز اور پولیس اہلکار سمجھتے ہیں کہ وہ مجرم ہیں تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ماوراء عدالت و آئین گم کرنے کی کاروائیاں کی جائیں،اور وفاقی و سندھ حکومت خاموش رہیں؟ ، ان افراد کو انصاف فراہم کیا جائے۔
مجھے چودہ اگست کو صدر پاکستان کی طرف سے پرائیڈ آف پرفارمنس سے نوازا گیا تھا لیکن ایسی صورتحال میں جب ایک سو کے قریب میرے بچے، میرے بیٹے اور بھائی گم اور غائب ہوں اور ان کی زندگی کا پتہ نہ ہو میں ایسا ایوارڈ وصول کرکے کس طرح سودیبازی کر سکتا ہوں؟ میں اپنی قوم، اور قوم کے افراد کا نمائندہ ادیب ہوں میں سندھ کے وسائل پر سندھ کا حق چاہتا ہوں، سندھی زبان کو قومی زبان تسلیم کرانا چاہتا ہوں، اپنے لوگوں کی آزادی (یا ان کی عدالتوں میں پیشی اور موجودگی ) چاہتا ہوں۔ میں یہ ایوارڈ وصول کرنے سے انکار کرتا ہوں اور جب تک سندھ، بلوچستان یا پختون خواہ کا ایک بھی فرد غائب رہا میں اپنا احتجاج رکھوں گا اور یہ میرا فرض بنتا ہے۔
مجھے یہاں آتے معلوم ہوا ہے کہ میرے بیٹے کا زیبسٹ میں آفس کو سیل کردیا گیا ہے اور انتظامیہ پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ ان کی ملازمت ختم کی جائے۔ ہمیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں۔ سارنگ جويو ایک کسان کا بیٹا ہے۔ وہ رکشہ چلا کر بھی اپنے بچوں کے لیے دال روٹی حاصل کر لے گا۔ میں نے ایک ماہ قبل سارنگ کی بہن کے جہیز کے لیے اپنی پینشن سے بچا کر رکھی ہوئی رقم سے انہیں ایک رکشہ خرید کر دیا ہے تاکہ کسی ایمرجنسی میں وہ رکشہ چلا کر بچوں کی پرورش کر سکے۔
بقول ہمارے عظیم شاعر:۔
گبھو پاڻي ڈُھک میں بوڑے جے کھائیں
پنہنجے اونچے ڳاٹ کھے گر نہ جھکائیں
تو میرے سائیں! ڈات ڈہونی تھی ونجے
(او میرے پیارے!
گر نوالہ پانی میں تر کرکے کھاؤ
اونچی اپنی گردن کو گر نہ جھکاؤ
تو تخلیقی فن میں بڑے دس گنے ہو جاؤ)
تاج جويو والد سارنگ جويو– حيدرآباد