شرافت رانا
عمران ریاض کا رویہ کپتان کی حکومت میں شرمناک تھا ۔ اور آج کل گھٹیا تھا ۔ فوج کے ساتھ ہم پی پی پی والے 50 سال سے لڑ رہے ہیں۔ ہم نے نہ گالی دی نہ گولی چلائی ۔ اس کے باوجود ہم فوج کی جانب سے تشدد اور قتال کا شکار رہے ۔ لیکن یہ سب کچھ جو گیلا تیتر اور اس کے پروموٹر کر رہے ہیں۔ نہ یہ جمہوریت دوستی ہے نہ انقلابی رویہ ہے ۔ یہ محض عاشق معشوق کے مابین جھگڑا ہے ۔ جس میں عاشق کی بے وفائی پر معشوق اپنے اور عاشق کے باھمی تعلقات اور تخلیہ کے معاملات کو پبلک کرنے کی دھمکیاں دیتا ہے ۔ آج گیلے تیتر کو دوبارہ نوکری پر بحال کر دیا جائے تو وہ انجمن تحفظ خوشنودی فوج کی صدارت سے کم پر نہیں مانے گا۔ یہ لوگ شریف الدین پیرزادہ ، کارنیلیس ، حامد خان ،اے کے بروھی سے بھی گری ہوئی مخلوق ہیں۔
سیاسی کارکن یا سیاسی فہم و فراست رکھنے والے کارکن کبھی اس چیز کو نہیں بھولتے کہ جج ، جرنیل اور کرپٹ جرنلسٹ کچھ بھی ہوں ۔ وہ اس ملک میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس ملک میں ان کے رشتہ دار ہیں۔انہیں درست راستہ یا جمہوریت پر چلنے کیلئے مجبور کر سکتے ہیں۔ انہیں راستہ دکھا سکتے ہیں۔ لیکن کوئی بھی سیاسی کارکن انہیں اپنے ایجنڈا پر چلنے کیلئے بلیک میل کرے گا تو ہم ہرگز اس کے ساتھ کھڑے نہیں ہو سکتے ۔
اس وقت پی ٹی آئی کا رویہ کسی بھی صورت میں جمہوری نہیں ہے ۔ جمہوری حکومت جب اپوزیشن میں ہوتی ہے تو وہ حلیف اور حریف سیاسی جماعتوں سے ڈائیلاگ کرتی ہے۔ پی ٹی آئی پارلیمان کا بائیکاٹ کر کے باہر کھڑی ہے ۔ ایک فرد عمران خان کے علاوہ پورے پاکستان کو غدار اور قابل گردن زنی قرار دے رہی ہے ۔
اس کے پاس کوئی سیاسی اثاثہ نہیں ہے ۔ اسے کبھی یہ فکر نہیں رہی کہ عوام کو عمران خان کی محبت اور بے مثال لیڈر ہونے کے علاوہ کچھ سمجھایا جا سکے ۔ لیڈرشپ اپنے کردار سے سیاسی رویوں کی تعمیر کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ پر کبھی غلطی سے بھی یہ الزام نہیں لگایا جا سکتا کہ اس نے نوجوانوں کی شخصیت کی تعمیر کرنے کی کوشش کی ہے ۔ پی ٹی آئی کا میڈیا سیل ایک فرد کو مہاتما ثابت کرنے کے لئے ہزاروں جھوٹ روزانہ گھڑتا اور بولتا ہے ۔ سیاست کی بابت عمران خان کا فہم جھوٹ اور بلیک میلنگ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔
بین الاقوامی سطح پر عمران خان کے طرز فکر اور ان کی گفتگو سے پاکستان کو سنگین خطرات کا سامنا کرنا ہے ۔عمران خان کی وجہ سے سے مودی گلف کے قلعے کو فتح کرنے میں کامیاب ہوا اور پاکستان کو پہلی بار عرب دنیا سے دیس نکالا ملا ۔ یہ عمران خان کی کسی پالیسی کی وجہ سے نہیں ہوا بلکہ ان کی زبان کے غلط استعمال اور ان کی چوری کی عادت کی وجہ سے ہوا ۔عمران خان ایران ، افغانستان ، چین اور اپنی مخالف سیاسی جماعتوں کے بارے میں ہمیشہ غلط بات پر اصرار کرتے رہے۔
آج بھی پی ٹی آئی کے نوجوانوں اور عمران خان کو دوبارہ نوکری کا ذرا سا بھی امکان ملا تو وہ پھر اسی بات پر مصر ہوں گے کہ پاک فوج کی وجہ سے پاکستان قائم اور بچا ہوا ہے اور پاک فوج کو سیاست سے نکالنے کی جدوجہد کرنے والے لوگ اور سیاستدان ، سیاسی کارکن غدار ہیں ۔
مختصر یہ کہ یہ قابل رحم ذہنی مریض ٹولہ ہے ۔ اس کا کوئی علاج نہیں ہے ۔ ان سب کے لئے ایک بڑا سا پاگل خانہ تعمیر کیا جائے وہاں پر انہیں رہنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا جائے ۔ بصورت دیگر افغان حکومت کی منت کی جائے کہ وہ اپنی ثالث اور نمائندہ کو اس کے پیروکاروں سمیت قبول کرلیں۔
♥