طالبان کے حملے بند ہونے تک امریکی فوج افغانستان میں رہےگی

امریکی محکمہ دفاع پینٹا گون کے ایک اعلی ترین فوجی افسر کا کہنا ہے کہ افغانستان سے مزید امریکی فوجیوں کی واپسی کا انحصار تشدد میں کمی اور طالبان کے ساتھ فروری میں طے شدہ دیگر شرائط پرعملدرآمد پر ہوگا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ امریکی افواج کرسمس تک افغانستان سے واپس لوٹ آئیں لیکن امریکی جوائنٹ چیف آف اسٹاف کے چیئرمین جنرل مارک ملی نے پیر کے روز کہا کہ افغانستان سے بقیہ 4500 امریکی فوجیوں کا انخلاء طالبان کے حملوں میں کمی آنے اور کابل حکومت کے ساتھ ان کے امن مذاکرات کو آگے بڑھانے پر منحصر کرے گا۔

جنرل ملی نے امریکی سرکاری ریڈیو این پی آر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا ”یہ پورا معاہدہ اور افواج کے انخلاء کے منصوبے حالات کے ساتھ مشروط ہیں۔

جنرل ملی کا کہنا تھا کہ ”اہم بات یہ ہے کہ ہم اس جنگ کو ذمہ داری کے ساتھ اور سوچ سمجھ کر ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ایسا ان شرائط کے ساتھ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جو افغانستان میں امریکی قومی مفادات کی حفاظت کی ضمانت دیتی ہیں۔

جنرل ملی کا کہنا تھا کہ فروری میں ہونے والے معاہدے کے بعد امریکی فوجیوں کی تعداد پہلے ہی بارہ ہزار سے کم کردی گئی ہے،اور اس میں مزید کمی کا انحصار طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مذاکرات میں پیش رفت اور تشدد میں بڑے پیمانے پر کمی پر ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ” یہ صدر کا بھی فیصلہ تھا کہ فوجیوں کے انخلاء کو مشروط کیا جائے اوراس بات پر ہمیشہ اتفاق رہا ہے“۔

اعلی امریکی فوجی افسر کا کہنا تھا کہ افغانستان میں کئی سال پہلے کے مقابلے میں تشدد کے واقعات میں کافی کمی آئی ہے، لیکن پچھلے چار پانچ مہینوں میں خاطر خواہ کمی نہیں دیکھی گئی۔

پینٹاگون نے اس انخلا کے بعد افغانستان میں نومبر تک فوجیوں کی تعداد 4500 کے قریب رکھنے کی توقع ظاہر کی ہے جبکہ اس سلسلے میں دوحہ میں ہونے والے امن مذاکرات پر بھی نظر رکھی جا رہی ہے۔ لیکن اس حوالے سے واشنگٹن سے ملے جلے اشاروں نے صورت حال کو مبہم کر دیا ہے۔

صدر ٹرمپ کے قومی سلامتی کے مشیر رابرٹ او برائن نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ آئندہ سال کے اوائل تک افغانستان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 2500 کر دی جائے گی لیکن بدھ کے روز ٹرمپ نے 25 دسمبر تک تمام افواج کوواپس بلانے کی خواہش ظاہر کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا۔

صدر ٹرمپ کا یہ بیان صدارتی انتخابات کے تناظر میں بھی دیکھا جا رہا ہے۔ دوسری جانب ایک مختصر مدت میں افواج کا انخلا افغان امن مذاکرات میں کابل حکومت کی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔

امریکہ اور طالبان کے درمیان ہونے والے معاہدے کی ایک شرط یہ تھی کہ طالبان شہری علاقوں پر حملے بند کردیں گے۔تاہم گذشتہ ہفتے کے اواخر میں صوبہ ہلمند کے صدر مقام لشکر گاہ کے مضافات میں زبردست لڑائی شروع ہوئی اور امریکی فورسز نے طالبان جنگجوؤں پر فضائی حملے کیے۔

جنرل ملی نے مخصوص تعداد کی وضاحت کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کی تعداد میں کمی کا فیصلہ صدر ٹرمپ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم ان حالات پر اپنا بہترین فوجی مشورہ دے رہے ہیں تاکہ صدر باخبر رہ کے، سمجھ بوجھ کر اور ذمہ دارانہ فیصلہ کرسکیں۔

DW.COM/URDU

Comments are closed.