بیرسٹر حمید باشانی
یہ اس سال کی سب سے اہم ترین ملاقات تھی۔ یہ ملاقات اس سال فروری میں بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے درمیان ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے نتیجے میں سن 2022 کے سرمائی اولمپکس کے آغاز سے کچھ دیر پہلے، دونوں رہنماؤں نے پانچ ہزار تین سو الفاظ پر مشتمل ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا تھا ۔ اس اعلامیہ میں دونوں ملکوں کے تعلقات کا احاطہ کرتے ہوئے یہ کہا گیا تھا کہ چین اور روس کے درمیان شراکت داری قائم کی جائیگی، اور اس شراکت داری کی “کوئی حد نہیں” ہوگی۔
اس اعلامیہ میں جمہوریت کے بارے دونوں ممالک کی کمٹمنٹ یعنی وابستگی کے سوال پر تفصیل سے بات کی گئی تھی۔ جمہوریت کی شکل و صورت پر مغرب سے اختلاف رائے کے باوجود یہ تاثر دیا گیا تھا کہ دونوں ملک جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں۔ اور جمہوریت کے ساتھ ان کی وابستگی لا زوال ہے۔ اس موقع پر اس وقت امریکہ کی قیادت میں دنیا میں چلنے والے ورلڈ آرڈر پر تنقید کرتے ہونے اسے ایک آمرانہ اور غیر منصفانہ نظام قرار دیا گیا تھا۔ اور اس کی جگہ ایک نئے عالمگیر اور کھلے عالمی نظام کا مطالبہ کیا گیا تھا، جس کا مرکز، کسی ایک ملک کے بجائے اقوام متحدہ ہو۔ اس مشترکہ بیان میں قانون کی حکمرانی، سب کو ساتھ لے کر چلنے اور مشترکہ اقدار سے وابستگی پر زور دیا گیا تھا۔
اس اعلامیہ میں یہ سب کچھ اس وقت شامل کیا گیا، جب ابھی تک روس یوکرین تصادم شروع نہیں ہوا تھا، مگر اس وقت پوٹن اور شی دونوں جانتے تھے کہ روس جلد ہی یوکرین کی سرحد پر ٹینک اور میزائل لانچر بھیجنے والا ہے۔ اور ہوا بھی یہی۔اس اعلامیہ کی سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی روس نے یوکرین سے جنگ چھیڑ دی۔ اور اس جنگ کو آزادی کی جنگ کہنے پر اصرار کیا۔ روس نے یہ اعلان کیا کہ یوکرین کا یہودی صدرایک نازی ہے، جس کے خلاف جنگ نا گزیر ہے۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ حقیقت میں “یوکرین” جیسی کوئی چیز نہیں ہے، اور اس کے قانونی وجود یا جوا زیت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ اور اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ یورپ میں امریکی فورس کی موجودگی، اور اس کے عزائم کے ساتھ نیٹو اتحاد روس کے وجود کے لیے ایک خطرہ ہے، جس کا سد باب ضروری ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر روس اور چین یہ اعلامیہ جاری نہ بھی کرتے، اور روس یوکرین پر حملہ نہ کرتا تو بھی مروجہ نیو ورلڈ آرڈر ناکام ہو چکا تھا۔ اس کا احساس مغرب میں موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی رہنماؤں نے بہت پہلے ہی کرہ ارض کو بحرانوں سے بچانے کے لیے کسی ٹھوس اقدام کی حمایت شروع کر دی تھی۔ انہوں نے بڑھتی ہوئی روسی طاقت کا با معنی جواب دینے کی بات شروع کر دی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ امریکہ ماضی کے غلط تجربات کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھا۔ عراق اور افغانستان میں غلط مہم جوئی سے پریشان واشنگٹن نے خاص طور پر عملی کاموں سے کنارہ کشی اختیار کر لی تھی۔ لیکن عالمی نظام کے لیے اس کی زبانی جمع خرچ اور وابستگی جاری رہی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے اعلی دفاعی اخراجات کا تعلق کسی بھی مثبت حکمت عملی سے زیادہ ملک کے داخلی حلقوں کو مطمئن کرنے کے ساتھ تھا۔ فوسل ایندھن سے لیکر قابل تجدید توانائی کے ذرائع تک دنیا کی منتقلی کھوکھلے وعدوں پر مبنی تھی۔ جیسے جیسے عالمگیریت کی حمایت کم ہوتی گئی، امریکہ اور دیگر ممالک تجارتی معاہدوں سے پیچھے ہٹتے گئے، اور مشترکہ اقتصادی کاروائی کے لیے بین الاقوامی اداروں کو نظر انداز کیا گیا۔
