ظفر آغا
سَنگھ پریوار بجز بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی مسلم حکمت عملی میں خصوصی تبدیلی کرنے والی ہے۔ پچھلے کچھ دنوں میں جو اشارے ملے ہیں اس سے دو باتیں ظاہر ہوتی ہیں۔ پہلی یہ کہ غالباً اب بھارتیہ جنتا پارٹی اور ہندوتوا گھرانے کی دوسری تنظیمیں دن رات جس طرح مسلم مذہبی عقائد پر چوٹ کرتی رہتی ہیں اس کمپین میں قدرے کمی آ جائے۔
مثلاً جس طرح نوپور شرما نے سیدھے رسول کریمؐ پر سیدھا وار کر دیا تھا، اس قسم کی عقائد پر سیدھا وار آئے دن نہ ہو۔ یا پھر جس طرح ہر مسجد کے نیچے ایک شیومندر کا شور ہو رہا تھا، اس قسم کا شور کم ہو جائے۔ اس کا اشارہ سب سے پہلے خود آر ایس ایس چیف موہن بھاگوت نے ایک بیان میں ابھی حال میں دیا تھا۔ اس بیان میں انھوں نے سَنگھ والوں سے یہ کہا تھا کہ ہر مندر میں ایک شیو مندر تلاش کرنا بے جا ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ ابھی چند روز قبل اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے عیدالاضحیٰ کے پیش نظر اس تہوار کو آمن و آشتی کے ساتھ منائے جانے کی اپیل کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اشارہ سَنگھ والوں اور صوبہ کے افسران کے لیے ہے کہ وہ بقرعید کے موقع پر مسلمانوں کو تنگ نہ کریں۔
ان باتوں سے یہ اشارے مل رہے ہیں کہ بی جے پی کا رویہ مسلمانوں کی جانب کسی حد تک آنے والے دنوں میں کچھ نرم ہو سکتا ہے۔ یہ بات قطعی یقین کے ساتھ نہیں کہی جا سکتی ہے، لیکن اس قسم کے کچھ اشارے ضرور مل رہے ہیں۔ اس کا بظاہر سبب عرب ممالک اور دوسرے مسلم ممالک میں اہانت رسولؐ کے معاملے میں ہونے والا رد عمل بھی ہے۔ سارے عالم اسلام میں اس معاملے میں ہندوستان کو خاصی خفت اٹھانی پڑی۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ اگر عالم اسلام، بالخصوص عرب ممالک کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو اس سے ہندوستانی معیشت پر منفی نقصان تو پڑے گا ہی، ساتھ ہی کروڑوں ہندوستانی جو ان ممالک میں روزگار سے لگے ہیں وہ بے روزگار ہو سکتے ہیں۔ اور ان میں اکثریت ہندو افراد کی ہے۔ یعنی مسلم عقائد پر سیدھے وار سے خود ملک اور ہندوؤں کا بھی نقصان ہے۔ اس لیے اس نقصان کو روکنے کے سبب سے مسلم عقائد پر ہونے والے سیدھے وار میں کمی کے امکانات ہیں۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ سَنگھ یا بی جے پی کی مسلم پالیسی میں بنیادی تبدیلی ہونے والی ہے۔ سَنگھ اور بی جے پی کا بنیادی مقصد مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنانا ہے اور وہ کام جاری رہے گا۔ یہ ممکن ہے کہ اس کے لیے اب دوسرے حربے استعمال کیے جائیں اور بظاہر مذہبی عقائد کے معاملے میں قدرے نرم رویہ اپنایا جائے۔ اس کے یہ معنی بھی نہیں کہ کاشی اور متھرا مساجد کے تئیں رویہ بدل جائے۔ تاج محل، قطب مینار اور بہت ساری چھوٹی بڑی مساجد کا شور کم ہو سکتا ہے۔ لیکن کاشی اور متھرا کی مساجد کا معانلہ ختم ہونا طے ہے۔ یہ کام بہت ممکن ہے کہ بابری مسجد کی طرح عدالت کے ذریعہ انجام پائے۔
لیکن بی جے پی کو اپنے مسلم مشن میں دو دقتیں درپیش ہیں۔ ایک، جیسا عرض کیا کہ مسلم عقائد پر سیدھی چوٹ سے عالم اسلام کا رد عمل کا خطرہ ہے۔ دوسرے ملک میں مسلم کثیر آبادی کے سبب چناوی نتائج میں بی جے پی کو منفی نقصان کا خدشہ ہے۔ یہ ایک زمینی حقیقت ہے کہ مسلمان اقلیت تو ہے، لیکن نمبر کے اعتبار سے وہ ملک کی دوسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ کچھ صوبوں مثلاً آسام و بنگال میں مسلم آبادی کا تناسب 25-30 فیصد تک ہے۔ پھر بہار و اتر پردیش میں بھی مسلم تناسب 18-20 فیصد ہے۔ حد یہ ہے کہ دہلی تک میں مسلم آبادی لگ بھگ 10-12 فیصد سے کم نہیں ہے۔ پھر مہاراشٹر اور کیرالہ جیسے صوبوں میں بھی مسلم ووٹر کا کافی دبدبہ ہے۔ بی جے پی جب سے متحدہ ہندو ووٹ بینک کی سیاست کر رہی ہے، تب سے رد عمل میں زیادہ تر چناؤ میں مسلم ووٹ بینک بھی متحد ہی رہتا ہے اور اس سے بی جے پی کو چناؤ میں نقصان کا خطرہ رہتا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی پچھلے ہفتے اس متحدہ مسلم ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے بی جے پی کو ایک مشورہ دیا ہے۔ پچھلے ہفتے حیدر آباد میں ہونے والی بی جے پی کینیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ میں مودی جی نے بی جے پی کو رائے دی کہ وہ اب پسماندہ مسلمانوں پر دھیان دیں اور ان کو بی جے پی کی طرف راغب کریں۔ یہ بہت ہی خطرناک حکمت عملی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں ہندو سماج کی طرح ہمیشہ سے ذات پات کا رواج رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں 80 فیصد سے زیادہ آبادی پسماندہ طبقہ او بی سی ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ چونکہ یہ آبادی پسماندہ ہے اور سماج میں اس کو برابری کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے سَنگھ اور بی جے پی کی رائے یہ ہے کہ اس پسماندہ مسلم طبقہ کو بی جے پی کی طرف بہلا پھسلا کر مائل کیا جا سکتا ہے اور اس طرح متحدہ مسلم ووٹ بینک میں سیندھ لگائی جا سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں بی جے پی اپنی حکمت عملی تیار کر چکی ہے۔ حیدر آباد میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں وزیر اعظم نے بی جے پی کو ’سنیہہ یاترا‘ یعنی پریم یاترائیں نکالنے کی ترغیب دی ہے۔ یعنی اس بات کا بہت امکان ہے کہ مسلم پسماندہ آبادی والی بستیوں میں جلد ہی بی جے پی کی یاترائیں نکلیں اور پسماندہ مسلمانوں کو بڑی تعداد میں پارٹی اقلیت سیل کا ممبر بھی بنایا جائے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی مسلمان کو نائب صدر بنا کر ایک تیر سے دو شکار کیے جائیں۔ اس کے ذریعہ مسلم ممالک کو یہ باور کروایا جائے کہ ہندوستان مسلم دشمن نہیں ہے۔ ساتھ ہی پسماندہ مسلمان کو نزدیک کرنے کے لیے اس نائب صدر کا کارڈ بھی استعمال ہو۔
وزیر اعظم نریندر مودی نے ابھی پچھلے ہفتے اس متحدہ مسلم ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے بی جے پی کو ایک مشورہ دیا ہے۔ پچھلے ہفتے حیدر آباد میں ہونے والی بی جے پی کینیشنل ایگزیکٹیو میٹنگ میں مودی جی نے بی جے پی کو رائے دی کہ وہ اب پسماندہ مسلمانوں پر دھیان دیں اور ان کو بی جے پی کی طرف راغب کریں۔ یہ بہت ہی خطرناک حکمت عملی ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں ہندو سماج کی طرح ہمیشہ سے ذات پات کا رواج رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں 80 فیصد سے زیادہ آبادی پسماندہ طبقہ او بی سی ذاتوں سے تعلق رکھتی ہے۔ چونکہ یہ آبادی پسماندہ ہے اور سماج میں اس کو برابری کا درجہ حاصل نہیں ہے۔ اس وجہ سے سَنگھ اور بی جے پی کی رائے یہ ہے کہ اس پسماندہ مسلم طبقہ کو بی جے پی کی طرف بہلا پھسلا کر مائل کیا جا سکتا ہے اور اس طرح متحدہ مسلم ووٹ بینک میں سیندھ لگائی جا سکتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس سلسلے میں بی جے پی اپنی حکمت عملی تیار کر چکی ہے۔ حیدر آباد میں پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں وزیر اعظم نے بی جے پی کو ’سنیہہ یاترا‘ یعنی پریم یاترائیں نکالنے کی ترغیب دی ہے۔ یعنی اس بات کا بہت امکان ہے کہ مسلم پسماندہ آبادی والی بستیوں میں جلد ہی بی جے پی کی یاترائیں نکلیں اور پسماندہ مسلمانوں کو بڑی تعداد میں پارٹی اقلیت سیل کا ممبر بھی بنایا جائے۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ کسی مسلمان کو نائب صدر بنا کر ایک تیر سے دو شکار کیے جائیں۔ اس کے ذریعہ مسلم ممالک کو یہ باور کروایا جائے کہ ہندوستان مسلم دشمن نہیں ہے۔ ساتھ ہی پسماندہ مسلمان کو نزدیک کرنے کے لیے اس نائب صدر کا کارڈ بھی استعمال ہو۔
بشکریہ:روزنامہ قومی سیاست، نیو دہلی