دریں اثنا 2019کے آخر میں جب وبا پھیلی تومروجہ نیو ورلڈ آرڈر یعنی عالمی نظام کا خالی پن مزید واضح ہو گیا۔ اس پر طرہ یہ کہ جب ذمہ داریوں کا وقت آیا تو چین اور امریکہ دونوں نےان ذمہ داریوں سے پہلو تہی کا سلسلہ شروع کیا۔ بیجنگ نے اس وبا کے بارے میں اہم معلومات کو بر وقت دنیا تک پہنچانے کے بارے میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہی کی ۔ واشنگٹن نے ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن سے عین اس وقت علیحدگی اختیار کر لی، جب اسے امریکی قیادت اور وسائل کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔ دولت مند ممالک نے ویکسین تیار کرنے کے لیے ایک دیوانہ وار ہنگامہ آرائی سے کام لیا، اور جو کچھ بھی علاج معالجے کی ادویات دوا ساز کمپنیاں تیار کر سکتی تھیں جمع کر کے باقی دنیا کو نظر انداز کر دیا۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق وائرس نے دنیا کو تقریباً پندرہ سے بیس ملین اموات اور کھربوں ڈالر کا معاشی نقصان پہنچایا، لیکن دولت مند ملکوں میں کروڑوں شاٹس پڑے پڑے ایکسپائر ہو گئے، جن کو اب ضائع کیا جا رہا ہے۔ اس دوران مروجہ عالمی نظام کا ایک اہم ستون جی سیون بھی غیر موثر ہو گیا۔اگست 2021 میں خارجہ پالیسی کے دو عالمی ماہرین کولن کاہل اور تھامس رائٹ نے لکھا کہ2020 کے موسم بہار تک، “تمام عملی مقاصد کے لیے جی سیون کا وجود ختم ہو گیا تھا۔اس ٹوٹتے ہوئے نظام کے لیے آخری جھٹکا روس کا یوکرین پر حملہ تھا۔ یہ ایک ایسا حملہ تھا، جو واقعی پرانے نظام کو دفن کر سکتا تھا، یا کم از کم ماسکو کو یقین تھا کہ ایسا ہوگا۔ لیکن یوکرین کی غیر متوقع اور متاثر کن مزاحمت نے جی سیون کو دوبارہ زندہ ہونے میں مدد کی ۔
اس مزاحمت کے پیش نظر جی سیون کے کچھ اراکین نے اقتصادی جوابی کارروائی کا اہتمام کیا ، اور وہ فوجی امداد فراہم کرنے والے اتحاد میں شامل ہو گئے ۔ ماضی کی بہت سی امیدوں کے ملبے کے درمیان، اب بھی اس بحران سے ابھرنے والے ایک نئے عالمی نظام کا تصور بالکل ہی خارج از امکان نہیں۔ لیکن ایک نئے نظام کی کامیابی کے لیے، اس کے معماروں کو محض ڈرامائی نہیں عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر عالمی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو، سب سے زیادہ طاقتور آئیڈیلزم عام طور پر وہ آئیڈیلزم رہا ہے، جو کچھ تنائج دیتا ہے۔ آج، اس کا مطلب ایک نیا عالمی نظام ترتیب دینا ہے، جس میں چند بنیادی مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہو۔
بہت سے عالمی رہنما جارحیت پر مبنی بلا اشتعال جنگوں کو روکنا چاہتے ہیں، خاص طور پر ایسی جنگ جو کہ تیسری جنگ عظیم کو جنم دے سکتی ہے۔ وہ اقتصادی ترتیب کے ایک نئے وژن کا خیر مقدم کریں گے، جو سیکورٹی کو نظر انداز نہ کرتا ہو، لیکن تصوراتی اور خیالی وعدوں پر بھی مشتمل نہ ہو۔ وہ روس یوکرین جیسے جھٹکوں سے بچنا چاہیں گے۔ وہ اگلی وبائی بیماری کے لیے بہتر طور پر تیار رہنا چاہتے ہیں۔ اور جہاں تک چین کا تعلق ہے تو زیادہ تر عالمی رہنما، اور یہاں تک کہ بہت سے عام امریکی، اب بھی امید کرتے ہیں کہ چین ان کے پیش کردہ حل کا حصہ بننے کا انتخاب کرے گا۔ اس وقت عالمی نظام غیر گلوبلائزڈ اور غیر فعال ہے، اسے ایسے چیلنجز کا سامنا ہے، جن کا سامنا پہلے کبھی نہیں تھا۔
نیو ور لڈ آرڈر مر رہا ہے۔ یہ اب آکسیجن ٹینٹ میں پڑا ہے۔ اس کو اب مصنوعی طریقے سے زندہ رکھنا بے کار ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کا کاروبار چلانے کے لیے ایک نئے عالمی نظام کے خد خال پر بات کا آغاز کیا جائے۔ لیکن نیا نظام صرف اس صورت میں چل سکتا ہے کہ اس میں دو باتیں ہوں۔ ایک یہ کہ یہ نظام مشترکہ ہو، اور دولت مند اور غریب سب کے لیے ہو۔ اور دوسرا یہ کہ یہ منصفانہ ہو۔ اس کے بغیر یہ محض ایک نیا ناکام تجربہ ہو گا۔
♠